بارہمولہ//تاپرپٹن میں اس وقت جشن کا سماں ہے ۔کیوں نہ ہو ،16برسوں کے صبر آزما انتظار کے بعدعلاقے کو ہونہار سکالر گلزار احمد وانی بالآخر اپنے اہل خانہ سے جو ملا ہے ۔وانی کنبے کے ساتھ ساتھ تاپر کے ہر چھوٹے بڑے کے چہرے خوشی سے چمک رہے ہیں ۔نوجوان اور بچے گلزار کے ساتھ سیلفیاں بنا کر اپنی خوشی کااظہار کررہے ہیں جبکہ علاقے کے بڑے بزرگ مرد و خواتین اہل خانہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے گلزار کیلئے دعائیں کررہے ہیں ۔تاپر میں خوشی کا یہ عالم منگل کی دوپہر سے جاری ہے کیونکہ اس وقت گلزار وانی 16برسوں کے طویل عرصے بعد تمام مقدمات سے بری ہوکر اپنے گھر لوٹ آیا ہے ۔انہیں 2001میں سابرمتی ایکپریس دھماکے سمیت دیگر کئی الزامات مین گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب طویل عدالتی چارہ جوئی کے بعد بالآخر انہیں سبھی مقدمات سے باعزت طور بری کردیا گیا ہے۔مقامی لوگوں کا اژدہام اس وقت تاپر میں وانی خانوادے کے ساتھ خوشیاں بانٹنے میں مصروف ہے ۔ایک مقامی معمر خاتون نے نمائندے کو بتایا کہ یہ علاقے کے لئے خوشی کا مقام ہے ۔’’میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس نونہال کو بڑا ہوتے دیکھا ہے ۔شرافت و سادگی کا پیکر گلزار کسی بھی غلط کام میں ملوث نہیں ہوسکتا ہے ۔اسے جھوٹے کیسوں مین پھنسایا گیا تھا لیکن اب خدا نے ہماری دعائین سن لیں اور ہمارا بچہ اب ہمارے ساتھ ہے۔اس موقعے پر گلزار احمد نے کہاکہ یہ اس کی زندگی کا بہت ہی پر مسرت لمحہ ہے کیونکہ وہ اب پھر سے اپنوں میں موجود ہے ۔16برسوں کی جدائی بہت کرب ناک گذری ۔اس دوران یہاں بہت کچھ بدلا ہے ۔کئی عزیز و اقارب فوت ہوچکے ہیں جبکہ کئی نئے چہرے سامنے ہیں ۔ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لانا ضروری ہے۔انہوں نے شکایتی لہجے میں کہاکہ ان کے16برس اب کون لوٹائے گا ۔اس دوران پر اور ان کے اہل خانہ پر جو قیامتیں گذری ہیں ،ان کا جواب کون دے گا؟۔گلزار احمد کے مطابق وہ دہلی پولیس کی خصوصی سیل کے ذریعے اس وقت گرفتار کئے گئے جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے تھے ۔انہوں نے کہاکہ’میں نے دو ابر NETکوالیفائی کیا اور مستقبل مین درس وتدریس کے شعبے میں آگے بڑھنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا‘‘۔انہوں نے قیدیوں کے حق میں سریع عدالتی کارروائی کی وکالت کرتے ہوئے کہاکہ عدالتی کارروائیوں میں تاخیر ہی ان نوجوانوں کے جیلوں میں زیادہ وقت لگنے کا موجب ہے ‘‘۔گلزار احمد اب اپنے اہل خانہ اور ہمسایوں کے درمیاں گھرے ہوئے ہیں ۔انہیں اپنے مستقبل کا تعین کرنے میں ابھی مزید وقت درکار ہے تاہم وہ پر امید ہیں کہ وہ جلد ہی اس حوالے سے فیصلہ کریں گے کہ زندگی کا آگے کا سفر کس سمت میں طے کرنا ہے ۔