خواتین کی تکریم اور ہمارا معاشرتی شعور!

عورت کی تکریم کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب حضور اکرمؐ سے ملنے تشریف لاتی تو آپؐ اپنی چادر بچھاتے اور کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کی عزت و تکریم میں اضافہ فرماتے۔حضور اکرمؐ کا یہ فعل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک واضح پیغام بھی ہے کہ عورت قابلِ عزت ہے۔بیٹی ہے تو باپ کی عزت ،بیوی ہے تو شوہر کی غیرت،بہن ہے تو حرفِ دعا،ماں ہے تو سراپا دعااورجنت کا راستہ۔قبل از اسلام عورت کی کوئی عزت و تکریم نہ تھی۔نبی اکرم ؐ نے اس معاشرے میں عورت کو عزت سے نوازجو معاشرہ ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا تھا۔جس معاشرے میں عورت کی خریدو فروخت کی جاتی تھی اُس معاشرے میںعورت کا پیدا ہونا ہی گناہ تصور کیا جاتا تھا،بیٹی کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھامگردرود و سلام ہو نبی رحمت ؐپر، جنہوںنے عورت کو اعلیٰ رُتبہ دیا ،وہ مقام دیا جو کسی دین نے ،کسی مذہب نے نہ دیا۔عورت کو جائیداد میں وارث مقرر کیا ،عورتوں کے حقوق متعین کیے۔جس معاشرے میں عورت کو ایک غلام ایک باندی کی حیثیت دی جاتی ،اُس بے حس معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام دیا۔نکاح مقرر کیا ،عورتوں پر تشدد سے روکا گیا۔بیٹی کی پیدائش پر شرمندگی کے بجائے رحمت کے لقب سے نوازا گیا۔نبی پاکؐ نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا: عورتوں پر ظلم نہ کرو، عورتوں کی حقوق بتائے گئے ،عورت کو شرمندگی کے بجائے پاکیزگی سے تشبیہ دی گئی ،عورت پر پردہ واجب کیا گیا۔قبل از اسلام عورت کی کوئی ازدواجی حیثیت نہ تھی۔نبی اکرمؐ ؐنے مطلقہ عورت سے نکاح کیاجبکہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اگر کسی عورت کا خاوند مر جاتا تو اُس بیوہ کو دوسرے نکاح کی اجازت نہیں تھی اور اسے منحوس سمجھا جاتاتھا۔ یہ دین اسلام ہی ہے، جس نے عورت کی عزت میں چار چاند لگائے۔عورت کو جائیداد سے حصہ دیا۔نکاح میں اپنی مرضی ظاہر کرنے کا حق دیااور تشیح نکاح کا حق دیا۔عورت کا مہر مقرر کیا،عورت کو گھر کی ملکہ کہا،عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی۔نبی اکرم ؐ نے فرمایاجنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
چودہ سو سال قبل اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ،آج کا معاشرہ اس سے بہت دور ہے۔ایسا لگتا ہے کہ موجودہ دور پھر زمانہ جاہلیت میں دوبارہ داخل ہو رہاہے ۔آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی مختلف طریقوں  سے عورت پر مظالم جاری ہیں۔کہیں جائیداد کے لالچ میں لڑکی سے شادی کی جا رہی اورغریب لڑکیوں کو ٹھکرایا جاتاہے۔جہیز نہ ہونے کے باعث کئی لڑکیوں کو خود کشی پر مجبور کیا جارہا ہے ۔کہیں جائیداد کی بندر بانٹ میں بہن کو زہر دیاجاتا ہے تو کہیں پسند کی شادی پر قتل کیا جا رہا ہے۔ کہیں بنتِ ہوا کی برہنہ ویڈیو بنا کر اس کی عزت تار تار کی جا رہی ہے تو کہیں عورت کو سرِ بازار نیلام کیا جا رہا ہے۔کہیں بیٹی پیدا ہونے پر اُسے لتاڑا جاتا ہے تو کہیں بیٹی کو جنم دینے کی وجہ سے طلاق دی جا رہی ہے۔کہیں بانجھ کہہ کر طلاق دی جا رہی ہے تو کہیں جہیز نہ لانے پر پٹرول چھڑک کر جلایا جا رہا ہے۔