خطہ پیر پنچال کا پہاڑی طبقہ۔دوہری پالیسی کیوں ؟

ہندوستان کی سابقہ ریاست اور موجودہ مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر کے خطہ پیر پنجال اور کرناہ ٹیٹوال کی پہاڑی برادری یہاں کی پشتنی آبادی ہے۔ ۱۹۴۸ء سے قبل یہ پہاڑی برادری جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکثریتی برادری تھی۔ غیر فطری تقسیم کی وجہ سے اس برادری کے تشخص کو چند اقتدار کے حریصوں نے پامال کر دیا ، پھر بھی موجودہ جموں کشمیر میں کشمیری اور ڈوگر آبادی کے بعد پہاڑی زبان بولنے والی آبادی تیسرے نمبر پر ہےاور جموں کشمیر میں بالعموم اور خطہ پیر پنچال میں بالخصوص آباد ہے۔ خطہ پیر پنچال میںآباد لوگوں کاتہذیب و تمدن اور ثقافت یکسان ہے، ہر برادری خواہ گوجر ہو یا پہاڑی ،سب کا رہن سہن،کھانا پینا ،پہناوا اور رسومات ایک ہی ہے۔ سبھی لوگ ایک ہی جغرافیائی حدود کے اندر رہتے ہوئے مالی لحاظ سے آسودہ حال ہیںاور ہر برادری کا زندگی گذارنے کا رنگ ڈھنگ و لوازمات مشترک ہیں۔ ایسا نہیں کہ ایک برادری کوجو چیز میسر ہے،وہ  دوسری کو میسر نہیں ہے، یہاں رہائش پذیر گوجر اور پہاڑی ایک ہی طرح کے مکانوں میں بود و باش رکھتے ہیں، ایک ہی چشمہ(باولی) کا پانی پیتے ہیں اور یکسان قسم کے کھانے کھاتے ہیں۔ چاول ، مکی ، گندم ، دالیں اور سبزیاں ایک ہی کھیت سے حاصل کرتے ہیںجبکہ شادی بیاہ کی رسومات بھی مشترک ہیں۔ خطہ پیر پنچال کے سبھی لوگ گائے، بھینس، بھیڑ ، بکری اور گھوڑے وغیرہ پالتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اپنی جان و مال مویشی اور شکار کے لئے یہ سب برداریوں کے لوگ پالتو کتے بھی رکھتے ہیں۔ برسات کے موسم میں جہاں بکروال وغیرہ کشمیر ڈھوکوں میں جانوروں کی پرورش کے لئے جاتے ہیں وہیں پہاڑی طبقہ کے لوگ بھی اِن ڈھوکوں کی طرف اپنا مال مویشی لیکر برسات کے زمانے میں نقل مکانی کرتے ہیں۔ ان میں مسلماں ڈگر و دیگر پہاڑی قابل ذکر ہیں جو چندیؔ مڑھ، تھریاساؔں ،پوشانہ ججیناڈ وغیرہ ڈھوکوں میں جاتے ہیں۔ الغرض اگر خطہ پیر پنچال میں آباد تمام برادریوں کا رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ثقافت جب مشترک ہے تو اس تفادت اور انتخاب کا کیا مطلب ہے اور کیوں ؟۔
ہماری تحریر کا مقصد کسی ذات برادری پر تنقید یا انگلی اٹھانا  ہرگزنہیںہے بلکہ خطہ پیر پنچال کی پہاڑی برادری کے ساتھ عرصہ ستر سال سے ہو رہی ناانصافیوں کا تذکرہ کرکے سرکار سے ان کا مداوا کرنے کی اپیل کرناہے۔چنانچہ ایک جغرافیائی حدود کے اندر ایک برادری کے اعلی تعلیم یافتہ بچے کو ملازمت کے حصول میں اگر سہولت ملتی ہے تو دوسری برادری کےاعلیٰ تعلیم یافتہ بچے کا بھی اتنا ہی قانونی ، قدرتی اور اخلاقی حق بنتا ہے،اس لئے یہ سب مراعات پہاڑی زبان بولنے والے بچوں کو بھی دی جانی چاہیے اور اصولی طور پر کسی ذات برادی یا طبقے کو اس ضمن میں کسی بھی قسم کا اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا ہندوستان کے وزیر داخلہ جناب امت شاہ جو اِن دنوں یو ٹی جموں کشمیر کے دورے پر ہیں ، سے ہماری مؤدبانہ اور عاجزانہ گزارش ہے کہ خطہ پیر پنچال کی زمینی صورت حال کو مدِ نظر رکھ کر اس خطہ میں آباد پہاڑی زبان بولنے والوں کو ایس ٹی کا درجہ دلوانے کے لیے  منصفانہ رول ادا کریں اور اس پسماندہ طبقہ کی گزشتہ ستر سال کی درینہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے ملک کے وزیر اعظم جناب نریندررمودی سے بات کریں۔ ملک کے اس پسماندہ طبقہ کے لیے پارلیمنٹ سے ایس ٹی کا درجہ کی منظوری دلائیں اور پہاڑی زبان کو آئین ِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل کریں۔
( سوشل و پولٹیکل ایکٹیوسٹ راجوری، یو ٹی جموں و کشمیر)
موبائل :9858569888
�����