بچوں کو اَدب سکھانا جہاد سے افضل ! اُستاد۔انسان بنانے والے فنکار کا نام ہے

محمد ہاشم القاسمی

استاد اور استاذ دونوں کے تلفظ صحیح ہیں۔ فارسی میں استاذ (مع ذال) زیادہ مستعمل ہے،جبکہ اردو میں’استاد‘ (مع دال)زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
کچھ جگہ ’’استاذ‘‘ خلاف محاورہ، بلکہ غلط ہے۔ مثلاً: موسیقی کے ماہر کو ہمیشہ استاد کہتے ہیں، استاذ نہیں کہتے بلکہ کسی بھی فن میں ماہر شخص کو بھی ’استاد‘ کہتے ہیں۔’استاذ‘ نہیں کہا جا تا ۔ اسی طرح، کسی کو بے تکلفی سے مخاطب کریں تو اس موقعے پر بھی ’اُستاد‘ ہی کہیں گے۔ فارسی اور اردو میں ’استاذ‘کی عربی جمع’اساتذہ‘ رائج ہے۔
استاذ کا مرتبہ اور مقام بتلانے کے لئے وہ حدیث کافی ہے جس میں نبی اکرم، معلمِ اعظم ،محسن انسانیت، محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ بُعِثْتُ مُعَلِّماً‘‘( میں معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں) صفتِ تعلیم سے بڑھ کر اگر کوئی لفظ منصبِ نبوت کی شان کو شایان ہوتا تو اللہ کے نبیؐ تعلیم کے بجائے اس صفت کا تذکرہ کرتے، معلوم ہوا کہ تعلیم سے بڑھ کر کوئی صفت نہیں اور معلم سے اونچا کوئی مقام نہیں۔
استاد کی تعریف اگر ان لفظوں میں کی جائے تو غلط نہ ہوگا’’ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن‘پتھر کو تراش کر ہیرابناتا ہے۔‘‘
استاد معاشرے کو زندگی کا سلیقہ اور مقصد، سوچ و فکر کی راہ متعین کرتا ہے۔اگر زمانے میں عزت حاصل کرنی ہے تو استاد کو عزت دیں ۔اپنے استاد کی ہمیشہ دل سے قدر کریں ،وہ چاہے مالی طور پر کم حیثیت کے ہوں ،کھبی بھی ان کو مذاق کا نشانہ نہ بنائیں،یہ خدا کو غضب ناک کرنے والی بات ہے۔معاشرے کی تعمیر میں اُستاد ایک اہم رول ادا کرتاہے۔ ماں باپ کے بعد یہ اُستاد کی تربیت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ معاشرے کے بناؤ میں اپنا حصّہ ادا کر سکے۔ ایک انسان کتنی ہی ترقی کرلے، اسے یہ بات کبھی فرموش نہیں کرنی چاہیے کہ اُس کی کامیابی کا پہلا زینہ اُستاد ہی نے طے کرایا ہے۔ اصل میں کامیاب وہی لوگ ہیں جو اپنے اساتذہ کو زندگی بھر نہیں بھولتے اور اُن کی عزّت و تکریم کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔
حضرت ابو حنیفہؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استاد کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔ استاد بچے کے لئے رول ماڈل ہے۔استاد کی زندگی میں مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر استاد کی زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہے تو وہ طلبہ کو کوئی مقصدیت نہیں دے سکتا۔اگر استاد کی اپنی زندگی ہی بے معنی و بے مقصد ہو تو بھلا وہ اپنے طلبہ کی نیا پار لگانے میں کب کامیاب ہو سکے گا۔اگر آپ استاد نہیں ہیں اور حادثاتی طور پر ٹیچنگ میں آ گئے ہیں تو کوشش کریں کہ اس سے شوق بھی بنائیں۔اگر کوئی چیز آپکے لئے شوق بن جائے تو اس پہلو میں خود بخود دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کام کو پایٔہ تکمیل تک پہنچانا آسان ہو جاتا ہے ۔
ایک بادشاہ جس کی بادشاہت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی ،استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد سے کہا کہ استاد محترم! ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت بُرا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا، میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔
بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا، اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی ،آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔
وقت کے بہت بڑے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید تھے ۔دونوں ایک بار استاد امام کسائی کی مجلس سے اٹھے تو دنوں استاد کو جوتے پکڑانے کیلئے لپکے، دونوں میں اس بات پر تکرار بھی ہو گئی ۔استاد کی عزت کرنے والے لائق بچوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا اپنے استاد کو پکڑائیں گے۔ جب خلیفہ وقت ہارون رشید کو معلوم ہوا تو اس نے امام کسائی کو بلایا اور نہایت عزت و احترام سے پوچھا کہ آپ بتائیے اس مملکت میں زیادہ عزت والا کون ہے؟ ۔امام کسائی نے فرمایا کہ بے شک زیادہ عزت کے حقدار خلیفہ وقت ہیں ۔جواب میں ہارون الرشید نے کہا سب سے زیادہ عزت والا تو وہ ہے جس کے جوتے اٹھانے کیلئے خلیفہ کے بیٹوں میں جھگڑا ہونے لگے ۔خلیفہ ہارون رشید نے کہا امام صاحب بے شک آپ ہی زیادہ عزت کے حق دار ہیں ۔ اور اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس کام سے روکا تو میں آپ سے ناراض ہو جاوں گا ۔استاد کی عزت کرنے سے میرے بچوں کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے ۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی خدمت میں برطانوی حکومت نے ’’سر‘‘ کا خطاب پیش کیا مگر علامہ اقبال نے یہ کہہ کر خطاب لینے سے انکار کردیاکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، اس میں میرے استاد کا بہت اہم کردار ہے اس لیے پہلے میرے استاد کو یہ خطاب دیا جائے، پھر مجھے دیا جائے۔
