’دودھ کا دریا‘یاغلاظت کی آماجگاہ؟ دودھ گنگا نہرکی تباہی کے ذمہ داروں کیلئے اس کی بحالی بھی واجب!

عارف شفیع وانی
بے لگام آلودگی، تجاوزات اور غیر قانونی کان کنی نے وسطی کشمیر کے بڈگام اور سری نگر کے اضلاع میں دودھ گنگا نالہ کیلئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔پیر پنچال پہاڑ میں گلیشیئروں سے نکلنے والی دودھ گنگا نہرکا پانی چند دہائیوں پہلے تک اتنا صاف تھا کہ اسے ’’دودھ کا دریا‘‘ کہا جاتا تھا۔ دودھ گنگا دریائے جہلم کی معاون ندیوں میں سے ایک ہے اور بڈگام اور سری نگر کے کئی علاقوں سے گزرتی ہے اور ہوکرسر آبی پناہ گاہ میں بھی داخل ہوتی ہے۔
دودھ گنگا سری نگر کے بالائی علاقوں کیلئے پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تاہم تحفظ کے اقدامات کی عدم موجودگی میںدودھ گنگانالہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بڑے پیمانے پر آلودہ کیا جاچکا ہے اور اس پر ناجائز قبضہ بھی کیاگیا ہے ۔سرکاری بے حسی اور عوامی لالچ کی وجہ سے دودھ گنگانالہ پر کئی جگہوں پر دکانوں اور عمارتوں کی تعمیر کے ذریعے اس کے پشتوں پر بڑے پیمانے پر تجاوزات کئے گئے ہیں۔
سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس (STPs) کی عدم موجودگی میںچاڈورہ سے سری نگر تک دودھ گنگانالہ کے پورے حصے میں تمام نکاسی و بدرو کے نالے اس ندی میں بہتے ہیں۔اگریہ کافی نہیں تھا،تو برنہ وار، موچھواہ، چاڈورہ، باغ مہتاب، ٹینگہ پورہ اور چھانہ پورہ میں ٹنوں کے حساب سے ٹھوس فضلہ بشمول کوڑا کرکٹ اس کے پشتوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
دودھ گنگا کو خاص طور پر چاڈورہ میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی کان کنی سے معدوم ہونے کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ جموں و کشمیر معمولی معدنی رعایتی قواعد 2016 کے تحت ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاری مشینیں جیسے JCBs اور L&T کرینوں کا استعمال دریا کے کنارے سے کان کنی موادجیسے ریت و بجری نکالنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف دریا کے نباتات اورجمادات متاثر ہو رہے ہیں بلکہ مٹی کاکٹاؤہورہا ہے بلکہ بڑے پیمانے پرنالہ کی ایک طرح سے خاموش بھرائی بھی ہورہی ہے۔غیر قانونی کان کنی تیزی سے ہوکرسر کی آبی پناہ گاہ کو کچل رہی ہے کیونکہ دودھ گنگا اس ویٹ لینڈ سے گزرتی ہے، جو کہ ایک نامزد رامسر سائٹ ہے۔70 سال سے زائد عرصہ پہلے دودھ گنگا سری نگر سے آلوچی باغ اور بٹہ مالو سے گزرتی تھی۔ اس کی ایک نہر بھی چند سال پہلے تک بٹہ مالو سے گزرتی تھی لیکن یہ آہستہ آہستہ بٹہ مالو سے شالہ ٹینگ تک کنکریٹ کے ڈھانچے، پارکوں اور بس سٹینڈوں کے نیچے دب گئی۔
حکومت اور عوام دونوں ہی دودھ گنگا کیلئے بے رحم رہے ہیں۔ اس کی نہر بٹہ مالو سے بمنہ تک بارشوں کے بعد شہری سیلاب کو روکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔ برسوں کی نیند کے بعد اس کا احساس کرتے ہوئے، سری نگر میونسپل کارپوریشن نے اس سال کے شروع میں آلوچی باغ سے چھتہ بل تک دودھ گنگا نہر پر تعمیر شدہ غیر قانونی ڈھانچوںکو ہٹانے کی مہم شروع کی تھی تاہم مکینوں اور کچھ سیاست دانوں کے شور شرابے کے بعداس جائز اور ناگزیر انہدامی مہم کو روک دیا گیا۔
دودھ گنگا نہر کی بحالی سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے اہم اجزاء میں سے ایک ہے۔ایک ممتاز ماحولیاتی کارکن، ڈاکٹر راجہ مظفربٹ کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) نے کئی برسوںسے جموں و کشمیر حکومت کو دودھ گنگا کے تحفظ کیلئے متعدد ہدایات جاری کرتا رہا ہے۔ لیکن اس کے بعد اس کی حالت بہتر بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ NGT نے گزشتہ سال جموںوکشمیرحکومت پرعدم صفائی شدہ رقیق و ٹھوس فضلہ کے اخراج کی وجہ سے دودھ گنگا کی آلودگی کو روکنے میں ناکام رہنے پر 35 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔جسٹس سدھیر اگروال اور ڈاکٹر اے سینتھل ویل (ماہر رکن) کی بنچ نے ایک حکم جاری کرتے ہوئے کہاتھا’’گزشتہ برسوں کے دوران حکام نے دودھ گنگانہر میں آلودگی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں زمینی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں دکھائی ہے جو بڈگام اور سری نگر اضلاع سے گزرتی ہے اور سری نگر کے بالائی علاقوںمیں ڈیڑھ ملین سے زیادہ آبادی کیلئے پینے کے پانی کا ذریعہ ہے‘‘۔