! روز گار کے مواقع پیدا کریں

بلا شبہ ہر فرد اس بات سے بخوبی واقف ہےکہ ملک کی کئی دوسری ریاستوںکی طرح جموں و کشمیرمیں بھی بے روزگاری تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور ضروریات زندگی کی اہم چیزیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔جس کے نتیجے میں محدود آمدن والے طبقے کے لئے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرنا دن بہ دن مشکل سے مشکل تر بنتا جارہا ہے اور جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنا عذاب بن چکاہے۔ بہت سارے لو گ قرضوں کے نیچے دَب گئے ہیں اور اپنے گھروں کی کفالت کرنے کے لئے دو دو جگہوں پر نوکریاں یا کام کرکےذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہورہے ہیں۔جبکہ بیشتر لوگ کام کاج کی تلاش میں در در بھٹک رہے ہیں اور روزگار نہ ملنے کے نتیجے میںنفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔ظاہر ہے ،جس معاشرے میں بھوک ،افلاس اور بے روز گاری عروج پر ہوگی ،اُس معاشرے میں بیماریوں کے ساتھ ساتھ دوسری کئی بُرائیاںاور خرابیاں جنم لیتی ہیں اور جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جموں وکشمیر میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔اس صورت ِحال کی زد میں محض محدود آمدن والے اور مزدور طبقے ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ وہ سرکاری اور پرائیوٹ ملازمین بھی آرہے ہیں،جن کی تنخواہیں اور اُجرتیں کم ہیں اور وہ بھی اُنہیں مناسب ڈھنگ سے نہیں مل رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف دفتروں ، پرائیویٹ کمپنیوں اور کاخانوں میں کام کرنے والے لوگ بھی پارٹ ٹائم کام کے حصول میںسرگرداں رہتے ہیں۔بغور دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہےکہ دو دو جگہوں پر لوگ کام کرنے پر کیوں مجبور ہورہے ہیں۔ایک طرف جہاںغربت کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے ایسے کئی لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیںاور ہر ستم برداشت کرکے گھٹ گھٹ کر مررہے ہیں تو دوسری طرف سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین خصوصا چھوٹے اور کم تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ناانصافیاں ہوتی رہتی ہیں، پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کا حال تو زیادہ بد تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ایک فرد کی کمائی سے گھر چلانا ناممکن ہوچکا ہے، اس لئے ہر دوسرے شخص کو دوسرے نوکری کرنا پڑتی ہے، علاوہ ازیںمتعدد دیگر مسائل کی وجہ سے بھی لوگ دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ کسی کو اپنے والدین کا علاج کروانا ہے ،کوئی قرض اُتارنے کیلئے دو نوکریاں کررہا ہے، کسی کو اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اس عذاب کو جھیلنا پڑرہا ہے اور کوئی بجلی بلوں کی ادائیگی کرنے کے لئے اپنی جان ہلکان کرتا ہے۔ یقیناًدو نوکریاں کرکے کسی بھی فوری مسئلے کا حل تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بطن سے نہ جانے کتنے مسائل جنم لے لیتے ہیںجو بالآخر نہ صرف نوکریاں کرنے والے کے جسم و جان بلکہ اُس کے اہل و عیال کے لئے بھی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ہاں! یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ کئی لوگوں نے خود ہی معاشرے میں موجود غیر ضروری چیزوں کو اپنے لئے ضرورت بنا رکھا ہے ، اس قسم کی کئی غیر ضروری چیزوں کو سہولت کے نام پر حاصل کرنے کی جدوجہد انسانی زندگیاں تباہ کرتی جارہی ہیں۔ معاشرے میں پھیلی ان غیر ضروری چیزوں استعمال ختم تونہیں کیا جاسکتا ، لیکن اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ خود ہی ایسی غیر ضروری اشیاء کی خواہش ترک کردیں، جن کے بغیر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے۔ مشینوں کی طرح کام کرنے کی بجائے ایسے طریقے اپنائے جائیں جس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو۔المختصر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی نے یہاں کےمحدود آمدن والے اورمحنت کش غریب طبقے کو جس انداز سے اُلجھنوںاور مصائب میں مبتلا کیا ہے اور اُن کے منہ کا نوالہ تک چھین کر اس صورتِ حال تک پہنچایا ہے،اُس پر یہاں کی یو ٹی سرکار بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔وہ تو بَس ہر مجلس اور ہر محفل میں لوگوں کو خوش حال بنانےاور ترقی کی راہ پر لے جانےکےہی دعوے کرتی رہتی ہےاور اصل صورتحال پر پردہ ڈالتی ہے۔شائد وہ یہ بات بھول چکی ہےکہ کسی بھی ریاست یا معاشرے میں امن وامان ،افراد کی خوشحالی پر منحصر ہوتا ہے، اگر اس کے باشندے خوشحال نہیں تو وہ ریاست یا معاشرہ ہر طرح کی بُرائیوں ،خرابیوں اور جرائم کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ تنگ اور غربت ہی ان تمام مسائل کی جڑ ہے اور یہی معاشرے کی بربادی کے باعث بنتے ہیں۔لہٰذا سرکار کو چاہئے کہ وہ جموں و کشمیر میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں،مہنگائی کو کنٹرول کریں ، قیمتوں کو اعتدال میں لانے کی کوششیں کریں اور کم تنخواہ یافتہ سرکاری و غیرسرکاری ملازمین کو معاشی تحفط فراہم کرنے کے لئے مثبت قدم اُٹھائے۔