بھلائی کا حکم اور بُرائی سے روکنا۔احادیث کی روشنی میں روشنی

سید نور اللہ شاہ بخاری

نیک اعمال کی لوگوں کو ترغیب دینا اوربُرائیوں سے منع کرنا، جس کو شرعی اصطلاح میں’’امر بالمعروف اورنہی عن المنکر‘‘ کہا جاتاہے۔یہ دین ِ اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی اور بنیادی اصولوں میں سے ایک ایسا اہم اصول ہےکہ جس پر اگر کوئی شخص عمل کرتاہے تو گویا وہ ایک ایسا عمل کر رہا ہے، جو انبیاے کرامؑ کے دنیا میں آنے کا سبب ہےاور جس کا دوسرا نام تبلیغ ہے، لفظِ تبلیغ کی معنیٰ ’پہنچانا‘ہے، جس سے مراد نیکی کی دعوت لوگوں تک پہنچانا اور ایسے تمام کاموں سے منع کرنا کہ جس سے اللہ اور اس کے رسولؐ ناراض ہوتے ہوں، (یہ مسلمانوں کے لیے ہے اور غیر مسلموں کے لیے پہلے صرف اسلام کی دعوت) لفظ تبلیغ کے معنیٰ میں’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ سے وسعت ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر جملہ انبیائے کرام کی سنت ہے اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو پیاری سنت ہے، جس پرصحابۂ کرام ؓ نے ایسا عمل کرکے دکھایا جس کی دنیا مثال نہیں پیش کر سکتی۔ امربا لمعروف اور نہی عن المنکر اس امتِ مرحومہ کا طرۂ امتیاز ہے، جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام شریف میں کچھ اس طرح فرمایا: (ترجمہ از کنزالایمان ) تم بہتر ہو اُن سب امتوں میں، جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اوربُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران آیت : ۱۱۰ )
قرآن شریف میں اور بھی کئی جگہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کا ذکر آیا ہے مگر ہم یہاں طوالت سے بچتے ہوئے صرف اسی ایک آیت کریمہ پر اکتفا کرتے ہیں، چوں کہ ہماراعنوان ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر احادیث کی روشنی میں‘‘ ہے۔لہٰذا اِن تمہیدی سطور کے بعد ہم نفسِ مضمون کی طرف آتے ہیں۔ یعنی احادیث کی روشنی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرنے پر قائم ہو اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ بحری جہاز میں سوار ہوئے اور انہوں نے اس میں رہائش کے لیے قرعہ اندازی کی، بعض لوگوں کے لیے اوپر کے حصے میں رہائش کے لیے قرعہ نکلا ،اور بعض لوگوں کے لیے نیچے کے حصے میں رہائش کا قرعہ نکلا،سو جولوگ نچلے حصے میں تھے ، وہ پانی لینے کے لیے اوپر کے حصے میں جاتے تو انہوں نے کہا: اگر ہم اپنے رہائشی حصے میں سوراخ کردیں اور سمندر سے پانی لے لیں اور اپنے اوپر والوں کو تنگ نہ کریں(توبہتر ہے)، پس اگر ان لوگوں کو ان کے ارادہ کے ساتھ چھوڑ دیا جائے (تاکہ وہ جہاز کے پیندے میں سوراخ کر دیں) تو سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیا گیا تو وہ بھی نجات پا جائیں گے اور باقی لوگ بھی نجات پا جائیں گے‘‘۔ (بخاری شریف:۲۴۹۳)۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو سمجھنے کے لیے ، اس سے اچھی کوئی مثال ہو ہی نہیں سکتی، جس کو اللہ کے رسولؐ خود سمجھانے کے لیے ارشاد فرمائیں۔اگر جہاز میں سوراخ کرنے والوں کو اوپری منزل والوں نے نہ روکا، اور وہ یہ کہہ کر پلہ جھاڑتے رہے : ہمارا کیا نقصان ،ہم کیوں روکیں؟ جو کرے گا وہ بھرے گا۔ تو لازماً جہاز میں سوراخ کرنے والے سُوراخ کردیں گےاور جہاز کے اندر پانی آجائے گا، پھر اس جہاز کو اور جہاز کے تمام مسافروں کو سمندر میں غرق ہونے سے اللہ کی قدرت کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔بُرائی کرنے والے بھلے گنتی کے چند افراد ہی کیوں نہ ہوں، مگر بُرائی کے اثرات پوری قوم اور معاشرے کو جھیلنا پڑتے ہیں۔ اللہ کےحبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حکمتوں کا خزانہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں بُرائیاں اکثر نچلے طبق والوں سے ہی ہوتی ہیں، جیسا کہ آقائے نامدارؐ کی مثال سے واضح ہے کہ جہاز کے مسافروں میں نچلے حصے والے پانی کی ضرورت کے تحت جہاز میں سوراخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب اوپر والے ان کی ضرورت پوری کرکے ان کا ہاتھ روک لیں تو سبھی لوگ بچ سکتے ہیں۔ اوپر کے طبق والوں سے مراد جولوگ اقتدار میں ہوتے ہیں یا جن کے اختیار میں کچھ ہوتا ہے، ان کی باتوں کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے اور وہ جس طرح بھی چاہیں بُرے لوگوں کا ہاتھ بُرائی سے روک سکتے ہیں، اور اس طرح پورا معاشرہ بُرائی کی شامت سے بچ سکتاہے ۔‬
ہمارے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اوپری طبق والے (حکام، امرا ، اہل ثروت) کوثر و سلسبیل سے دُھلے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بڑے لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل کریں تو خود بھی برائیوں سے بچ سکتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کو بھی بُرائیوں سے بچا سکتے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں :کہ اچھائی کا حکم دینا اور بُرے کاموں سے روکنا صرف امیروں پر ہی ہے،غریب اور ضعیف لوگوں پر نہیں ہے، بلکہ کمزور اور ضعیف لوگ اگر امیروں، وزیروں، اور حکام کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں تو ان کےلیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ دل شادہے: حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : ’’جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہنا بہترین جہاد ہے‘‘ (ترمذی) نیز حضرت ابوعبداللہ طارق بن شہاب بجلی احمسیؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریمؐ سے پوچھا، اُس وقت اس کا پاؤں رکاب میں تھا : یا رسول اللہؐ! کون ساجہاد افضل ہے؟ تو حضور نبی رحمتؐ نے فرمایا : ’’جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا‘‘(نسائی)۔ حضرت طارق بن شہابؐ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے جس شخص نے سب سے پہلے خطبہ دینا شروع کیا ،وہ مروان تھا، ایک شخص نے مروان کو ٹوکا اور کہا کہ نماز، خطبہ سے پہلے ہوتی ہے، مروان نے جواب دیا کہ وہ دستور اب متروک ہوچکا ہے۔
حضرت ابو سعیدؓ نے کہا ،اس شخص پر شریعت کا جو حق تھا وہ اس نے ادا کردیا، میں نے خود رسول اللہؐ کا یہ ارشاد سنا ہے کہ’’تم میں جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو بُراجانےاوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ (مسلم )
حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ تفسیر تبیان الفرقان زیر آیت ﴿و لتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر(سورہ آل عمران ۱۰۴) مذکور ہ بالا حدیث شریف لاکر فرماتے ہیں : میں کہتاہوں،اس حدیث میں رسول اللہؐ نے تین طبقات کا ذکر فرمایا ہے: ۱۔ اُمرا اور حکام بُرائی کو اپنی طاقت سے بدل ڈالیں،کیونکہ وہ صاحبِ اقتدار ہیں تو وہ اپنی قوت اور طاقت سےبُرائی کو بدل سکتے ہیں،۲۔ علما اور خطبا کا فرض ہے کہ وہ اپنے مواعظ اور خطبات میںبُرائی کا برا ہونا بیان کریں کیونکہ وہ صاحبِ اقتدار تو نہیں، لیکن وہ مسجد کے منبر کے وارث ہیں، وہاں لوگوں کو خطاب کرتے ہیں، وہ اس کے مکلف ہیں کہ بُرائی کابُرا ہونا اپنی زبان سے بیان کریں،۳۔ عوام جن کے پاس اقتدار ہے نہ ان کے پاس محراب و منبر ، جہاں پر وہ خطبہ دیں ، وہ صرف اس کے مکلف ہیں کہ وہ بُرائی کو دل سے بُرا جانیں (تفسیر تبیان الفرقان ج ۱، ص۷۳۵)
