جہیز۔۔۔ اِس لعنت کا خاتمہ کب ہوگا ؟

یہ حقیقت ہے کہ "جہیز " ایک ایسا لفظ ہے۔جسے سنتے ہی نجانے کتنے ہی غریب اور نادار والدین، نوجواں لڑکیوں ،غریب و لاچار بھائیوں کا ذہن مفلو ج ہونے لگتا ہے ،راتوں کی نیند غائب ہو جاتی ہے ،دل کا سکون اور چین سب ختم ہو جاتا ہے ۔حتیٰ کہ لوگ حرام اور ناجائز کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیںاور اپنا چین و سکون سب برباد کر لیتے ہیں ۔جسکی وجہ کر ہمارا معاشرہ ایک ایسے دلدل میںپھنستا چلا جا رہا ہے، جس سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔معاشرے کے اندر پھیلتی اس بیماری نے پورے کے معاشرے کو اپنے گر فت میں لے رکھا ہے۔امیر وں اور مال داروں کے گھر سے نکلنے والی اس بیماری نے ایک بھیا نک شکل اختیار کر لی ہے،جس کی وجہ سے نہ جانے کتنی ہی زندگیا ں بر باد ہو رہی ہیں،یہاں تک کہ یہ موت اور حیات کا معا ملہ بن گیا ہے ۔
اکثر اخبار وں میں "جہیز "کے متعلق ظلم اور زیادتی کی خبر یں شایع ہوتی رہتی ہیں،مگر آج تک اس لعنت کا کوئی بھی ٹھو س حل نہیں نکل سکا ہے ۔اس کی وجہ ہے، اس حمام میں سبھی ننگے نظر آتے ہیں ۔ویسے تو ہمارے ملک میں "جہیز "لینا اور دینا دونوں جرم ہے اور اس کے لئے سخت قانون بھی بنا ئے گئے ہیں جو ڈوری پرو ہی بیشن ایکٹ (Dowry Prohibition Act1961) کے تحت ہے۔ لیکن ہمارا سماجی تانا بانا ایسا بن گیا ہے کہ اس قانون کے باوجود بھی لوگ آسانی سے اس جرم میں ملوث ہیں اور اس کے خلاف کہیں کوئی بھی قانونی کاروائی نہیں ہو پاتی،چند معاملے کو چھوڑ کر ۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کہیں کہیں تو لوگ اس قانون کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔کوئی بھی قانون کا نفاذ تبھی ہو سکتا ہے ،جب عوام کی حمایت حاصل ہو،ورنہ قانون محض قانون ہی رہتا ہے ۔ اس لئے کہ یہ سماج اور افراد کے ذریعہ سے ہی عمل میں آتا ہے ۔اگر لوگ مخلص اور ایماندار نہیں ہونگے تو قانون کا نفاذ ایک مشکل عمل ہو جاتا ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم سبھی کو اسے ایک جرم سمجھنا چاہئے،اور اس جرم سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ "جہیز "ایک لعنت ہے۔جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، اور ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھو کھلا کر تا جا رہا ہے ،جہاں انسانیت دھیرے دھیرے دم توڑ رہی ہے۔ لوگ ظالم اور سفاک بنتے جا رہے ہیں،دل سخت اور مردہ ہوتا جا رہا ہے۔دوسروں کی تکلیف اور پر یشا نیاں نظر آتی ،خود غرضی اور لالچ نے ساری حد یں پار کر دی ہیں،جس کی وجہ کر لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیاں جہنم بن گئ ہے،غریب بیٹیوں اور بہنوں کی آنکھوں میں بسنے والے خواب آہ اور سسکیوں میں بدل چکے ہیں۔آرزوئیں ،تمنائیں ،اور زندگی کے حسین خواب بکھر نے لگے ہیں،اور ان کی زندگی میں کوئی روشنی کی کرن باقی نہیں ہے ،انہیں ہر طرف نا امیدی ہی نا امیدی نظر آتی ہے۔اکثر و بیشتر مصلحت اور شرافت کی چادر اوڑھ کر گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور ہیں، اور کہیں کہیں ایسا واقعہ بھی سامنے آتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں کسی کے بہکا وے میں آکر کسی نوجوان کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں،جو بعد میں ان کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیتی ہیں۔والدین کی عزت پر تو بٹتا لگتا ہی ہے ،جس کی وجہ کر وہ معاشرے میں منھ چھپائے پھرتے ہیں،یعنی انہیں دوہرا عذاب جھیلنا پڑتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر برائی ،کئی اور برائیوں کی راہ کھولتی ہے۔جس طرح ہر بیماری جسم کمزور اور ناتواں کرتی ہے، جس کی وجہ کر دوسری بیماریوں کا بھی حملہ ہونے لگتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح "جہیز کی لعنت "بھی اپنے ساتھ ساتھ کئی دوسری لعنت کو بھی جنم دیتی ہے ۔جیسے رشوت ،بے ایمانی ،دروغ گوئی ،جھوٹی نمائش ،ریا کاری ،دھوکہ بازی ،یہاں تک کہ رشتے اور ناتے کی بے حرمتی ۔
