’’جموں کشمیر میں اردو صحافت ۔ابتدا تا حال‘‘۔ایک تجزیاتی مطالعہ! تبصرہ

 غازی سہیل خان

اُردو صحافت کا ماماضی تابناک ہے ،کشمیر کے معروف صحافی ریاض مسرور نے راقم کے ساتھ ایک پروگرام میں انتہائی اہم بات فرمائی کہ ’’اُردو بحیثیت زبان دراصل برصغیر میں صحافت کی ماں ہے ‘‘۔ملک کی آزادی میں اُردو صحافت کا رول سنہرے حُروف سے تاریخ کی کتابوں میں رقم ہو چُکا ہے ،بلکہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں وہ پہلے صحافی مولوی محمد باقر ہی تھے جنہوں نے حق بیانی کے خاطر ملک کی آزادی کے لئے شہادت کا جام نوش کیا ۔وہ الگ ایک موضوع ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد اُسی زبان کو ملک بدر کرنے کی وقتاً فوقتاً ناکام کوششیں کی جو ابھی تک جاری ہیںتاہم انہیں ابھی تک ناکامی ہی ہاتھ لگی۔اس زبان ،ادب و صحافت کو مٹانے کے لئے بہت سارے مٹانے کے لئے آئے وہ تو مٹ گئے لیکن یہ خوبصورت ترین زبان زندہ و تابندہ ہے ۔ اس سب کے علی الرغم اُردو کے مُحبانِ آج بھی اس زبان و صحافت کو زندہ رکھنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں جن میں جموں کشمیر کی نوجوان نسل بھی خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے،ان ہی میں ایک نام نوجوان محقق اور مصنف ڈاکٹر اعجاز احمد میر (بڈگام ) کا بھی ہے ۔گذشتہ چند دنوں سے ان کی ہی ایک کتاب بعنوان ’’جموں کشمیر میں اُردو صحافت (ابتدا ء تا حال)‘‘ ( جو کہ موصوف کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حوالے سے تحریر کردہ ایک مقالہ ہے جس پر انہیں پی ،ایچ ،ڈی کی سند تفویض ہوئی ہے جس کو بعد میں عنوان کی تبدیلی اور کچھ حذف و اضافے کے بعد جی ۔این ،کے پبلیکشنز نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شا یع کیا ہے۔)

 

 

کتاب کو پانچ کلیدی ابواب میں منقسم کیا گیا ہے جن میں ذیلی عناوین کے تحت جموں کشمیر کی صحافتی تاریخ کے اہم گوشوں کو چھیڑا ہے ۔پہلے باب میں جموں کشمیر میں اُردو زبان و صحافت کی ابتدا پر بات ہوئی ہے ،دوسرے باب میں صحافت کی تعریف ،اہمیت و افادیت ،تیسرے باب میں جموں کشمیر میں اُردو صحافت کا تاریخی سفر ،باب چہارم میں جموں کشمیر میں اُردو صحافت کی موجودہ صورتحال ،پانچوں اور آخری باب میں جموں کشمیر کے چند تاریخ ساز صحافیوں کا ذکر شامل کتاب ہے ۔ کتاب کو اپنے والدین کے نام منسوب کرتے ہوئے مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ ’’ اپنے والدین کے نام جن کی یادوں کے نقوش آخری سانس تک میرے ذہن و دل ہر ثبت رہیں گے ۔‘‘کتاب کا حرف چند جموں کشمیر کے معروف محقق،صحافی اور مُحب اُردو غلام نبی کمارنے لکھا ہے ،وہیں کتاب کے مصنف ڈاکٹر اعجاز احمد میر پیش لفظ میں صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی صفحہ ،کتاب یا رسالے کے ہیں ۔صحافت سیاسی ،سماجی ،معاشی ،انتظامی اور مذہبی ضرورت ہے ۔اس کی کامیابی صداقت اور غیر جانب دارانہ حقائق پر معلومات پیش کرنے پر منحصرہے ۔صحافت کو اخبار نویسی اور جرنلزم کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے ۔صحافت کا فن صرف کتابوں کو پڑھنے سے نہیں آتا بلکہ اس کے لئے عملی طور پر میدان عمل میں آنا پڑتا ہے ۔اس فن پر قدرت حاصل کرنے کے لئے بڑی جانفشانی اور تجربے کی ضرورت پڑتی ہے ۔صحافت کا تجربہ انسان کو ڈرائنگ روم یا لائبریری میں بیٹھ کر حاصل ہونے والا نہیں اس کے لئے تجربے کی بھٹی میں برسوں تپنا پڑتا ہے ‘‘۔ص 10۔کتاب کے بیک کور پر وادی کشمیر کے معروف نقاد ،افسانہ نگار اور ادیب ڈاکٹر ریاض توحیدی نے مختصر اور جامع تقریظ لکھی ہے ،جو مصنف کی اُردو زبان و ادب کے متعلق دلچسپی اور اس تحقیقی کتاب پر محنت کو ظاہر کرتی ہے ۔