حضرت ثعلبہ ؓ نے ’’ارشادِ باری تعالیٰ:﴿تم پر اپنی جانوں کو بچانا لازم ہے، گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی نقصان نہیں دے گا جب کہ تم ہدایت پر ہو‘‘ کے متعلق فرمایا: خدا کی قسم میں نے اِس کے متعلق رسول اللہ ؐ سے دریافت کیا تو فرمایا: ’’تم نیکی کا حکم کرتے رہو اور بُرے کاموں سے روکتے رہو ،یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخل کی تابعداری کی جارہی ہے، خواہشات کی پیروی ہورہی ہے، دنیا کو ترجیح دی جارہی ہے، ہر ایک اپنی رائے پر نازاں ہواور ایسا معاملہ دیکھو کہ چارۂ کار کوئی نہ ہو، تو تم پر خود کو بچانا لازم ہے اور عوام کو چھوڑ دو، کیوں کہ پیچھے صبر کے دن ہیں ،جس نے ان دنوں میں صبر کیا تو گویا چنگاری پکڑی۔ ان دنوں میں عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ہے،جو اسی کی طرح عمل کرتے ہوں۔ عرض کی گئی کہ یارسول اللہؐ ! اُن کے پچاس جتنا؟ فرمایا کہ تمہارے پچاس آدمیوں جتنا ثواب۔‘‘
حضرت ثعلبہؓ کے دریافت کرنے پر آقائے نامدارؐ کا ارشاد فرمانا کہ’’نیکی کی دعوت لوگوں کو دیتے رہو، یہاں تک کہ ایسا ایسا دور آجائے۔‘‘ یہاں جس دور کی طرف نبی کریمؐ کا اشارہ ہے۔غالباً وہی آج کا دور ہے ۔ جس طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھیے بُرائی ہی بُرائی نظر آتی ہے۔ فحاشی ، عریانی، بد عملی اور دنیاوی خواہشات کے پیچھےدیوانہ وار دوڑنا، دینی معاملات کو پسِ پشت ڈال دینا اور بے ہودہ پن آج کے فیشن بن چکے ہیں ۔ ایسے دور میں بُرائیوں سے لوگوں کو ہاتھ اور زبان سے روکنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔تو پھر حدیث کے تیسرے اور آخری جزو پر عمل کرنا چاہیے (بُرائی کو دل سےبُرا جاننا)اور خود کو بچانا لازم ہے،اور صبر کا دامن پکڑے رکھنا، مگر ایسے دور میں صبر کرنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا کہ کوئی جلتا کوئلہ ہاتھ میں پکڑے۔ ایسے حالات میں بھی اگر کوئی امربالمعروف، نہی عن المنکر پر عمل کرتا ہے،تو اس کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑی خوش خبری دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’اس کے لیے پچاس آدمیوں کا ثواب ہے جو اسی طرح عمل کرتے ہوں‘‘۔ پھر عرض کی گئی اُس دور کے پچاس آدمیوں جتنا ثواب؟ فرمایا: تمہارے(صحابۂ کرام کےزمانے) زمانے کے پچاس آدمیوں جتنا ثواب۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانے میں میری اُمت کو اپنے حکمرانوں سے سخت تکلیفیں پہنچیں گی، اُن سے نجات نہیں پائے
گا مگر وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اُس پر اپنی زبان، ہاتھ اور دل کے ساتھ جہاد کیا، یہ وہ شخص ہے جو پوری طرح سبقت لے گیا،دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی تصدیق کی، تیسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اُس پر خاموش رہا، اگر کسی کو نیکی کرتے دیکھا تو اُس سے محبت کرنے لگا اور اگر کسی کو غلط کام کرتے دیکھا تو اُس سے نا خوش رہا، یہ سب اپنی اندرونی حالت کے باعث نجات پا جائیں گے (بیہقی)
آج اگر پوری دنیا میں قوم مسلم کو دیکھا جائے تو کہیں بھی حالات خیر کے نظر نہیں آتے۔ جہاں کہیں دیکھو اگر کوئی ظلم کی چکی میں پِس رہاہے تو وہ صرف مسلمان ہے۔ اِن تمام حالات کی اگر کوئی وجہ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ دور حاضر کے مسلمانوں نے اپنے رحمۃ للعالمینؐ کے فرامین پر عمل کرنا چھوڑ دیا، قرآن شریف کے درس کو بُھلادیا اور خصوصاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنا ترک کردیا۔ اگر کوئی کچھ بھی کرے کسی کو کوئی مطلب نہیں، بُرائی چاہے وہ دہشت گردی کی شکل میں ہو، کرنے والا کر کے نکل جاتا ہے بدنام پوری قوم ہوتی ہے۔اوردوسری طرف اسلام دشمن طاقتیں ایسے برائے نام مسلمانوں کو اپنا ہتھکنڈا بنا کر پوری قوم پر کیچڑ اُچھالنے کی ناپاک کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ایسے حالات میں قوم کی اصل رہنمائی صرف علما ومشائخ ، اور اہل دانش لوگ ہی کر سکتے ہیں اور وہ صرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوکر ۔
دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حسب حیثیت اس عظیم فریضہ کی بجا آوری کی توفیق سعید مرحمت فرمائے۔ آمین
[email protected]>