تیسری آنکھ۔ کار آمد شۓ ٹیکنالوجی

گلفام بارجی،ہارون سرینگر

سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان بھی ترقی کرتا گیا۔ دنیا میں جس شئے کی نئی ایجاد ہوتی ہے، وہ شئے انسان کی ضرورت بن جاتی ہے۔ حالانکہ ایک پرانی کہاوت ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور یہ کہاوت بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ ریڈیو ایجاد ہواتو انسان کی ضروریات زندگی میں شامل ہوا۔ ٹیلی ویژن ایجاد ہواتو انسان کی ضرورتوں میں شامل ہوا۔ کمپیوٹر ایجاد ہواتو انسان کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ موبائل فون ایجاد ہوا تو اب انسان اس کے بغیر زندگی کو ادھورا محسوس کرنے لگا۔غرض دنیا کی ہرایک وہ نئی چیز جو دنیا میں وجود میں آئی انسان کی زندگی کا اہم حصہ بن گئی ہے۔ سائنس کی ترقی سے انسان کی زندگی ہی بدل گئی۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ ایجادات سے انسان کی زندگی کو کافی نقصان ہوا لیکن صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو کئی ایسی نئی ایجادات سے انسان کامیابی کی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ لیکن میرا آج کا عنوان ہے، ‘ تیسری آنکھ۔ اگرچہ تیسری آنکھ اپنے زمانے کی ایک مشہور بالی ووڈ فلم کانام تھا لیکن میرا اشارہ اس تیسری آنکھ کی طرف بالکل بھی نہیں ہے۔ میرے آج کے مضمون کا اشارہ ہے، وہ تیسری آنکھ جس تیسری آنکھ نے جرائم پیشہ افراد کا جینا حرام کردیا ہے۔ جس تیسری آنکھ کی بدولت آج تک سنگین سے بھی سنگین جرائم انجام دینے والوں کی کئی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں۔جس تیسری آنکھ نے گھناؤنے جرائم انجام دینے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے میں پولیس کا کام آسان بنا دیا ہےاور اس تیسری آنکھ کا نام CCTV کیمرہ ہے۔ CCTV کیمرہ بھی ان ہی نئی ایجادات میں شامل ہےجن نئی ایجادات کا انسان کی روزمرہ زندگی میں عمل دخل ہے۔ اگرچہ سال 1927 میں Leon Theremin نام کے ایک روسی Inventor نے CCTV سسٹم تیار کیا اور اس کے بعد جرمن کے Walter Bruch نام کے ایک انجنیئر نے ماسکو میں ایک اور CCTV نوبل سسٹم تیار کیا اور سال 1942 میں پہلی بار جرمن میں اسے CCTV کیمرہ کی شکل میں استعمال میں لایا گیا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں CCTV کیمرے کا رواج عام ہوگیا اور اسے’’ تیسری آنکھ‘‘ کے نام سے بھی جاناجاتاہے۔ CCTV کیمرے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہےکہ جس جگہ اسے نصب کیا جاتا ہے وہ جگہ اکثر لوگوں کے نظروں سے اوجھل رہتی ہے یہی وجہ ہےکہ عام لوگوں کی نظروں سے بچ کر چوری چھپے جرائم انجام دینے والے جرائم پیشہ افراد کی تمام حرکات و سکنات کو یہ CCTV کیمرہ اپنے اندر قید کرکے محفوظ کرلیتا ہے اور ضرورت کے وقت پولیس ان ہی CCTV کیمروں کی مدد سے جرائم پیشہ افراد تک پہنچے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ ایک دور وہ بھی تھا جب لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے پالتو کتوں کا سہارا لیتے تھے دوردراز دیہات میں یہ رواج آج بھی قائم ہے لیکن شہری علاقوں میں CCTV کیمرےکاچلن عام ہوچکاہے۔ اب سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ پرایویٹ اداروں کے علاوہ لوگ ہوٹلوں، گھروں، دکانوں، مساجد اور زیارت گاہوں میں CCTV یعنی تیسری آنکھ کا استعمال کرکے جرائم کے روک تھام کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بھر پور کوششیں کرتے ہیں۔ یہ بات ہم سب پر عیاں ہے کہ یہاں ہمیں آئے دن جرائم سے مطلق خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں لیکن ان جرائم کو انجام دینے والے افراد کو پولیس تیسری آنکھ کی مدد سے بغیر کسی طوالت اپنے انجام کو پہنچادیتی ہے۔ سڑک حادثات،چوری کی واردات یا کسی اور جرائم سے وابستہ معاملہ ہو ،آج تک کئی ایسے معاملے پولیس نے CCTV کی مدد سے سلجھائے جن میں کسی گاڑی چلانے والے نے کسی راہ گیر کو ٹکرماری اور جائے واردات سے راہ فرار اختیار کی لیکن تیسری آنکھ نے حادثے کی عکس بندی کرکے اسے محفوظ کرلیا اور بعد میں پولیس نے تیسری آنکھ کی اسی عکس بندی کاسہارا لیکر مجرم کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ اسی طرح قتل کی کئی وارداتوں کو انجام دینے والے نامعلوم مجرموں کی پہچان اسی تیسری آنکھ کی مدد سے ہوئی۔ چوری کی کئی وارداتوں جن میں رہائشی گھرانوں کے علاوہ بنک،سرکاری ادارے،مندر، مسجد، گوردوارہ اور زیارت گاہیں شامل ہیں۔ ان جگہوں پر چوری کی وارداتوں میں ملوث نامعلوم افراد کو اسی’ تیسری آنکھ‘ نے شناخت کرکے پولیس کے ذریعے انہیں اپنے انجام تک پہنچا دیا۔اس طرح تیسری آنکھ ہم سب کے لئے کارآمد شئے ثابت ہو رہی ہے اور جس طرح وادی میں دن بدن جرائم کے گراف میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان جرائم کوروکنے کےہم سب کے لئے ‘تیسری آنکھ کی اشد ضرورت ہے۔
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