بنچ نے کہا تھاکہ مکانات و شہری ترقی محکمہ ،حکومت جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے پیش کی گئی تعمیلی رپورٹ میں زمینی سطح پر کوئی حقیقی پیش رفت نہیں دکھائی گئی ہے۔ ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ بمقابلہ وفاق ِہند و دیگر کے عنوان سے مقدمہ دوبارہ 29 مئی کو سماعت کیلئے درج کیا گیا تھا اور اس کی سماعت بھی ہوئی ۔کمشنر ایس ایم سی سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کی حمایت میں حلف نامہ داخل کریں کہ زمین پر کچھ کارروائی کی گئی ہے۔
دودھ گنگانہر پر وسیع تحقیق کرنے والے ڈاکٹرراجا مظفر بٹ کہتے ہیں’’پولیوشن کنٹرول کمیٹی کی جانب سے غیر قانونی کان کنی میں ملوث اصل مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور اس کے بجائے محکمہ ارضیات اور کان کنی کی جانب سے ایک سال سے زائد عرصہ قبل جرمانے کئے گئے کچھ ٹپر اور ٹرالی ڈرائیوروں کو دوبارہ بھاری جرمانے کئے گئے ہیں۔ محکمہ ارضیات اور کان کنی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے جو خاص طور پر بڈگام میں اس مجرمانہ فعل میں ملوث ہے۔ دودھ گنگا میں آلودگی کے سلسلے میں، ایس ٹی پی نہیں لگائے گئے ہیں، حالانکہ این جی ٹی کو تقریباً ایک سال قبل اس کے بارے میں یقین دہانی کرائی گئی تھی‘‘۔ ڈاکٹر راجہ مظفر نے کہا کہ غیر علاج شدہ پانی چاڈورہ سے ٹینگہ پورہ تک چھانہ پورہ، نٹی پورہ اور برزلہ کے راستے دودھ گنگا میں بہہ رہا ہے جہاں ایرا(ERA) اور ایس ایم سی نے پمپ سٹیشن قائم کئے ہیں۔
ڈاکٹرراجا مظفر بٹ نے کہا کہ برنہ وارپن بجلی پراجیکٹ کیلئے میچ خانین کے گرد وسیع سرسبز چراگاہ سے اس کے پانی کا رخ موڑنے سے اس کی ہائیڈرولوجی متاثر ہوئی۔وہ کہتے ہیں’’دودھ گنگا جسے چھژء کوہل بھی کہا جاتا ہے، 4500 میٹر کی بلندی پر واقع پہاڑ شنکر بل بل کے آس پاس پیر پنجال کے گلیشیئروںسے نکلتی ہے۔ نام نہاد ترقی نے اس عظیم دریا کو تباہ کر دیا ہے۔ ایک چھوٹے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے اپنے تاریخی راستے کو تبدیل کرکے ہم نے عملی طور دودھ گنگا نہرکا قتل کیا ہے۔ دوسری طرف دودھ گنگا کے جنگلاتی حدود میں جنگلاتی درختوں کی مسلسل کٹائی ہمارے جنگلات وحولیات کیلئے خطرہ بن رہی ہے۔ اگر محکمہ جنگلات نے دودھ گنگا وادی کے ارد گرد جنگلات اور ماحولیات کے تحفظ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو آنے والی نسلیں ہمیشہ ان کو کوستی رہیں گی اور ہم وہ سب کچھ کھو دیں گے جو ہمیں قدرت نے عطا کیا تھا‘‘۔
 جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ نے اپنی پچھلی سماعت میں حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ دودھ گنگا کی آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط کو روکے اور اس پر فلٹریشن پلانٹ بنائے۔عدالت نے مفاد عامہ کی عرضی (PIL) کو بند کر دیا تھا، جسے عدلیہ نے 2019 میں گریٹر کشمیر میںشائع ایک خبر کا نوٹس لینے کے بعد شروع کیا تھا۔ رپورٹ میں دودھ گنگا ندی کی بگڑتی ہوئی حالت اور اس پر فلٹریشن پلانٹ پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ عدالت نے پی آئی ایل کو بند کر دیا تھا کیونکہ این جی ٹی کیس کی نگرانی کر رہاہے۔
دودھ گنگا کشمیر کے ماحولیاتی نظام کا اہم حصہ ہے۔اب تک اس قدرتی اثاثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف ایک دریا نہیں ہے بلکہ پانی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کی وجہ سے ایک شہ رگ ہے۔ لوگوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ دودھ گنگا کی بحالی میں بڑے پیمانے پر عوامی شرکت کے ساتھ ساتھ سائنسی مداخلت کی ضرورت ہے۔ اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا حکومت اور عوام کی اتنی ہی اجتماعی ذمہ داری ہے جتنا کہ اس کے بگاڑنے میں ان کا کردار تھا۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘ کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔)