توبہ اِستغفار ۔ گناہوں کو کھاجاتاہے فکر و فہم

مشتاق تعظیم کشمیری
اللہ تعالیٰ قران مجید میں سورة ( آل عمران ) میں ارشاد فرماتا ہے۔’’ وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِم‘‘ ،اور وہ لوگ کہ جب کوئی بُرا کام کرتے یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے ،وہ اپنے کئے ہوئے کام پر اصرار نہیں کرتے اوروہ یہ بات بھی جانتےہیں۔‘‘ انسان گناہوں کا پُتلا ہے ۔ اس سے ہر وقت چھوٹے بڑے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔بڑا سے بڑا متقی اور پرہیز گار شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک ہے یااس سے کبھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہے۔لیکن ایک مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہے کہ مومن جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ فوراً اپنے رب کی جانب پلٹتا ہے اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہے ،مومن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہو اور ڈرتا ہو کہ وہ اس پر گر نہ پڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی تھی اور جسے اس نے ہاتھ ہلا کر اُڑا دیا،اس لیے انسان کو گناہوں سے بچنا چاہیے اور اگر کوئی گناہ ہو بھی جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ انتہائی رحم کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے ۔ وہ ایسے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتا ہے جو اس کی طرف حقیقی معنوں میں رجوع کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورة النورمیں ارشاد فرماتا ہے:’’توبوا الی ٰاللہ جمیعاًایہ المؤمنون لعلکم تفلحو‘‘،اے مومنو!تم سب مل کراللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرو ،توقع ہے کہ تم فلاح پا ؤ گے،اللہ تعالی توبہ کے لیے انسان کو کچھ مہلت عطا کرتا ہے اور اسے موقع دیتا ہے کہ وہ توبہ کر لے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث شریف میں ارشاد فرمایا فرمایا (المعجم الکبیر للطبرانی:۷۶۶۳)’’بائیں طرف والا فرشتہ خطا کرنے والے مسلمان بندے سے چھ گھڑیاں قلم اٹھائے رکھتا ہے پھر اگر وہ نادم ہو اور اللہ تعالی سے معافی مانگ لے تو نہیں لکھتا ،ورنہ ایک برائی لکھی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے:’’اے ابن آدم!تو جب بھی مجھے پکارے اور مجھ سے توقع رکھے تو تیرے جتنے بھی گناہ ہوں گے ،میں بخش دوں گا اور مجھے اس کی ذرا بھی پروا نہیں،اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں،اے ابن آدم!اگر تو زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں زمین بھر بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا۔‘‘خدانخواستہ بغیر توبہ کے انتقال ہوگیا اور ربّ تَعالیٰ ناراض ہوگیا تو جہنم کا سخت عذاب میرا مقدر ہوگا، جہنم کا عذاب سہنے کی کس میں طاقت ہے، جہنم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ جہنمی کو آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی اور سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا شخص یہ تصور کرے گا کہ شاید جہنم میں سب سے زیادہ اور شدید عذاب مجھے ہی ہورہا ہے۔امید ہے کہ بندہ جب خود کو جہنم کے عذاب سے ڈرائے گا تو اس کا گناہوں سے توبہ کرنے کا مدنی ذہن بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت توبہ کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین