دورِ حاضر کے لئے پیغامِ سیرت النبی ؐ شمع فروزاں

میر امتیاز آفریں

تاریخ عالم پر نظر دوڑائیں تو ہمیں عظیم شخصیتوں کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہے لیکن کوئی شخصیت بھی جملہ صفات و کمالات کی جامع اور ہر لحاظ سے کامل نظر نہیں آتی، کہیں عفو و درگزر تو نظر آتا ہے لیکن انداز حکمرانی نہیں ملتا، کہیں مذہبی ظاہر پرستی تو موجود ہے لیکن روحانی پہلو نظر نہیں آتا، کہیں تجرد و پارسائی تو نظر آتی ہے مگر عائلی زندگی کا عملی نظام نظر نہیں آتا،کہیں جاہ و جلال تو موجود ہے مگر عفوِ عام کا جوہر نظر نہیں آتا، کہیں شاہی زندگی بھر پور انداز میں تو موجود ہے لیکن فقر کا پہلو کم نظر آتا ہے۔دراصل انسانیت اپنے جملہ صفات و کمالات کی تکمیل کے لئے ایک ایسی جامع و کامل شخصیت کی محتاج رہی ہےجو انفرادی و اجتماعی لحاظ سے انسان کے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا کرے اور اسے یکسر بدل ڈالے۔ جو ذات صاحب شمشیر بھی ہو اور گوشہ نشین بھی ، جو فرمانروا بھی ہو اور فقر کا پیکر بھی، جو شب زندہ دار بھی ہو اور میدان کا غازی بھی، جو دریا دل سخی بھی ہو اور قناعت کی عملی تصویر بھی، بلکہ فضائل اخلاق کا ایک پیکر مجسم ہو اور ہر پہلو سے کامیاب و کامران اور ہر اعتبار سے مکمل انسان ہو، جو دوسروں کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں عملی نمونہ ہو، ایسی ذات گرامی صرف اور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات ہے۔ اسی لئے آپؐ کی ذات کو پروردگار عالم نے تمام انسانوں کے لئے نمونہ حیات قرار دیا۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔ ( القرآن)
ترجمہ: تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ حیات ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔اس لئے صحابہ کرامؓ نے آپ کے حالات و واقعات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے غیر معمولی اہتمام کیا اور یہ اسی کا ثمرہ ہے کہ آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایمانی و اخلاقی، شخصی و ذاتی، انفرادی و اجتماعی، سیاسی و معاشی اور ملکی و بین الاقوامی کردار، آپؐ کی رحمت، شفقت، عبادت، سخاوت، شجاعت، عدالت، صداقت، دیانت، فراست، متانت ، صبر و استقامت، اخلاص و محبت، ایثار و قربانی، احساس ذمہ داری، عاجزی و انکساری، تواضع و خودداری، تحمل و بردباری، الغرض عملی زندگی کے ہر پہلو کے عملی نمونے ہمارے پاس حضور علیہ السلام کی سیرت کے روپ میں موجود ہیں، تمام قسم کے معاملات اور تعلقات کا جو بہترین نقشہ ہمیں سیرت طیبہ میں نظر آتا ہے، ایسا کہیں اور نہیں ملتا۔چونکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف تاریخ کے ایک بڑے شخص کی سوانح حیات نہیں بلکہ تمام زمانوں کے انسانوں کے لئے ایک مکمل دستور حیات ہے۔ جوں جوں انسان علمی، عملی، روحانی اور اخلاقی میدانوں میں بے راہروی سے دوچار ہوگا، اسے اتنی ہی زیادہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔ دور حاضر کی مشہور محقق اور سیرت نگار کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب
Muhammad: A Biography of the Prophetمیں لکھا ہے:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولولہ انگیز حیات مقدسہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص پوری دنیا کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر سکتا ہے اور پرانی روایات کو نئے انداز میں پیش کرکے لوگوں کی زندگیوں کو روشن اور تاباں کرسکتا ہے۔‘‘
مولانا وحید الدین خان اپنی مشہور کتاب’’ علم جدید کا چیلنج‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہ مانیں تو ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں رہتا کہ ان حیرت انگیز اوصاف کا سرچشمہ کیا تھا جبکہ ساری معلوم تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمیں بیک وقت ایک ایسا بادشاہ نظر آتا ہے سارا ملک جس کی مٹھی میں ہے مگر عاجز اتنا کہ خود کو بھی اپنے اختیار میں نہ سمجھتا ہو اور خدا کے اختیار میں ہو۔دولت مند ایسا کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے اس کی مسجد کے صحن میں آرہے ہوں مگر ‘فقیر ایسا کہ مہینوں اس کے گھر میں چولہا نہ جلتا ہو۔اور کئی کئی وقت اس پر فاقے سے گزر جاتے ہوں۔سپہ سالار اور شجاع ایسا کہ مٹھی بھر نہتوں کو لے کر ہزاروں کی سازو سامان سے لیس فوج سے ٹکرا کر کامیابی حاصل کرے اور صلح پسند ایسا کہ ہزاروں پرجوش جانثاروں کی ہمراہی کے باوجود حدیبیہ کے میدان میں صلح کے کاغذ پر بے چون وچرا دستخط کردیتا ہو اور ساری زندگی اپنے ہاتھوں کسی انسان کا خون نہ بہاتا ہو۔
