جنگ دنیا کا امن غارت کرتا ہے

دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جا ئے تو اس میں اس قدر ہو لناک جنگوں کی لرزہ خیز داستانیں مدفون نظر آئیںگی ، جنہیں انسان آج تک بھُلا نہیں پا ئے ۔تا ہم حقیقت یہی ہے کہ جنگوں کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے جتنا خود انسان قدیم ہے ۔دنیا کی تاریخ اور جنگوں کا تجربہ کر نے سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ آج تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں وہ معمولی باتوں سے شروع ہو ئیں ۔زیادہ تر جنگیں بادشاہوں ، راجائوں، ریاستوں اور حکومتوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر شروع ہو ئیں جن سے لاکھوں انسان اپنے جیسے ہی دوسرے انسانوں کی وحشت کا نشانہ بنے ۔گویا دنیا کی تاریخی جنگیں ، انسانی کھو پڑیوں کے مینار، بھوک ، افلاس اور تشد دسے بھری پڑی ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی جنگیں انسانی خود غرضی کی وجہ سے ہوئیں جن کی لرزہ خیز داستانیں آج بھی لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں ۔ مگر دنیا کی قدیم ترین جنگوں کو چھوڑ کر آخری سو سال کی جنگوں کا جائزہ لیا جا ئے تو بھی ایسی داستانیں سامنے آئیںگی ،جنہیں سننا یا بر داشت کر نا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ۔ دنیا کی جدید اور بڑی جنگوں کی تاریخ آج سے 105سال بھی قبل جنگ عظیم اول سے شروع ہو تی ہے اور اس جنگ نے انسانوں کے خیالات اور رویوں کو بھی تبدیل کر نے کا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جنگ عظیم اول سے لے کر عرب، اسرائیل جنگ اور پھر نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جدید جنگوں نے دنیا میں صرف تشد د ، خوف ، بھوک اور بے بسی دی ہے ۔ان تمام جنگوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگیں معمولی باتوں اور کچھ شخصیات کی اَنا کی وجہ سے ہی لڑی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب دنیا خلق کیا اور انسان کی خلقت ہو ئی، اُس دن سے لے کر آج تک انسان نے ایک دوسرے کو زیر کر نے اور حکومت کر نے کے لئے آپس میں جنگ کی ، مگر جنگوں میں استعمال ہو نے والے آلات یا ہتھیار ہر دور میں مختلف رہے ۔ پہلے جنگوں میں تیر ، تلوار اور خنجر کا استعمال ہو ا کرتے تھے پھر جو ںجوں وقت گذرتا گیا ، انسان اپنی دانائی سے نت نئے جو ہر ی آلات بناتے گئے اور تلوار اور تیر کو چھوڑ کر انسان نے اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لئے رائفل ، راکٹ ، کلا شنکوف ، ایٹم بم اور مختلف ہتھیار بنائے اور آج انسان نے اتنی تر قی ہے کہ اُس نے ٹینک ، فضائی آلات، سمندری آلات اور زمین سے زمین پر مارنے والے آلات بنائے، جس کا استعمال ایک بٹن کی دوری پر ہو تا ہے اور یہ سب کچھ انسان اس لئے کر تا ہے کہ وہ اپنے دشمن کو زیر کریں اور اس پر اپنی حکومت یا اپنا نظر یہ مسلط کر یں ۔لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اتنی جنگیں لڑی جانے اور جدید سے جدید تر جوہری ہتھیار کا استعمال کر نے اور کروڑوں بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کے باوجود آج تک کوئی بھی قوم اپنا نظر یہ دوسروں پر مسلط نہ کر سکی اور نہ اس معاملے میں فتح پائی ہے، کیونکہ کچھ عرصے بعد کوئی اور اُس پر حملہ آور ہو تا ہے اور اُس کی شکست ہوجا تی ہے ۔اس طرح ہر دورکے جنگوں میں انسانیت کے قتل عام کے بعد بھی دنیا پر کسی ایک کا نظریہ مسلط نہیںہوسکا ہے۔ مستقبل میں دنیا میں اپنا نظریہ مسلط کر نے اور کنٹرول حاصل کر نے کے لئے کون سی حکمت عملی اپنائی جائے گی ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ماضی کی زیادہ تر جذباتی جنگیں ہوئی ہیں لیکن اب یہ جوہری جنگوں میں بدل گئیں ہیں اور جوہری جنگ سے کوئی اپنے نظریہ کو دنیا میں مسلط کر کے حکومت نہیں کر سکتاکیونکہ جوہری جنگوں میں دونوں اطراف کا اتنا نقصان ہو تا ہے کہ انسانیت باقی نہیں رہ جاتی ،اور جب انسانیت ہی دنیا میں نہیں ہو گی تو کون ،کس پر اپنا نظریہ مسلط کرسکتا ہے ۔ اس لئے یہ طے ہےکہ مستقبل میں جوہری جنگیں کم اورنظریاتی جنگیں زیادہ ہوسکتی ہیں ۔ان جنگوں میں جو نظریاتی طور پر مضبوط ہو گا، اس کی فتح اور اسی کا نظریہ دنیا میں پروان چڑھے گا اور اُسی کی حکومت ہو گی ۔اس لئے ہر قوم کے لئے لازم ہوگاکہ خود نظریاتی طور پر مضبوط ہو ۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی پستی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمان نظریاتی طور پر غیر مستحکم ہو گئے ہیں ۔المختصر جنگ تباہی و بر بادی کا ہی نام ہے، اس میں نہ کوئی جیتتا اور نہ ہارتا ہے اور اگر کسی کو شکست ہو تی ہے تو وہ صرف انسانیت کی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے دنیا کا امن غارت ہوجا تا ہے ۔