کہیں اپنی جنسی خواہشات کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہےتو کہیں تیزاب پھینک کر عور ت کے نسوانی حسن کو برباد کیا جارہا ہے۔کہیں دفتروں میں کام کرنے والیوں کی عزت داؤ پر ہے تو کہیں گلی کوچوں کے اوباشوں کی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔کہیں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھ کر تو کہیں باندی کے طورپر طلاق سے زیر کیا جارہا ہے۔کہیں سوشل میڈیا پر ورکر خواتین کے چہرے کی ایڈیٹنگ کرکے عورت کا تقدس پامال کیاتو کہیں کمسن بچی سے اجتماعی زیادتی کی جارہی ہے اور یہ سفاک جنسی درندے انسانیت کو شرمسارکررہے ہیں۔عورت جائے توجائے کہاں؟آخر کیوں بھول گئے آج کے مسلمان کہ اسلام نے عورت کو کیا رتبہ دیا ہے۔معاشرے کی دوڑ میں اگر عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہے تو اسے آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم ؐ کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت بی بی خدیجہؓ ایک خاتون تاجر تھیںاور نبیؐ نے پہلا نکاح اُن ہی سے کیا جبکہ وہ مطلقہ بھی تھیں۔ جب نبی پاکؐ کی زوجہ محترمہ تاجر تھیں تو کیا نبی پاکؐ نے انہیں کبھی تجارت سے منع فرمایا، بلکہ نبی کریم ؐحضرت خدیجہؓ کے ساتھ تجارت کیا کرتے تھے۔آج اگر ایک خاتون کا م کرنا چاہتی ہے تو اسکے راستے میں ہزاروں مسائل کھڑے کئے جاتے ہیں۔مختلف صورتوں میں عورت کو تنگ کیا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے اُسےذلیل کیا جاتا ہے ۔مختلف لوگ مختلف قسم کے دلائل دیکر عورت کو گھر تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ جو عورت کا م کرتی ہے، اُسے غلط زاویے سے دیکھا جانا لوگوں کا وطیر ہ بن گیا ہے۔عورت کی جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے مختلف قسم کے حیلے بہانے کیے جاتے ہیں۔اسے سالوں گھروں میں بٹھا رکھتے ہیں۔ جہیز نہ ہونے سے ایک غریب کی بیٹی سے کوئی شادی نہیں کرتا۔غرض یہ کہ آج کے اس مادی دور میں عورت بے پناہ قربانیا ں دے رہی ہے۔اپنے گھر کے لیے ،خاوند کے لیے ،بچوں کے لیے کام کرنے والی خاتون اپنا گھر سنبھالتی ہے،بچے پالتی ہے اور خاوند کے نازنخرے بھی برداشت کرتی ہے۔میں یہاں یہ کہنا چاہوں گی تما م مرد ایسے نہیں جو عورت کی عزت نہ کرتے ہوں لیکن یہ بھی سچ ہے زیادہ تر مر د عورت کو پاؤں کی جوتی اور تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔جس کا اب یہ بھی نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ غیر مسلم بھی مسلم خواتین کی عزت و حرمت سے کھیلنے لگے ہیں ۔اب تو حجاب یا پردے کی بھی مخالفت ہورہی ہے ،بغور دیکھا جائے تو اس کی قصور وار بھی خود مسلم خواتین ہی ہیں ،جو آزاد خیال ماحول میں پلی بڑھی اور جوان ہوئیں اور انہوں نے ہی مختلف معاملات میں غیرمسلموں کے رسم ورواج کی تقلید کرکے اسلامی شعائر سے بغاوت کردی ،جس میں پردہ (حجاب) بھی شامل ہے ۔آج اس کا فائدہ اُٹھاکر بعض غیر مسلم تنظیمیں مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی لگانے پر بضد ہیں۔کرناٹک کی صورت حال ہمارے سامنے ہے ۔یہ صورت حال کون سارُخ اختیار کرتی ہے ۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ جو مناظر سامنے آرہے ہیں ،اُن سے خطرے کی بُو ضرور آتی ہے۔دعا ہے کہ مسلم معاشرہ کی خواتین پر اللہ رحم کرے اور اپنے امان میں رکھے۔آمین