’سب کیلئے مکان ‘کی وقاری سکیم ۔2لاکھ مکانات کی منظوری احسن،رقم میں بھی اضافہ کریں

دیہی ترقی کی مرکزی وزارت نے مالی سال 2023۔24 کے دوران آواس پُلس کی مستقل ویٹنگ لسٹ ختم کرنے کیلئے جموں کشمیر کو پردھان منتری آواس یوجنا۔گرامین کے تحت اضافی1لاکھ99ہزار550 مکانات الاٹ کئے ہیں۔ نئے ہدف شدہ مکانات کو 30 جون 2023 تک محکمہ دیہی ترقی کی منظوری دے دی جائے گی۔اس فلیگ شپ سکیم کے تحت جموںوکشمیرکیلئے بڑے پیمانے پر مختص کی گئی رقم بھی ہندوستان کی تمام یوٹیز میں سب سے زیادہ ہے۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر کو اولین ترجیح دینے اور لاکھوں خاندانوں کے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی اور دیہی ترقی کے مرکزی وزیرگری راج سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جموںوکشمیر میںسب کیلئے مکان کا مقصدحاصل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔

 

 

 

مجموعی طور پر یہ سکیم 3.85 لاکھ استفادہ کنندگان کا احاطہ کرتی ہے جن میں سماجی ،اقتصادی و ذات سے متعلق 2011کے سروے میں شامل مستحقین اور آواس پُلس مستحقین شامل ہیںحکومتی اعدادوشمار کے مطابق پروگرام کے آغاز سے لے کر اور پروگرام کے مقصد یعنی ’’سب کیلئے مکان‘‘کے عین مطابق یوٹی حکومت نے سماجی ،اقتصادی و ذات سے متعلق 2011کے سروے اور آواس پُلس کے تحت 1لاکھ 98ہزارمکانات منظور کیے ہیں اور آج تک 1لاکھ34ہزار لاکھ مکانات مکمل ہو چکے ہیں۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ جموںوکشمیر کو سب کیلئے مکانات سکیم کے تحت مزید2لاکھ گھر بنانے کی منظوری ملی ہے اور رواں ماں کے آخر تک ہی ان مکانات کی تعمیر کی منظوری بھی دینی ہے تاکہ ویٹنگ لسٹ ختم ہوسکے تاہم جیسا کہ اس سے قبل بھی انہی سطور میں ہم نے یہ مسئلہ اٹھایاتھاکہ اتنی رقم سے مکان نہیں بنے گا اور اس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ہر سال پنچایت اور وارڈ کی سطح پر ایسے غریب لوگوں کو مکانات تعمیر کرنے کیلئے سرکاری معائونت فراہم کی جارہی ہے جن کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیںہوتی ہے تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سکیم سیاست کی نذر ہوچکی ہے اور صرف سیاسی اثر ورسوخ کرنے والے لوگوں یا پنچایتی و بلدیاتی نمائندوں کی جیبیں گرم کرنے والے لوگوںکو ہی اس سکیم کا فائدہ پہنچایاجارہا ہے جبکہ اصل مستحقین کو بروقت انصاف نہیں ملتا ہے اور انہیں دو کمروں کا آشیانہ بنانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھاناپڑتی ہیں۔ متعلقہ حکام کو ایسے معاملات پر تیزی سے کارروائی کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ متاثرین کو امداد ملے اور وہ بھی بروقت تاکہ وہ اس سے استفادہ کرسکیں۔انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ امداد غریب لوگوں کیلئے ہے، جنہیں مالی مشکلات کی وجہ سے زندگی میں مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

 

 

اگر حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لئے سکیمیں شروع کرتی ہے تو متعلقہ عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ مستحق لوگوں تک سکیم کا فائدہ پہنچائیں۔ مراعات میں تاخیر غریب عوام کے ساتھ ناانصافی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے معاملات کی پیش رفت پر نظر رکھنے کے لئے اعلیٰ سطح پر بھی ایک طریقہ کار ہونا چاہئے۔کسی بھی غیر ضروری تاخیر کی صورت میں ضروری سرکاری کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔ مستحق لوگوں کو زیادہ انتظار نہیں کروایا جانا چاہئے۔بعض اوقات غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے وہ بددلی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے کیسوںکی پیروی کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میںانہیں پھر ایسی سکیموں کافائدہ نہیں ملتا۔یہ اس طرح کی فلاحی سکیموںکی اصل روح کو متاثر کرتا ہے۔ وزیراعظم آواس یوجنا۔گرامین کے تحت ایک مکان کی تعمیر کیلئے میدانی علاقوں میں 1لاکھ20ہزارروپے اور مشکل علاقوں (پہاڑی علاقوں) میں 1لاکھ30ہزارروپے کی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ایسے گھروں میںبیت الخلاء، ایل پی جی کنکشن، بجلی کا کنکشن اور پینے کے پانی جیسی سہولیات میسر ہونی چاہئیں۔ تعمیراتی سامان اور لیبر چارجز کی بڑھتی ہوئی لاگت کو دیکھتے ہوئے مالی امداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اتنی قلیل رقم میں دو کمروں کا مکان آج کی تاریخ میں تعمیر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اس کا فیصلہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر کرنا ہے۔ اس وقت تک جو بھی مالی امداد مقرر کی گئی ہے وہ بغیر کسی تاخیر کے مستحق لوگوں تک پہنچنی چاہئے تاکہ انکی مشکل ترین زندگی میں انہیں کم ازکم ایک ذرا سی آسانی تومیسر ہوسکے۔فلاحی ریاستوں میں حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں اور رعایا کی ہر ضرورت کا خیال رکھیں۔چونکہ ہمارا ملک بھی جمہوری فلاحی ملک ہے تو ایسے میں اس ملک کے اشرافیہ کی بھی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے اور وہ اپنے شہریوں کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔ہمارے ملک میں خط افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور غریبی اس ملک کی وسیع آبادی کا مقدر ٹھہری ہے ۔گوکہ حکومت کی جانب سے غریبی مٹانے کیلئے کئی سکیمیں چلائی جارہی ہیں تاہم سرکاری نظام میں موجود خامیوں اور بے انتہا کورپشن کی وجہ سے حوصلہ افزاء نتائج تاحال برآمد نہیںہورہے ہیں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ صورتحال بدل رہی ہے ۔لوگوں کا معیار حیات بہتر ہوتا چلا جارہا ہے تاہم آج بھی اس ملک میں کروڑوں گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ایسے ہی غریب اور بے گھر لوگوں کیلئے چلائی جارہی وزیراعظم آواس یوجنانامی سکیم اہم رول اداکرسکتی ہے جو بیک وقت شہری اور دیی علاقوں میں چلائی جارہی ہے تاہم مہنگائی کو دیکھتے ہوئے اس رقم میں اضافہ اب ناگزیر بن چکا ہے اور ارباب بست و کشاد سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس امدادی رقم میں اضافہ کرینگے تاہم غریب لوگ اس پیسے سے سرچھپانے کیلئے کم از کم دو کمروںکا آشیانہ بناسکیں۔