 

 

پہلا باب :۔’’جموں کشمیر میں اُردو زبان ‘‘عنوان کے تحت تقسیم ہند سے اس زبان پر کس طرح کا اثر پڑا وہیں اپنوں کی نا اہلی اور دشمنوں کی سازشیں کس طرح سے اس زبان کو نقصان پہچانے کے لئے استعمال کی گئیں پر مختصر لیکن جامع گفتگو کی گئی ہے ۔ جموں کشمیر میں اُردو زبان کے آغاز میں مغلیہ سلطنت کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یوں تو ریاست میں اُردو کا آغاز 1860ء کے بعد ہوا لیکن ریاست میں اُردو کے ابتدائی آثار مغلیہ سلطنت کے زمانے میں ہی دکھائی دیتے ہیں ۔بعض محققین نے یہ ثابت کیا ہے سترہویںصدی کے نصف آخر اور اٹھارویںصدی کے ربع اول میں اُردوریاست میں داخل ہوئی تھی ۔‘‘صفحہ 22۔علاوہ ازیں ڈوگرہ مہاراجوں کے نا چاہتے ہوئے بھی بلکہ میں کہوں گا شاید لاشعوری طور اُن کے ذریعے جموں کشمیر میں اُردو زبان و ادب کے فروغ و اشاعت میں اُن کا رول قابل تعریف ہی کہا جا سکتا ہے ۔1924ء میں جموں کشمیر میں باضابطہ لالہ ملک راج صراف نے ’’رنبیر‘‘ کے نام سے ایک اُردو اخبار شروع کیا ،جس کی خدمات بھی اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے انتہائی اہم مانی جاتی ہیں ۔

 

 

دوسرا باب :۔’’صحافت کی تعریف اہمیت ا ور افادیت‘‘ عنوان کے تحت صحافت کے متعلق تمام زمرہ جات پر مختصر اور جامع بات کی ہے جیسے کہ ،خبریں ،اداریہ ،کالم ،سُرخیاں ،اشتہارات ،نامہ نگاری ،انٹرویو،فیچر نگاری وغیرہ شامل ہیں یعنی اس باب میں اخبار کے متعلق جن چیزوں کی ضرورت ہے اس پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔
تیسرا باب :۔’’ جموں کشمیر میں اُردو صحافت کا تاریخی سفر ‘‘عنوان کے تحت مصنف موصوف نے کشمیری پنڈتوں کا اُردو اخبارات اور صحافت کے رول کو اُجاگر کیا ہے یہ عنوان پڑھ کے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈتوں نے اُردوزبان و ادب اور صحافت میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے ،وہیں محمد الدین فوق کا صحافتی میدان میں اپنے اخبار ’’پنجہ فولاد‘‘ سے بے باک صحافت کا تذکرہ پڑھنے کو ملتا ہے اور بابائے صحافت ’’لالہ ملک راج صراف‘‘ کی بے لاگ صحافت جو وہ اخبار ’’رنبیر ‘‘ کے ذریعے انجام دیتے تھے کو مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی طرف سے قدغن کے واقعات کو بھی صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے ۔ ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ ’’رنبیر‘‘ کی آواز کو بند کرنے کے لئے شیخ محمد عبداللہ کے شیروں نے ایسے حربے استعمال کیے ،جو اُن حربوں سے بدتر تھے جو شخصی حکومت نے اختیار کئے تھے ۔‘‘صفحہ88۔وہیں چند اہم اور تاریخی صحافتی معیارات پر پورا اُترنے والے اخبارات کا ذکر کیا ہے جن میں ’’وتستتا،ہمدرد،آفتاب،آئنیہ ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

 

 

چوتھا باب :۔’’جموں کشمیر میں اردو صحافت کی موجودہ صورتحال‘‘ عنوان کے تحت اس کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے سب سے پہلے آزادی ہند سے 1980ء تک جس میں درجنوں اخبارات کا مختصر تذکرہ کیا ہے جن میں سے چند اخبارات آج بھی تسلسل لے ساتھ شایع ہوتے ہیں ،اس کے بعد 1980ء سے تاحال کا تذکرہ کیا ہے 1980کے بعد جدید قسم کے چھاپ خانے (PRESS)کشمیر میں قائم ہوئے جن کی مدد سے یہاں اخبارات رنگین، تصویری صحافت اور کم وقت میں زیادہ تعداد میں چھپنے لگے یعنی یہ دور اخبارات کی دنیا میں ایک انقلاب کا دور تصور کیا جا سکتا ہے ۔اس دوران بھی حسب معمول صحافیوں اور اخبارات کو حکومتوں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا تھاجن میں خاص طور سے زمیندار،رہبر اور روشنی کا تذکرہ کتاب میں خصوصی طور شامل ہے، ان تینوں اخبارات کو حکومت کے عتاب کے ساتھ ساتھ مدیران کو بھی پابند سلاسل ہونا پڑا ۔ روزنامہ ’’روشنی‘‘ کا تذکرہ ذرا تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے کیوں کہ یہ اخبار آزادی ہند سے پہلے یعنی 1943میں پہلی بار شایع ہوا ،جس کے بانی ایڈیٹر عزیز کاشمیری مرحوم تھے، تیسرے زمرے میں جموں کشمیر میں نو وارداخبارات کا تعارف بھی پیش کیا گیاہے ۔تاہم چند اہم نو وارد اخبارات کا تذکرہ کرنے سے مصنف موصوف کیوں رہ گئے ہیںوہ میں سمجھ نہیں پایا۔

