تقریباً نصف آبادی تمباکو نوش کشمیری سماج آخر کہاں جارہا ہے؟

کل یعنی31مئی کو پوری دنیا سمیت جموںوکشمیر میں بھی تمباکو مخالف عالمی دن منایاگیا ۔ا س سلسلے میں محکمہ صحت کی جانب سے نہ صرف سرینگراور جموں شہروں میں مرکزی تقاریب منعقد ہوئیں بلکہ ضلعی سطح پر بھی بیداری ریلیاں نکالی گئیں اور تمباکوشی نوسی کے مضرا ثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ادی میں پچھلے 4سال کے دوران سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور اس بات کا ثبوت نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بھی ہوا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں میں41.9فیصدلوگ تمباکو اور تمباکو سے بنی دیگر اشیاء کا استعمال کررہے ہیں۔ سروے کے مطابق سرحدی ضلع کپوارہ میں سب سے زیادہ 56.6فیصد جبکہ جموں ضلع میں سب سے کم 26فیصد لو گ تمباکو سے بنی اشیاء کا استعمال کررہے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2018کی گیٹس رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں 20.8فیصد افراد تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی شرح 21فیصد تھی تاہم تازہ قومی فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق یہ شرح تقریباً42فیصد تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔

 

 

 

گوکہ صوبائی انتظامیہ کشمیر نے اپریل کے پہلے ہفتے میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ عائد کرنے کا انتباہ دیا تاہم زمینی سطح پر یہ اعلان نافذ نہ ہوسکااور سگریٹ و تمباکونوشی کھلے عام جاری ہے ۔حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر سگریٹ یا تمبا کوشی پر پابندی پہلی دفعہ عائد نہیں کی گئی تھی بلکہ جموں وکشمیر میں کئی برس قبل عوامی مقامات پر سگریٹ یا تمباکوشی ممنوع قرار دی گئی ہے اور اس کیلئے باضابطہ سزا و جزا کا طریقہ متعین کیاگیا ہے ۔اسی طرح تعلیمی اداروں کے ارد گرد بھی سگریٹ یا تمباکومصنوعات کی خرید و فروخت پر پابندی پہلے سے عائد ہے تاہم حالات نہیں بدل رہے ہیں اور تمبا کو نوشی کی شرح بدستور بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ جموںوکشمیر خاص کر کشمیر میں جس طرح سگریٹ نوشی عام ہے ،وہ واقعی پریشان کن ہے اور اب جس طرح منشیات کا استعمال ایک اور بحران کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے ،اُس نے ذی حس طبقوں کی نیندیں اچٹ دی ہیں ۔سگریٹ یا تمبا کونوشی کے نتیجہ میں کشمیر میں سرطان کے معاملات سامنے آنے کے جو اعداد وشمار ہر سال ظاہر کئے جاتے ہیں ،وہ ہوشربا ء ہیں اور یقینی طور پر فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض عوامی مقامات پر تمباکو یا سگریٹ نوشی ممنوع قرار دینے سے ہی مسئلہ حل ہوجائے گا؟۔نہیں ،ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے اعلانات سے زمینی سطح پر کچھ بدلتا ہے بلکہ اس کیلئے معاشرے کے رویہ میں ہی تبدیلی لانا ضروری ہے ۔آپ کتنا ہی سزائیں کیوں نہ دیں جب تک معاشرہ از خود تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہوگا ،تبدیلی نہیں آئے گی۔ایسے میں لازمی ہے کہ ہم معاشرے کو تبدیلی کیلئے تیار کریں ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ تبدیلی کیلئے کیسے تیار ہوگا؟۔

 

 

 

یہ بھی ناممکن نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں کشمیر میں عوامی مقامات بشمول مسافر گاڑیوں ،ہوٹلوں و ریستورانوں ،یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی سگریٹ نوشی کو ناجائز نہیں سجھا جاتا تھا لیکن پھر جب پابندی کے اعلان کے ساتھ ایک وسیع آگاہی مہم چلائی گئی اور عوام کو بیدار کرنے اور ان میں ایک مثبت تبدیلی لانے کیلئے اخلاقی قدروںکا سہارا لیاگیا تو کچھ وقت بعد ہی ہم نے پھر دیکھا کہ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی قصہ پارینہ بن گئی اور لوگ بھی عوامی مقامات پر سگریٹ یا تمباکونوشی کو ناجائز سمجھ کر خود ہی اس بری عادت سے باز آگئے ۔آج بھی ایسی ہی ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔سگریٹ نوشی یا تمبا کوشی کی شرحوںکو کم کرنا اور عوامی مقامات پر اس کو بالکل ختم کرنا بالکل ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیں اور ایسی باتوں کو اعلانات تک محدود کرنے کی بجائے عملی طور بھی کام کریں ۔اس کیلئے ہمیں جہاں سماج کے سبھی طبقوںکو اس مہم میں شامل کرنا پڑے گا وہیں مذہبی پیشوائوں اور ڈاکٹروں و ماہرین تعلیم اور قانون نافذ کرنے والے اداروںکا اس میں کلیدی رول بنتا ہے ۔اگر ائمہ اور علماء تہیہ کرلیں کہ ہمیں اس ضمن میں سماج میں مثبت تبدیلی لانی ہے تو یہ عمل اور بھی آسان ہوجائے گا کیونکہ جب مقامی سطح پر بات ہر ایک فرد تک انفرادی طور پہنچ جائے گی تو بات سمجھنے اوراس پر عمل کرنے میں آسانی پیدا ہوگی ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ ائمہ اور علماء کی باتوںکا اثر ہوتا ہے او ر اگر مذہبی پیشوا ٹھان لیں کہ انہوںنے عوام کو اس برائی سے نجات دلانی ہے تو تبدلی آنے میں دیر نہیںلگے گی ۔اسی طرح ڈاکٹر حضرات اور ماہرین تعلیم و نفسیات اگر مثبت انداز میں بیداری عمل شروع کریں اور عوام کو پیار و محبت سے اس برائی کے مضر اثرات اور اس کو ترک کرنے کے مثبت اثرات سے آگاہ کریں تو تبدیلی تیزی سے وقوع پذیر ہوجائے گی اور لوگ بہت جلد تبدیلی کے مسافر بن جائیں گے۔اسی طرح قانون نافذکرنے والے ادارے اگر ذرا پیار اور دبائو سے کا م لیں تو بات بن سکتی ہے ۔ایسے اداروں کو جہاں ایک ہاتھ میںلاٹھی رکھنی ہے تو دوسرے ہاتھ میں پھول بھی رکھنا پڑے گا تاکہ دونوںکے امتزاج سے ایک ایسا رویہ ابھر کر آئے جس میں خوف اور محبت ،دونوںعناصر شامل ہوں تاکہ جہاں خوف کی ضرورت ہو تو خوف پیدا ہو اور جہا ں محبت درکار ہو تووہ وہاں محبت کے شگوفے پھوٹ پڑیں ۔اس طرح بدلائو نہ صرف یقینی بنے گا بلکہ فوری بھی ہوگا۔اس عمل میں عوام کا اشتراک لازمی ہے اور عوام کو بھی سماج کے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے سگریٹ و تمبا کوشی کااستعمال ختم کرنے میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا ۔جب سبھی متعلقین مل کر کام کریں گے تو نہ صرف عوامی مقامات پر یہ ناسور ختم ہوگا بلکہ ہم اس معاشرے سے ہی اس ناسور کو ختم کرسکتے ہیں۔