جوہری طاقتیں، ہتھیار ، کرۂ ارض اور ہماری بقاء فکر انگیز

محمد مطاہر خان
جوہری ہتھیار ایک ایسا اسلحہ ہے کہ جو اپنی تباہ کاری کی صلاحیت یا طاقت، انشقاق (fission) یا اتحاد (fusion) جیسے مرکزی تعاملات (نیوکلیئر ری ایکشنز) سے حاصل کرتا ہے۔ انشقاق اور اتحاد جیسے مرکزی طبیعیاتی عوامل سے توانائی اخذ کرنے کی وجہ سے ہی ایک چھوٹے سے مرکزی اسلحہ کا محصول (یعنی اس سے نکلنے والی توانائی )، ایک بہت بڑے عام بم کے مقابلے میں واضع طور پر زیادہ ہوتی ہے اور ایسا صرف ایک بم ہی تمام کا تمام شہر ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
رابرٹ اوپین ہائیمر ایٹم بم کے مؤجد تھے۔ جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے پہلے 16 جولائی 1945ء کو نیو میکسیکو کے ایک ریگستان میں اس کا تجربہ کیا گیا اور اس آپریشن کو ’’ٹرنٹی‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم حملے میں ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2021ء کے آغاز میں جوہری صلاحیت کے حامل نو ممالک (امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس، اسرائیل، پاکستان، بھارت اور شمالی کوریا) کے پاس تقریبا 13 ہزار 80 جوہری ہتھیار تھے، یہ ہتھیار اس تعداد سے کچھ کم ہیں ،جس کا اندازہ سپری نے 2020ء کے آغاز میں لگایا تھا۔
اس کرۂ ارض پر انسان نے اپنے قیام کے عرصے میں خطرناک ارتقائی سامان جمع کرلیا۔ اس طرز عمل نے ہماری بقاء کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ایٹمی جنگ سے خوف کھاتا ہے اور پھر بھی ہر تکنیکی ریاست اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ یہ عذر خواہی کا ایک بڑا بے کیف سلسلہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بم بلاک بسٹرز کہلاتے ہیں۔ 20 ٹن ٹی این ٹی سے بھرے ہوئے یہ بم شہر کا ایک پورا محلہ تباہ کرسکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جتنے شہروں پر بم گرائے گئے ان میں کل دو میگا ٹن ٹی این ٹی استعمال ہوئی۔
بیسویں صدی کے آخر میں ایک عام تھرمو نیوکلیئر دھماکے میں دو میگاٹن، ٹی این ٹی بھری جانے لگی، یعنی صرف ایک بم میں پوری، دوسری جنگ عظیم کی تباہی۔ لیکن اب تو ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اس نازک سیارے پر کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ ان ہتھیاروں میں کل توانائی دس ہزار میگا ٹن سے بھی کہیں زیادہ ہے اورکل آتشیں اسلحہ محض چند گھنٹوں میں تقسیم ہونے کے لیے تیار ہے۔ ایٹمی حملے سے آنے والی موت کے فوری اثرات آتشیں جھونکے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، جو کئی کلومیٹر تک بڑی مضبوط اور قوی البنیاد عمارات کو زمین بوس کر دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ اثرات گیما شعاعوں، آتشیں طوفان اور نیوٹران کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، جو ارد گرد کے تمام انسانوں کو جلا کر بھسم کر دیتے ہیں۔
دفاعی ماہرین جو ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں ان کی یہ بات ناقابل تردید ہے کہ ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت دنیا کے لیےقیامت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔کسی چیز کو ایجاد کرنا اور انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دینا کسی بھی انسان کے لیے انتہائی فرحت بخش احساس ہو سکتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ تمام ایجادات سے دنیا کو فائدہ ہی ہوا ہو، کیوں کہ کچھ ایجادات نے دنیا کو نقصان بھی پہنچایا ، یہ مشہور سائنسدان اپنی تباہ کن ایجادات کے ہاتھوں احساس جرم کا شکار رہے، ان میں ایٹم بم کے موجد اوپین ہائیمر، کلاشنکوف کے موجد میخائل کلاشنکوف، ایجنٹ اورنج کے موجد آرتھر گیلسٹن اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبل سرفہرست اور قابل ذکر ہیں۔ اوپین ہائیمر کے پچھتاوے کا دائرہ ہمیشہ جنگ کے بعد کی ناکامیوں پر مرکوز رہا ، میخائل کلاشنکوف اسلحے کے ڈیزائن میں ماہر تھے۔ ان کی ایجاد کردہ کلاشنکوف دنیا بھر میں انقلاب کی علامت بنی لیکن وہ اپنی اس ایجاد کی غارت گری پر ہمیشہ افسردہ رہے، جب کہ آرتھر گیلسٹن نے ایجنٹ اورنج کو سائنس کا غلط استعمال قرار دیا، اس کے مطابق سائنس کا مقصد انسانیت کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کی بہتری ہے۔
جب ہماری بہبود کوکوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے یا جب اپنے بارے میں ہمارا مثالی بھرم ٹوٹتا ہے تو ہم غضب ناک ہوکر قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ جب ان حالات کا اطلاق قوم پر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح کر دیتی ہے اور یوں سر برآوردہ لوگ اسے دو آتشہ کرکے طاقت یا فوائد حاصل کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے قتل و غارت گری کی ٹیکنالوجی روزبروز ترقی کرتی جا رہی ہے، جنگ کے نقصانات بھی اتنی شدت سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے نشانہ باز نظام ایک روز ہمیں ضرور عالمی تباہی اور بربادی سے دو چارکریں گے، ان ہی کی بدولت آج کل انسانیت کرۂ ارض پر مکمل طور پر ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔
آج جو حالات ہیں، اس حساب سے کسی بڑی روایتی جنگ کے برپا ہونے کے لیے زیادہ افراد کا طیش میں آنا ضروری ہے۔غیر روایتی جوہری جنگ میں ان تمام عوامل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ ایٹمی وجنگی جنون نے ہماری بقاء کو مکمل طور پر خطرے میں ڈال دیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے تاریخ سے سبق حاصل کرنا اور ایک بھرپور ذہانت کو اعلیٰ مقام تک بلند کرنا بھی سیکھا ہے اور یہ تمام وہ اوزار ہیں جو ہماری مستقل بقاء اور خوش حالی کے لیے لازمی ہیں۔ ہماری فطرت کا کون سا رخ فتح پائے گا ؟
یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔ قومیں ایک دوسرے سے مشترکہ عدم اعتماد کے سبب اس طرح ایک ہولناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہیں کہ نہ انھیں زندگی کی کوئی پرواہ رہ گئی ہے اور نہ ہی اس نازک نیلگو سیارے کی، کیوں کہ ہم اس قدر بھیانک کھیل کھیل رہے ہیں ۔لہٰذا اس بارے میں سوچتے بھی نہیں اور جس پہلو پر ہم سوچیں گے نہیں، اس کی بھلا اصلاح کیسے کریں گے؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی ہے۔ کیا واقعی ہم نے ترقی کی ہے؟ کیا ہم نے حقیقتاً جنگ کے اسباب کا جرأت مندانہ جائزہ لیا ہے؟
ہم اپنی ابھرتی ہوئی تہذیب پر ایک ایٹمی جنگ اور ہولناک اور عبرتناک عالمی تباہی مسلط کر دینے پر تلے بیٹھے ہیں تو کیا ہمیں ایک انتشار آمادہ معاشرے کی تعمیر نوکے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہیے، ہمارا انتخاب یا توکائنات ہوگی یا کچھ بھی نہیں۔ چند لاکھ سال پہلے اس کرۂ ارض پر انسان آباد نہ تھے۔ آج سے چند ہزار سال بعد یہاں کون ہوگا ؟ کیا ہم پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ ہماری وفاداری کا رشتہ اس سیارے سے اور اس پر آباد مخلوق سے استوار ہے۔ انسان کے لیے اس زمین پر بے شمار نعمتیں نازل کی گئی ہیں۔ اسے بموں سے زہر آلود نہ کریں۔