 

 

پانچواں باب :۔’’جموں کشمیر کے چند تاریخ ساز صحافی‘‘ عنوان کے تحت ایسے صحافیوں کا ذکر ہے جن کا دور اور کارنامے جموں کشمیر کی صحافتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا گیا ہے ۔اس عنوان کے ابتدا میں ہی مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ ’’صحافت بُنیادی طور ایک خسارے کا پیشہ ہے ،اس میں مادی فوائد کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔بلکہ لوگوں کے ذہن کو متاثر کرنے کی صلاحیت کو فائدمانا جاتا ہے ۔صحافی کی تحریر جس قدر اثر انگیز ،جتنی خیال انگیز اور جس حد تک واقعات سے پُر ہوگی اُسی قدر اس کی اثر آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسی ہی تحریر قاری کو متاثر کرتی ہے ۔‘‘ صفحہ 193۔علاوہ ازیں اس باب میں کشمیر کی اُردو صحافت کے کہنہ مشق اور قابل فخر صحافیوں کا ذکر ہے جن میں خواجہ ثنا اللہ بٹ ،شمیم احمد شمیم ،محمد امین پنڈت ،لالہ ملک راج صراف ،محمد الدین فوق ،طاہر محی الدین ،پریم ناتھ بزاز،کیشپ بندھو،غلام نبی خیال ،پنڈت سالگرام سالک ،مولانا محمد سعید مسعودی ،صوفی محی الدین ،محمد یوسف ٹینگ ،شبنم قیوم ،غلام نبی شیدا ،حکیم محمد منظور ،قاسم سجاد شامل ِ کتاب ہیں ۔
اس کتاب میں صحافت اور صحافتی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والو ںکو ایسا مواد ملے گا جس سے بہت سارے قارئین ابھی نا آشنا بھی ہو سکتے ہیں ،وہیں جی ،ین ،کے پبلیکیشبز کے صدر غلام نبی کمار بھی مبارکبادی کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اورخوبصورتی کے ساتھ شایع کیا ہے ۔تاہم اس سب کے باوجود کتاب میں کچھ تسامحات در آئی ہیں جن کی میں نشاندہی کر دیتا ہوں تاکہ اگلے ایڈیشن میں وہ دور ہو سکیں ،پہلا یہ کہ کتاب میں املا اور تذکیر و تانیث کے حوالے سے بھی چند جگہوںپر غلطیوں کوپایا گیا ،اس کے علاوہ مضامین میں واقعات کی تکرار خوب محسوس ہوئی جس سے قاری کے اندر اُکتاہٹ بھی محسوس ہوتی ہے مثال کے طور پر پہلے باب میں جو باتیں درج کی گئی ہیں اُن کو تیسرے باب میں دوبارہ معمولی الفاظ کے اُلٹ پھیر کے ساتھ شامل کیا گیا ہے،وہیں میرے خیال میں پہلے اور تیسرے باب کو ایک ہی باب میں ہونا چاہئے تھا کیوں کہ ان دونوں میں جموں کشمیر میں اُردو صحافت کے تاریخی پہلوں پر بات ہوئی ہے جموں کشمیر میں رسائل و جرائد کا بھی اپنا رول ہے جن کا تذکرہ کتاب میں نہ ہونے کے سبب اُس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور چند ایسے اخبارات ہیں جن کی اپنی تاریخ ہے معلوم نہیں اُن کو کتاب میں شامل کیوں نہیں کیا گیا ہے ،کشمیر میں اور بھی چند بڑے نامور حق پسند صحافی گزرے ہیں یا آج کی تاریخ میں ہیں اُن کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا جس کی کمی شدت سے دوران مطالعہ محسوس ہوئی۔تاہم میں چاہوں گا میری ان گزارشات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اس کتاب کے اگلے ایڈیشن میں ان کمیوں کو دور کریں گے ۔اس سب کے باوصف کتاب صحافت کے طلبہ اور اُردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ،میں چاہوں گا یہ کتاب کشمیر کے ہر کسی نوجوان تک پہنچے۔میں اس کتاب کی اشاعت اور اس مواد کی تحقیق کے لئے ڈاکٹر اعجاز احمد میر کو مبارکباد دیتا ہوں ۔یہ کتاب جی ،این کے پبلی کیشنز یا اس نمبر 7889538939 پر رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں ۔مبصر کا رابطہ 7006715103