با تعلق ایسا کہ عرب کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی اسے فکر ، بیوی بچوں کی، افراد خانہ کی، غلاموں کی، یتیموں کی، ناداروں کی اور حاجت مندوں کی اس کو فکر مگر مخلوق خدا سے بے فکر اتنا کہ خدا کے سوا اسے کوئی یاد نہ ہو اور اسی بندگی میں محو ہو۔
آپ ؐنے اپنی ذات کے لئے اپنا برا چاہنے والے بد خواہوں سے کبھی بدلہ نہ لیا اور اپنے ذاتی جانی دشمنوں کے حق میں دعاء خیر کی اور ان کا بھلا چاہا۔لیکن خدا اور راہ حق کے دشمنوں کو آپ نے کبھی معاف نہیں کیا اور انہیں عذاب الٰہی سے ڈراتا رہا۔
عین اس وقت جب اس پر ایک تیغ زن سپاہی کا دھوکا ہوتا ہے، وہ ایک شب بیدار زاہد کی صورت میں رات کی تنہائیوں میں یاد خدا میں روتا ہوا نظرآتاہے۔ عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح کا شبہ ہوتا ہے، وہ قل انما انا بشرٌ کی صدائیں لگاتا ہوا نظرآتاہے۔جب ہم آپؐ کو شاہ عرب کہ کے پکارنا چاہتے ہیں وہ کھجور کی چھال کی کھردری چٹائی پر بیٹھا ہوا ایک درویش خدا نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تڑپ اٹھتے ہیں:
’’یا رسول اللہ !اس سے بڑھ کر ہمارے لئے رونے کا کیا مقام ہوگا کہ قیصر و کسریٰ مزے لوٹ رہے ہیں، عیش کر رہے ہیں اور آپؐ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہوکر اس حالت میں ہیں۔‘‘ارشاد ہوتا ہے: ‘ ’’عمر! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ قیصر و کسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادتیں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ حضورؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر دو وقت بھی سیر ہوکر کھانا نصیب نہ ہوا۔ (پیغمبر اسلام کی سوانح حیات ترجمہ نعیم اللہ ملک)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو مذکورہ مترجم نے ایک دوسری کتاب میں کچھ اس طرح جامع انداز میں پیش کرنےکی کوشش کی ہے:
’’ایک ایسی شخصی زندگی ،جو ہر طائفہ انسانی اور ہرحالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہرقسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو،صرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت ہے۔اگر دولتمند ہوتو مکہ کے تاجر اوربحرین کے خزینہ دار کی تقلیدکرو،اگر غریب ہوتو شعب ابی طالبکےقیدی اور مدینے کے مہمان کی کیفیت سنو ، اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو ، اگررعایا ہوتو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو ،اگر فاتح ہو تو بدرو حنین کےسپہ سالار پرنظر دوڑاو،اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سےعبرت حاصل کرو ،استاد اور معلم یو تو صفہ کی درسگاہ کے معلم مقدس کو دیکھو ،اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماو ، اگر واعظ اور ناصح ہوتو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونےوالے کی باتیں سنو،اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یارو مددگار نبی کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنےہے،اگر حق کی نصرت کےبعد اپنے دشمن کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو فاتح مکہ کا نظارہ کرو ،اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو خیبراور فدک کی زمینوں کےمالک کےکاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو،اگر یتیم ہو تو عبداللہ اورآمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو،اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو ،اگر جوان ہو تو مکہ کے باحیا اور غیرت مند جوان کی سیرت پڑھو،اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے کارواں سالار کی مثالیں ڈھونڈو ،اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجراسود کو کعبے کے ایک گوشے میں کھڑا کر رہا ہے،مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب سب برابر تھے، اگر تم بیویوں کے شوہر ہو توخدیجہ اور عائشہ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو ، اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ کےباپ اور حسن اور حسین کے نانا کا حال پوچھو،غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو، رسول اللہ کی زندگی تمہارےلیےبہترین نمونہ ہے۔‘‘(محمد ﷺ: پیغمبر عہد رواں)
