! سگانِ شہر کا کوئی تدارک تو کریں

سری نگر شہر میں لوگوں کو آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔بچے، بوڑھے، عورتیں اور دیگر کتوں کے حملوں میں زخمی ہوتے رہتے ہیں اور ان میں بیشتر علاج کیلئے ہسپتال بھی پہنچ جاتے ہیں تاہم حکام خاموش تماشائی بن کر آوارہ کتوں کے سامنے انسنای بے بسی کے یہ نظارے دیکھ رہے ہیں اور یقین دہانیوں سے آگے بڑھنا پسند نہیں کرتے۔آوارہ کتے شام کے بعد زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں اور رات کے اوقات میں مکینوں کے لئے باہر نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔پیدل چلنے والے آسان شکاربن جاتے ہیں جبکہ کتے چلتی گاڑیوں کابھی پیچھا کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ رات کے وقت کتے عملی طور پر سڑکوں، گلیوں اورمحلوں کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

گزشتہ دنوںبارہمولہ ضلع کے پٹن میں آوارہ کتوں نے ایک 10 سالہ لڑکے کو مار ڈالا۔ اس موت کا ذمہ دار کون ہے؟۔یہ یقین سے بالاتر ہے کہ انسانی معاشرے میں ایسی موت کے لیے کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا۔یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ ایک طرز حکمرانی میں جہاں چھوٹے معاملات انتظامیہ کے اعضاء کی طرف سے خوردبینی جانچ پڑتال کا موجب بن جاتے ہیں، وہاں اس شمار پر کسی کو بھی انسانی سلامتی کیلئے جوابدہ نہیں بنایا جاتا ہے۔گویا یہ معمول کی بات ہے کہ کتے بچے کو مارتے ہیں۔ بے حسی کی ایک حد ہوتی ہے اور لگتا ہے ہم نے اُس حد کو بھی عبور کر لیا ہے۔ ایک مہذب اور ذمہ دار معاشرے میں اس پرہنگامہ برپاہوگیا ہوتا۔ ایک موثر اور جوابدہ حکومت میں ایسے واقعات کے بعد اوپر سے نیچے تک انتظامیہ متحرک ہوچکی ہوتی اور جوابدہی قائم کی گئی ہوتی ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہا ں یہ ایک معمولی سی خبر بن گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سب ختم ہو جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جانوروں کے حقوق سے متعلق جو قوانین بنائے گئے ہیں،گویا وہ ہمیں انسانی جانیں بچانے سے روکتے ہیں۔گویا وہ قوانین جو آوارہ کتوں کو زہر دینے کی اجازت نہیں دیتے، وہ ہمیں اپنی گلیوں اور سڑکوں کو کتوں سے پاک کرنے کے اقدامات کرنے سے روکتے ہیں۔

آج بستیوں اور قصبہ جات میں جہاں سے بھی گذر ہوتاہے ، غول درغول آوارہ کتّے لوگوں کے لئے سدراہ بنے ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں کی تعداد میں راہ گیران کے حملوں کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے اور کئی ایک کی تو موت بھی واقع ہوئی ۔آئے روز میڈیا کے توسط سے وادی میںآوارہ کتوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انتظامیہ نے ان سانحات کے محرکات کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے ۔

پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک قانون بنایا ہے ، جس کی رو سے آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد کردی گئی ہے ،لیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی ہدایات موجود ہیں ،مگر یہاںانتظامیہ نے جہاں ایک جانب بستیوں کے اندر غول در غورل گھوم رہی اس موذی مخلوق کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ،وہیں دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود نس بندی کا کوئی ٹھوس پروگرام عمل میں نہیں لایا ، جس کی وجہ سے صورتحال دن بہ دن بے قابو ہورہی ہے۔
ماحول میں قدرتی توازن برقرار رکھنے کیلئے ہر شئے ،چاہئے وہ جاندار ہو یا بے جان ،اپنے آپ میں قیمتی ہے اور ان عناصر کی عدم موجودگی میں انسانی بقا ء کے بار ے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے لیکن جب یہ توازن بگڑجاتا ہے کہ تو مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ایک مخصوص حد تک کتوں کی آبادی ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کیلئے لازمی ہے لیکن جب یہ تناسب حد سے متجاوز ہو تو کتوں کی موجودہ وبا ء کی صورت میں ایک سنگین بحران کا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔

ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا شہریوں اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جہاں تک کتوں کی آبادی پر چیک لگانے کا تعلق ہے تو اس میں عام شہریوں کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلدیاتی سہولیات کا لحاظ رکھتے ہوئے آوارہ اور پاگل کتوں سے اپنی شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے۔ اگر حکومت کی طرف سے آوارہ کتے نہ ہونے کو یقینی بنانے کی خواہش ہوتی تو ہدف بہت پہلے حاصل کر لیا جاتا۔ اگر موجودہ انتظامیہ صرف متعلقہ محکمے کو اس معاملہ پرانسانی حفاظت کیلئے جوابدہ بناتی ہے تو حالات بدل جائیں گے اور تیزی سے بدل جائیں گے۔اگر اس حوالے سے بلدیاتی حکام کو براہ راست جوابدہ بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجوہات کو ختم نہ کیا جاسکے۔اگر ہم آوارہ کتوں کو ختم نہیں کر سکتے، جیسا کہ ایسے قوانین موجود ہیں جو ہمیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں، تو ہمیں ان وجوہات کو ختم کرنے سے کیا چیز روکتی ہے جو آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی میں معاون ہیں۔ کسی کو ان سوالات کو سنجیدگی سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