آج اس ماڈرن دور میں بھی میں ایسے استاد بھی موجود ہیں جو خیر کا کام کرتے ہیں ،شر کے دروازے بند کرتے ہیں، بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، داد دیتے ہیں ،آگے بڑھ کر ہاتھ تھامتے ہیں، اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کر دیتے ہیں، دوسروں کے شعور اور احساس کو سمجھتے ہیں،کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں، مداوا کی سبیل نکالتے ہیں، رکاوٹ ہو تو دور کر دیتے ہیں، تنگی ہو تو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مسکراہٹ بکھیرتے ہیں، انسانیت کو سمجھتے ہیں، انسانیت کی ترویج کر دیتے ہیں، کسی کی بیچارگی کو دیکھ کر ملول ہوتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں، ہر اچھے کام کی ابتداء کرتے ہیں، پڑھنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں، ہر مصیبت زدگان کی مصیبت میں ساتھ دیتے ہیں، مل کر کھاتے ہیں، دکھ بانٹتے ہیں اور درد سمجھتے ہیں۔
امام بُرہان الدین زرنوجیؒ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے، جب تک کہ وہ علم ،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو ۔ کیو نکہ استاد ہو یا طبیب دونوں ہی اس وقت نصیحت نہیں کرتے جب تک ان کی تعظیم وتکریم نہ کی جائے۔ ادب کے ذریعے استادکے دل کو خوش کرکے ثواب حاصل کرنا، حدیث ِپاک میں ہے: اللہ پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کادل خوش کرناہے۔
ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام دل سے دُعائیں دیتے ہیں اور بزرگوں کی دعا سے انسان کو بڑی اعلیٰ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتیں ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہےکیونکہ جس نے جو کچھ پایا ،ادب واحترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اورجس نے جوکچھ کھویا ،وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔استاد کےادب سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو علم و اہلِ علم کا ادب سکھائیں۔حضرت ابنِ عمر ؓ نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے تمھارے بیٹے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو تم نے اُسے سکھایا اور تمھاری فرمانبرداری کے بارے میں اس لڑکے سےسوال کیا جائے گا۔ ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ استاد کے ادب واحترام کو اپنے اوپر لازم سمجھے،استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے انکی باتوں کو بغور سماعت فرمائیں۔
انسان جس سے بھی کچھ سیکھے، اس کا احترام فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض ’’رٹا‘‘ ہے۔ حفظ بے معرفت گفتار ہے،اس میں اعمال کا حسن نہیں، گویا وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہو،وہ ایک بے معنی لفظ ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو، اس کا عطا کرنے والا بہر حال قابلِ عزت ہے اور جب تک ادب و احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہیں اٹھے گا، تب تک نہ علم کا گلزار مہک سکے گا اور نہ ہی علم، طالب علم کے قلب و نظر کو نورانی بنا سکے گا۔ باقی تمام چیزیں انسان خود بناتا ہے مگرانسان کو کون بناتاہے۔میری مراد انسان کی تخلیق نہیں انسان کا بشریت سےآدمیت کی طرف سفر ہے۔انسان کو بنانے والے فنکار کا نام ہے ’’استاد ‘‘۔ اسی لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ مشکل، اہم اور قابلِ قدر ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ روحانی رشتہ ہے ،یہ تعلق دل کے گرد گھومتا ہے اور دل کی دنیا محبت، ارادت کی کہکشاں سے بکھرتی ہے۔
حضرت علی ؓ کا فرمان ہے: ‘’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا ،میں اس کا غلام ہوں، چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کر دے۔‘‘
اگر دیکھا جائے تو دنیا کے تمام کاموں سے مشکل کام استاد کا ہے۔ ایک بچہ جو ماں کی پہلی درسگاہ سے نکل کر اسکول، مکتب، مدرسہ جیسے ادارے میں آتا ہے تو استاد اسے نہ صرف علم کی روشنی سے منور کرتا ہے بلکہ اسے معاشرے میں جینا سکھاتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دنیا کے تمام اساتذہ کرام کو ان کی شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔آمین
(رابطہ نمبر – 9933598528 )
<[email protected]>