اکثر مشا ہدے میں یہ آتا ہے اور لوگوں کو کھلے عام میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ بھائی ہمارے پاس بیٹیاں ہیں ،اگر میں رشوت نہیں لوں گا تو اپنی بیٹیوں کو "جہیز "کیسے دے پاؤں گا ۔
"جہیز کی لعنت "کا ایک برا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مفلسوں اور نا کار ے لوگوں کے بیچ پنپ رہا ہے جو اپنے بچیوں کی شادی اور "جہیز" کے نام پر لوگوں سے مدد مانگتے پھرتے ہیں ۔ان کے نشانے پر عام طور سے وہ آبادی ہوتی ہے جہاں کوئی انہیں پہچانتا نہیں ہے ۔ابھی بھی ہمارے سماج میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو دوسرے کی تکلیف میں مدد کے لئے سامنے آتے ہیں اور سو 100،پچاس 50،کی مدد کرتے ہیں اور یہ انکی آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔
گویا کچھ لوگوں نے اسے ایک پیشہ بنا لیا ہے جو سر ا سر جھوٹ بول کر کمایا جاتا ہے ۔جس سماج کا اتنا برا حال ہو تو سوچا جا سکتا ہے کہ یہ سماج کس رخ پر گا مزن ہے ۔یہ سچ ہے کہ "جہیز "ایک ایسا جرم ہے جس میں سبھی برابر کے شریک ہیں خواہ وہ لڑکے کے والدین ہوں یا لڑکیوں کے ۔ اکثر و بیشتر ہر گھر میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوتے ہیں ۔اگر بیٹیوں کی شادی ہو تو والدین "جہیز "کا رونا روتے ہیں،لیکن اگر انہیں بیٹے کی شادی کرنی ہو تو وہی شخص اپنے بیٹے کے لئے "جہیز "کی لمبی چوڑی فہرست تیار کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ میں بھی تو اپنی بیٹی کی شادی میں "جہیز "کی فرمائش پوری کی ہے ۔اس لئے ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم بھی اپنے بیٹے کی شادی میں "جہیز "لیں۔یہاں پر اسے کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے ۔جس معاشرے میں اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہونگے تو کیا ایسا سماج کبھی اس لعنت سے پاک ہو سکتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ۔
سماج بنتا ہے افراد سے ۔اگر سماج میں رہنے والے افراد کی آنکھوں پر دو طرح کے عینک ہوں گے تو وہ کبھی بھی اچھائی اور برائی کا فرق محسوس نہیں کر پائے گا ۔اس لئے ضروری ہے کہ یک رنگی سوچ کو بڑھاوا دیا جائے۔ اور برائی کو برائی ہی سمجھے،اور سمجھا جائے ۔غلط کو غلط ہی سمجھا جائے،یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب اپنا معا ملہ ہو تب ہی ہائے توبہ کریں اور اپنی مجبوریوں کا ڈنکا بجائیں۔ اور جب اپنی باری آئے تو دلیلیں دیں اور برائی کو صحیح ٹھہرا نے کی کوشش کریں۔اس طرح ہم کبھی بھی اس لعنت سے چھٹکاراحاصل نہیں کر سکتے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو وقتی مفاد سے اوپر اٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کبھی بھی "جہیز "کی بات نہیں کریں گے ۔خواہ لڑکے کا معا ملہ ہو یا لڑکی کا۔نہ تو ہم "جہیز "لیں گے اور نہ "جہیز "دیں گے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ "جہیز "کے لفظ کو ایک کبیرہ گناہ تصور کیا جائے اور اس لفظ کو معاشرے سے نکال پھینکا جائے ۔اور لوگوں کے اندر عزت نفس پیدا کیا جائے ،جہاں ہر شخص اس لفظ کو سنتے ہی توبہ استغفار پڑھنے لگے ۔تبھی جا کر ہم اس لعنت سے چھٹکا را پا سکتے ہیں ۔اس کے لئے سبھی کو کھلے دل سے اعتراف جرم کرنا ہوگا اور آئندہ کے لئے صدق دل سے توبہ کرنا پڑے گا ۔جس کے لئے سبھی کو سماجی اور انفرادی طور پر ایک مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔ورنہ اس کے بھیانک انجام سے ہمارے سماج میں اور کئی طرح کے مسائل پیدا ہونے سے روکا نہیں جا سکتا ہے ۔