جموں:گرمی آئی ہی نہیں اور بجلی چلی گئی

گزشتہ چند روز سے جموں میں بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی شروع ہونے کی شکایات پے درپے موصول ہورہی ہیں ۔ حالانکہ حکومت نے بارہا اعلان کیاہے کہ جموں میں بغیرکٹوتی بجلی کی سپلائی فراہم ہوگی لیکن دور دراز علاقوں کی تودور کی بات، جموں خاص میں بھی ان دنوں بجلی کٹوتی عروج پر ہے ۔ان دنوں صوبہ کا ٹھیک وہی حال ہے جو سردیوں میں اہلیان کشمیر کاہوتاہے۔پہاڑی خطوں وادی چناب اور پیر پنچال میں بجلی کی فراہمی کا توکوئی شیڈول ہی نہیں اور محکمہ کی مرضی آئے تو بجلی سپلائی ہوتی ہے اور اگرمحکمہ نہ چاہے تو سپلائی فراہم نہیں ہوتی لیکن جموں شہر میں بھی محکمہ کا شیڈول پر عمل پیرا نہ ہونا تشویشناک بات ہے ۔جموںوکشمیرمیں بجلی کا یہ حال ایسے وقت میں ہے جب موجودہ حکومت آئندہ دو تین برسوں میں پورے جموںوکشمیر میں بغیر کٹوتی بجلی سپلائی فراہم کرنے کے وعدے کررہی ہے اور گزشتہ دنوں ہی اس سلسلے میںپرنسپل سیکرٹری محکمہ بجلی نے جموں و کشمیر میں 2025 تک سب کو باقاعدہ بجلی کی فراہمی کے لئے بنائے جانے والے روڈ میپ پر بھی تبادلہ خیال کے دوران تمام پاور کارپوریشنوں کے افسران سے کہا کہ ہمارا اِجتماعی مقصد آئندہ 3 برسوں میں جموں و کشمیر کے تمام صارفین کو 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔سال 2025 تک پورے جموں و کشمیر کوچوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کے محکمہ کے ہدف کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں آنے والے تین برسوں کے لئے ویژن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔
چراغ تلے اندھیرے کے مصداق جموں وکشمیر ایک ایساعلاقہ بن گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر بجلی تو پیدا کی جارہی ہے لیکن اس کی سپلائی سے شمالی ہند کی ریاستیں روشن ہورہی ہیں اور خود جموںوکشمیرکے لوگ گھپ اندھیرے میں ہیں ۔ اگردیکھاجائے تو محکمہ بجلی کا نظام ہی روبہ زوال ہے اور کٹوتی کے علاوہ بھی اور کئی مسائل ہیں جن کو حل کرنا لازمی ہے ۔ حکام کی طرف سے چند برس قبل آر جی جی وی وائی سکیم کے تحت یوٹی بھر میں ان گائوں دیہات تک بجلی فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیاگیاتھا جو برقی رو سے محروم تھے لیکن اس سکیم کی حالت یہ ہے کہ ٹرانسفارمر کئی کئی مہینوںسے خراب پڑے ہیں اور انہیں نہ تو ٹھیک کیاجارہاہے اور نہ ہی مستقبل میں ان کی مرمت یا متبادل کاکوئی بھی منصوبہ ہے ۔یہی نہیں بلکہ اگر دور دراز علاقوں میں کوئی ٹرانسفارمر خراب ہوجائے تو اسے ٹھیک کرنے میں محکمہ ہفتے لگادیتاہے ۔یوں صوبہ جموں میں بجلی محکمہ کا نظام لوگوں کیلئے پریشانی کا سبب بناہواہے اور جب تک اس میں واضح تبدیلیاں نہیں لائی جائیںگی، تب تک لوگوں کی مشکلات کم نہ ہوںگی ۔
موجودہ دور میں بجلی ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے جو شہر سے لیکردیہات تک ہر ایک شخص کو بہر صورت چاہئے ہوتی ہے لیکن اگر اس دور میں بھی غیر اعلانیہ کٹوتی اور خراب ٹرانسفارمروں کو ٹھیک نہ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو پھر اس محکمہ کا خدا ہی حافظ ہے ۔ آپ سمارٹ میٹر لگانے کے چکر میں ہیں اور جموں شہر کے بیشتر علاقے ان میٹروںکی زد میں آچکے ہیں لیکن مزید علاقوںمیں تیزی کے ساتھ انکی تنصیب جاری ہے ۔سمارٹ میٹر لگانے کے خلاف کوئی نہیں ہے ۔بلا شبہ آپ سمارٹ میٹر لگائیں لیکن سمارٹ میٹر لگانا ہی مسئلہ نہیںہے اور نہ ہی سمارٹ میٹر لگانے سے محکمہ بجلی سمارٹ بن سکتا ہے ۔
سمارٹ بننے کیلئے سمارٹ منصوبہ بندی ضروری ہے ۔آپ اپنی ساری کوتاہیوں کا نزلہ صارفین پر نہیں گراسکتے ہیں۔مانا کہ کہیں کہیں بجلی چوری ہوتی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ چوری آپ کے فیلڈ عملہ کی مدد سے ہوتی ہے اور اگر فیلڈ عملہ نہ چاہے تو بجلی چوری کا تصور بھی ناممکن ہے۔ یہ بھی کسی حد تک صحیح ہے کہ کچھ صارفین بجلی فیس کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیںتاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بیشتر صارفین حسب ایگریمنٹ اور میٹر ریڈنگ کے مطابق ماہانہ بجلی فیس ادا کررہے ہیں۔
اس کے باوجود بھی آپ بجلی خسارے کا بہانہ بناتے رہیں تو یہ بات ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ وقت آچکا ہے جب بجلی حکام کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے اور اصلاح احوال سے کام لیکر صارفین کو بلی کا بکرا بنانے کی روایت ترک کرنی چاہئے ۔صارفین معیاری بجلی کی فراہمی کے حقدارہیں اور معیاری بجلی فراہم کرنامحکمہ کی ذمہ داری ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ محکمہ فوری طور حرکت میں آئے گا اوربجلی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ کٹوتی میں کمی کی جائے گی تاکہ لوگوں کو گرمیوں کے ابتدائی ایام میں ہی پسینہ پسینہ نہ ہوناپڑے ۔