رمضان کا حقیقی فلسفہ سمجھیں

رمضان قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں، انسانوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب گمراہی کے صحرامیں بھٹکتی انسانیت کی صدائے العطش، آسمان نے سنی اور باران ہدایت کو عرب کے بیابانوں پر برسنے کا حکم دیا۔ پھر اس سرزمین سے ہدایت کے وہ چشمے ابلے جن سے پوری انسانیت سیراب ہوگئی۔یہ وہ مہینہ ہے جب ظلم کی چکی میں پستی اور سسکتی ہوئی انسانیت کی صدائے عدل کا جواب کائنات کے بادشاہ نے عدل سے نہیں، احسان سے دیا۔ اس طرح کہ قیامت تک کے لیے قرآن کو وہ فرقان بنا کر زمین پر اتارا کہ جس کی ہدایت نے دھرتی کو امن و سکون سے بھر دیا۔ ماہ رمضان کا پہلاا عشرہ جاری ہے اور فرزندان توحید رمضان کے روزوں میں قربت الٰہی پانے میں منہمک ہیں ۔ انسانیت کے مصائب کا علاج آج بھی یہی ہے کہ قرآن کی ہدایت لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور لوگ اسے قبول کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور رمضان کا تعلق اس طرح بیان کیا ہے’’رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا، لوگوں کے لیے رہنما بنا کر اور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سراسر ہدایت بھی ہیں اور حق وباطل کا فیصلہ بھی‘‘۔قرآن کی ہدایت کیا ہے ؟ اگر اسے ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ انسانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے آیا ہے جو انھیں ان کی موت کے بعد درپیش ہوگا۔یعنی ان کے مالک کے حضور پیشی کا مسئلہ، اپنے اعمال کی جوابدہی کا مسئلہ، جنت سے محرومی اور جہنم کی آگ کا مسئلہ، ابدی ذلت یا دائمی عیش کا مسئلہ،مگر بڑی عجیب بات ہے کہ یہ ہدایت جس کا تعلق دنیا سے نہیں آخرت سے ہے، زندگی سے نہیں موت سے ہے، انسانوں کی زندگی اور ان کی دنیا کے سارے مسائل کا واحد ممکنہ حل ہے۔ اس دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ کہ وہ ایک فانی دنیا میں ابدی قیام کے اسباب ڈھونڈتا ہے۔ یہ کہ وہ ایک سرائے میں رہ کر کسی دائمی مستقر کے آرام ڈھونڈتا ہے۔اس عیش اور آرام کی تلاش میں انسان خدا و آخرت کو بھول جاتا ہے۔وہ فانی دنیا کو اپنا مقصد بناتا اور ہر اخلاقی قدر کو فراموش کردیتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان نوع انساں کا شکاری بن جاتا ہے۔ پھر ظلم اور گمراہی کی وہ ساری اقسام وجود میں آتی ہیں جن سے بحر و بر میں فساد پھیل جاتا ہے۔انسانوں کی جان، مال، عزت و آبرو انہی جیسے انسانوں کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے۔ انسان کا اخلاقی وجود اس کی حیوانی خواہشات کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال کا واحد حل وہ قرآنی ہدایت ہے جو پوری قوت کے ساتھ قیامت کے ہولنا ک زلزلے سے انسانوں کو ڈراتی ہے۔وہ اس روز سے انسانوں کو خبردار کرتی ہے جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی اور حسن وزینت کے تمام آثار مٹا کر زمین ایک چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ وہ دن کہ جب لوگ اپنے سوا ہر چیز کو بھول جائیں گے۔قرآنی آیات کھول کر بتادیتی ہیں کہ آخرت کی کامیابی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنا تزکیہ کرتا ہے یا نہیں۔ یہ تزکیہ رہبانیت جیسی کوئی چیز نہیں بلکہ ایمان و اخلاق کی آلائشوں سے خود کو بچانے کا عمل ہے۔ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نفس انسانی میں خیر و شر کا پورا شعور شروع دن ہی سے موجود ہے اور اسی علم کی بنیاد پر انسان یہ جانتا ہے کہ اسے اپنے آپ کو کن آلائشوں سے بچانا اور کن چیزوں کو اختیار کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان اخلاق سے عاری نہیں بلکہ فطرت کا عطا کردہ پاکیزہ لباس پہن کر آتا ہے۔ اس لباسِ فطرت کے دامن میں شرک کا کوئی داغ اور الحاد کا کوئی دھبہ تک نہیں ہوتا۔ اس پر ظلم کا میل اور ہوس کی گندگی نہیں لگی ہوتی۔ مگر دنیا میں موجود شیطانی ترغیبات، حیوانی خواہشات اور ماحول کے اثرات انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ فطرت میں موجود خیر و شر کے تصورات کو بھول کر خواہش نفس کی پیروی اختیار کرتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اس راہ پر آگے بڑھتا ہے، یہ گرد آلود راستہ دامنِ دل اور لباسِ فطرت کو غلیظ سے غلیظ تر کرتا چلاجاتا ہے۔ غفلت کی دھول اور سرکشی کی کالک فطرت کے حسن کو نری غلاظت میں بدل دیتی ہے۔ انسان پہلے پہل خیر و شر کی تمیز کھوتا ہے اور پھر معاشرے میں ہر شر خیر اور ہر خیر شر بن جاتا ہے۔ فطرت میں پیدا ہوجانے والی اس کجی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں پیغمبر بھیجے، کتابیں اتاریں، بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا قرآن نہ صرف تزکیہ کے نصب العین کو انسانوں کے سامنے رکھتا ہے بلکہ ایمان و اخلاق اور فکر و عمل کی آلائشوں کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآن کی اس ہدایت کی روشنی میں ہر بندہ مومن کی زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو فطرت میں موجود اور قرآن میں بیان کردہ ان آلائشوں سے بچائے۔ انسان جیسے ہی یہ عمل شروع کرتا ہے۔ اس کا براہِ راست نتیجہ اس کے اخلاقی وجود پر مرتب ہوتا ہے۔ شرک و الحاد کی گندگی کو دھونے کے بعد انسان اپنے جیسے انسانوں کو خدا بناتا ہے نہ خواہش نفس کو اپنا معبود ٹھہراتا ہے ۔ فلاح آخرت اور اس کے لیے پاکیزگی کے حصول پر انسان کو متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز خدا کے حضور پیشی کا خوف، اس کی پکڑ کا اندیشہ، اس کے عذاب کا ڈر اور اس کا تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا اصل مقصود ہے۔یہ تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے؟۔ اس طرح کہ رمضان میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی۔ دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رکنا انسان کو نہ صرف پرہیز گاری کے آداب سکھاتا ہے بلکہ اسے اس مضبوط قوت ارادی سے آگاہ کرتا ہے جسے استعمال کرکے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے۔ اب جب کہ رمضان کاپہلا عشرہ آدھے سے زیادہ ختم ہوچکا ہے تو ہمیں یہ تہیہ کرلینا چاہئے کہ ہم قرآن کو ہدایت کے لیے پڑھیں گے۔یہ عزم کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں گے۔ یہ جاننے کے لیے پڑھیں گے کہ قرآن جس دن کی مصیبت سے خبردار کرنے آیا ہے وہ کون سا دن ہے۔ فکر و عمل اور اخلاق و عقیدہ کی ان گندگیوں کو جاننے کے لیے پڑھیں گے جن سے بچے بغیر جہنم کی آگ سے نہیں بچا جاسکتا۔رمضان ثواب کا مہینہ ہے۔ آئیے اسے ہدایت کا مہینہ بنادیں۔ یہ بھوک پیاس سے رکنے کا مہینہ ہے۔ آئیے اسے تقویٰ حاصل کرنے کامہینہ بنادیں۔