دین حق کے دشمن قریش نے آپؐ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا، کس کس طرح اذیتیں نہ پہنچائیں، جسم مبارک پر صحن حرم میں ناپاکی ڈالی، گلے میں چادر ڈال کر پھانسی دینے کی کوشش کی، راستے میں کانٹے بچھائے، آپؐ کو شعب ابی طالب میں تین سال تک قید میں ڈال دیا گیا، دارالندوہ میں آپؐ کو قتل کرنے کی سازش رچی گئی اور آپؐ کو اپنا محبوب شہر مکۃ المکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، ان حالات میں بھی آپؐ نے صبرواستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپؐ پر جنگیں مسلط کی گئیں، آپؐ کے صحابہ کو بدترین قسم کی اذیتیں دی گئیں۔
دنیا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دشمن سے پیار کرنے کا وعظ سنا تھا مگر اس کی عملی مثال نہیں دیکھی تھی۔ آپ ؐ نے عملی مثال دیتے ہوئے عفو و درگزر کے نئے پیمانے وضع کئے۔ آپؐ نے اس ابو سفیان کو جو تمام لڑائیوں میں کفار کا سرغنہ تھا، کو بھی معاف کر دیا بلکہ فتح مکہ کے روز اعلان فرمایا کہ جو بھی ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے امان دی جائے گی۔اس کی بیوی ہندہ کو بھی جو آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ کرچکی تھی، کو بھی معاف کردیا۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی کو اور سب سے بڑے دشمن اسلام ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو بھی آپ نے معاف کر دیا۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں اپنے تمام دشمنوں پر اقتدار حاصل ہوا اور یہ موقع ملا کہ آپ ؐان سے بدلہ لے سکیں مگر آپ ؐنے غیر معمولی عفو و درگزر کا مظاہرہ کرکے ان سے فرمایا:’’ آج میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ظالم بھائیوں سے کہا تھا: لا تثریب علیکم الیوم یعنی آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں، تم سب آزاد ہو۔‘‘
دور حاضر میں عدم برداشت کی وجہ سے مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم کا فقدان ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا ہے۔ان حالات میں میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ جیسے واقعات سے علمی و عملی رہنمائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دکھی انسانیت کو کچھ راحت پہنچائی جاسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں سے مل کر ریاست مدینہ کو استحکام بخشنے کی پہل کی، نجران کے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں ٹھہرایا اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ لا اکراہ فی الدین کے سنہرے اعلان سے آپ نے جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے روک دیا اور ایمان کو انسان کا آزادانہ انتخاب قرار دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خونریز جنگوں کو بھی اخلاقی ضابطوں کے تحت لا کر ایک نئی سوچ متعارف کی۔ یوں آپ نے امن پسندی، قوت برداشت اور رواداری کی روشن مثالیں قائم کیں جن سے استفادہ کرنا اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے خوش گوار روابط استوار کرنے کا دستور العمل وضع فرمایا اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ ہمیشہ خیال رکھا۔
دور حاضر کے جتنے بھی علمی، عملی، روحانی، اخلاقی، سیاسی و عمرانی مسائل ہیں ان کا حل کسی نہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ کے ان گنت گوشے ہیں جو ہر دور کے انسان کے لئے مشعل راہ ہیں۔ انسان چاہے کتنی بھی علمی اور اخلاقی عروج حاصل کرے گا اتنی ہی اسے پیغمبرِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی ضرورت ہوگی۔