رمضان کے بعد مساجد خالی کیوں ہو جاتی ہیں؟ توجہ طلب

ندیم خان۔بارہمولہ

رمضان شریف کے ساتھ ہی گویا نیکیوں کا موسم بہار شروع ہو جاتا ہے، ماحول اللہ اور رسولؐ سے گونج اٹھتا ہے ۔ جوق در جوق لوگ اللہ کی بارگاہ میں آکر مسجدوں کی رونقیں بڑھاتے ہیں لیکن 27 رمضان کو جہاں ختم تکمیل قرآن کی تقریب میںنزول قرآن اور دیگر عبادات کا ذکر کیا جاتا ہے ،وہاں ائمہ کرام یہ بھی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے ان ’’ڈھیر سارے‘‘ نمازیوں کا رمضان کے بعد دوبارہ چہرہ دیکھنا کب نصیب ہوگا؟ ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہر دفعہ رمضان کے بعد ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہماری مساجد نمازیوں سے خالی کیوں ہو جاتی ہیں؟
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ گزر گیا اور شوال المکرم کا مہینہ عیدالفطر سے شروع ہوچکا ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمان عبادات میں نہایت پرجوش ہوتے ہیں، صرف فرائض ہی نہیں نفلی عبادات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، مگر شوال المکرم میں بھی کرنے کے کچھ کام ہوتے ہیں، جن سے ہم اکثر غافل رہتے ہیں۔ وہ کام یہ ہیں کہ سب سے پہلے تو شوال المکرم کے چھ روزے رکھے جائیں ،اگرچہ اتنا اہتمام نہ کیا جائے کہ وہ فرض معلوم ہونے لگیں مگر احادیثِ مبارکہ میں ان کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں ،انہیں مدنظر رکھتے ہوئے ان روزوں کو ضرور رکھنا چاہیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے‘‘ (صحیح مسلم)یہ تو نفل عبادت تھی، جس کی طرف مختصراً توجہ دلا دی گئی ہے۔ اب آتے ہیں اصل کام کی طرف جس کا کرنا نہ صرف شوال بلکہ پورا سال ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جیسے مساجد کو ہم نے رمضان میں آباد رکھا ہوا تھا، ویسے ہی پورا سال آباد رکھیں۔ رمضان المبارک میں مساجد میں اس قدر نمازی ہوتے تھے کہ بسا اوقات مسجدیں چھوٹی پڑ جاتی تھیں۔ وہ لوگ کہاں سے آتے تھے؟ کیا وہ کسی دوسرے شہر سے آئے تھے یا آسمان سے اترے تھے جو رمضان المبارک کے گزرتے ہی لوٹ گئے ہیں اور اب پھر جمعہ کی نماز میں واپس آگئے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ سب بھی اور جمعہ کی نماز میں حاضر تمام افراد بھی اسی محلے کے ہیں، کہیں باہر سے نہ آئے تھے اور نہ ہی کہیں چلے گئے ہیں۔ہم رمضان المبارک میں عبادات کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے، اس میں عبادت کرلیں پھر چھٹی ہوجائے گی۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک مہینہ عبادت کی عادت پیدا ہوگئی ہے تو اسے پورا سال جاری رکھنا چاہیے۔ رمضان المبارک مشق کا مہینہ ہوتا ہے، جس کے بعد پورا سال اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ’’ہم لوگ رمضان میں تو اعمال کے اندر تھوڑا بہت اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ جتنے نیک کام ہیں، سب رمضان کے لیے اٹھا کر رکھ دیے ہیں، نفل پڑھیں گے تو رمضان میں، تلاوت کریں گے تو رمضان میں کریں گے، رات کو اٹھیں گے تو رمضان میں اٹھیں گے، اور اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھیں گے تو رمضان میں پڑھیں گے۔ اس طرح ہم نے سارے کام اٹھا کر رمضان کے لیے رکھ دئیے۔ اور ادھر جیسے ہی رمضان ختم ہوا، ادھر سارے اعمال ختم۔ اب نہ تو تلاوت ہے، نہ ذکر ہے، نہ نوافل ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہے اور نہ گناہوں سے بچنے کا وہ اہتمام ہے۔ رمضان میں گناہ کرتے ہوئے ذرا شرم آجاتی ہے کہ بھائی! رمضان کا مہینہ ہے، ذرا آنکھ کی حفاظت کرلیں، ذرا کان کی حفاظت کرلیں، ذرا زبان کی حفاظت کرلیں، لیکن رمضان گزرتے ہی گناہوں کی چھٹی مل گئی۔ اب نہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام ہے اور جو نیک کام رمضان میں شروع کیے تھے، نہ ان کو باقی رکھنے کا اہتمام ہے۔‘‘ ہمارے ہاں تو لوگ فرض چھوڑ بیٹھتے ہیں ،نوافل کا تو کیا ہی کہنا۔ لوگ فرض نماز کو بھی رمضان یا جمعہ کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں، فرائض بھی رمضان المبارک میں ہی ادا کرتے ہیں جیسے ہی رمضان گزرا تو فرض نماز بھی گئی، اب پنج وقتہ فرض نماز آئندہ سال رمضان المبارک میں ہی ادا کریں گے، تب تک جمعہ کی نماز پر گزارا کرتے رہیں گے۔
رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی مساجد آباد ہوجاتی ہیں جو کہ انتہائی خوشی کی بات ہے۔ لوگ تمام نمازوں کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں، اذان ہوتے ہی مسلمان جوق در جوق مساجد میں آنے لگتے ہیں اور نماز کے بعد اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو مسجد میں بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ مساجد کے ہال کے علاوہ برآمدے، صحن اور چھت بھی نمازیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ مساجد کی اس آبادی کو دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ہے۔ رمضان میں مساجد میں جانے کا بہت لطف آتا ہے کیوںکہ مساجد خوب آباد ہوتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ جوش فقط رمضان المبارک تک ہی محدود ہوتا ہے، جیسے ہی عید کا چاند طلوع ہوتا ہے مساجد کی آبادی کا چاند غروب ہوجاتا ہے۔ عید کے چاند کے ساتھ ہی مسلمان بھی مساجد کےلیے عید کا چاند ہوجاتے ہیں جو پھر سال بعد ہی نظر آتے ہیں۔ عید کے دن تو مساجد ایسے سونی ہوجاتی ہیں جیسے سارے محلے والوں کو جلا وطن کردیا گیا ہے اور اب محلے میں امام صاحب اور صف اول میں نماز پڑھنے والے چند بزرگوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا۔ چند دنوں ہی قبل کی بات ہے۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن تھا، ہر طرف انوار کی بارش ہورہی تھی،مسجدیں آباد تھیں،محلے بارونق تھے، ہر گھر سے قرآن کی تلاوت کی صدائیں آرہی تھیں، ملت کاہر بچہ ، بوڑھا اور جوان مسجد میں نظر آتا تھا۔ نمازوں کے بعد بھی قرآن کی تلاوت کرنے والوں سے مسجدیں آباد رہا کرتی تھیں۔تلاوت کے عمومی شوق کا یہ عالم تھا کہ مسجدوں میں پارے اور صحیفے کم پڑ رہے تھے۔ذکر و اذکار اور نوافل کا بھی خوب اہتمام تھا، لیکن یہ کیا؟ ابھی عید کو دو ہفتے بھی نہیں گزرے کہ مساجد اپنی سابقہ حالت پر آگئیں۔ نہ اب نمازیوں کا ہجوم ہے نہ قرآن کی تلاوت کرنے والوں کی قطاریں ہیں، نہ ہی ذکر واذکار اور نوافل کا اہتمام کرنے والوں کی موجودگی کا احساس۔ ایسے میں ایک حساس دل رکھنے والا مسلمان یہ سوچ رہا ہے کہ آخر وہ مسلمان کہاں چلے گئے، جنہوں نے ان مساجد کو ایک مہینہ تک آباد رکھا تھا؟ اور کیا قرآن کی تلاوت، ذکرو اذکار اور نوافل کا اہتمام رمضان المبارک کے ساتھ ہی مخصوص ہے؟اور اس سے آگے بڑھ کریہ سوچنے پر بھی مجبور ہے کہ کیا نماز کی فرضیت ملّت کے نزدیک صرف رمضان المبارک میں ہی ہے؟
سورۃ الماعون میں کہا گیا ہے کہ ’’اور خرابی ہے ایسے نمازیوں کیلئے جو اپنی نمازوں میں سستی اور کاہلی دکھاتے ہیں‘‘ اس لئے ہمارا مقصد انفرادی اور اجتماعی طور پر سوچ و بچار پیدا کر کے ایک مسلمان کے رمضان شریف کے بعد اُس کے مسجد کے تعلق میں باقاعدگی اور مزید مضبوطی ہو نی چاہیے۔ ابھی رمضان المبارک گزرا ہے، ہم نے جن عبادات کا اہتمام رمضان میں کیا تھا، اُن کا اہتمام اب بھی جاری رکھیں۔ فرض نماز کی تو کسی حال میں چھوٹ نہیں ہے ،ہاں! نوافل اور ذکر و تلاوت کا اہتمام جو ہم رمضان میں کثرت سے کرتے تھے، اب اس حد تک نہیں تو کسی حد تک کرتے رہنا چاہیے، بالکل چھوڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ آئندہ رمضان آئے گا تو پھر ایک مہینے کے لیے یہ تمام عبادات کرلیں گے۔ نہ جانے آئندہ رمضان نصیب ہو یا نہیں، اس لیے پورا سال فرائض اور نوافل کا اہتمام جاری رکھنا چاہیے اور مساجد کو آباد رکھنے کا بھی خیال رہنا چاہیے۔
رابطہ/ 6005293688
[email protected]