رمضان المبارک کا پیغام ۔اُمّتِ مسلمہ کے نام فکرو فہم

 محمدشمیم احمدنوری مصباحی

رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے ،اس میں رحمت الٰہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے۔
اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے۔
رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں نبی کریمؐ کی اُمت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے۔
حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :’’ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)
یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ وحدہ لاشریک کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے۔ اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہےکہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے،نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ’’روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے۔‘‘ زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے۔ نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے۔ ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے۔پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔
حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رُکتا ہے ،اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رُکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے،خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا،ورنہ صرف کھانے پینے سے رُکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ روزہ نہیں ہے۔ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ’’اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی ؐ نے ارشاد فرمایا :
’’بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل اُلجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)
اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں،لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے،مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔
اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)
قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا،قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اس کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔
اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے، لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو،بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو بُلایا جائے جو ضرورت مندہوں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہ ہوں۔
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی ضرور بالضرور کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یںجو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔
اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے ،اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے،کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔
رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔دوسری بات، اُمت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں ۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن جائے۔اللہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور تمام مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے۔
[email protected]