کسی پر بھروسہ کیا جائے اور کس کس کو جانے دیں، توازن برقراررکھنے کا نام ہے زندگی۔ پچھلی ایک صدی کے دوران ، جب دنیا بھر میں تیغ و تفنگ سے لیس آمریت کو جمہوریت کے پروانوں نے محض نعرے پھونک پھونک کردیس بدر کردیا ہے، جموں کشمیر ریاست واحد ایسا خطۂ ا رض ہے، جہاں جمہوریت نام کے صندوق کو بندوق کے تابع کیا گیا ہے۔ تاایں دم ہماری ریاست کے بیرون میں بھی جمہوریت کو گلے سے پکڑے جانے کے ماحول میں،جموں کشمیر کے موجودہ گورنرستیہ پال ملک سے لے کر بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی تک سب کا یہی ماننا ہے کہ ماضی میں انڈین کانگریس پارٹی نے کشمیر کی سیاست سے کھلواڑ کر کرکے حالات کو موجودہ خون آشام سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اگرچہ یہ سب اپنے کہے کو کچھ اپنا اپنا معنی ومفہوم بھی دیتے ہوں ، پھر بھی اٹل حقیقت یہ ہے کہ جموں کشمیر کے سیاسی حالات کو پہلے کے زمانوں سے بھی زیادہ پیچیدہ موڑ ان کرم فرماؤں کے ہاتھ دیا گیا ہے اور پھر حالات ’’سدھار ‘‘نے کے اپدیش دے دے کر خود کانگریسی سیاست سے سوگز آگے نکل آئے ہیں۔ اب تو اعلانیہ طور جموں کشمیر کی نوجوان پود کو’’ سبق سکھانے ‘‘کی نہ صرف دھمکیاں دی جارہی ہیں بلکہ قید و بند، زور زبردستی اور نہتوں پر بے تحاشہ پیلٹ و بلیٹ استعمال کرنے میں تمام تر ضابطوں کو بالائے طاق پر رکھا گیا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے ریاستی اسمبلی الیکشن عمل کے دوران جب بی جے پی کے پہلو بہ پہلو مرکزی حکومت دفعہ ۳۷۰ ؍ کے خاتمے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ووٹ بٹورنے نکلی تھی تو اس کے ردعمل میں پی ڈی پی قائدین بھی ۳۷۰؍ کو تحفظ فراہم کرنے کی آڑ میں ریاست کے انتخابی میدان میں چل پڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں خالی کشکول اور منہ میں ووٹ کی طاقت سے بی جے پی کا ’’راستہ روکنے‘‘ کا منتر تھا، جھولی میںستمبر ۱۴ء کی سیلابی تباہ کاریوں میں اُلجھے متاثرہ لوگوں کی آہ و بکا اور’’ انٹی اِن کم بینسی‘‘ عموم کے تحت تب کی ملی جلی سرکار کی کوتاہیوں سے فائدہ اُٹھانے کیلئے ترکش کا ایک تیر بھی تھا۔ پھر ووٹ ڈالنے کی تاریخیں مقرر کی گئیں، متحدہ مزاحمتی محاذ کی لاکھ اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پولنگ مراکز پر ووٹروں کی آناً فاناً قطاریں لگ گئیں۔ نتیجے کے دن پی ڈی پی کو ۲۸؍ نشتوں والی سب سے بڑی جماعت قرار دیا گیا۔ دوسری پوزیشن بی جے پی کو عطا ہوئی اور سابق الائینس پارٹنرس یعنی نیشنل کانفرنس اور کانگریس اسمبلی ہا ل کے اندر باہر ہو جانے میں مشکل سے ہی اپنا اپنا پہچان پتر بچا سکیں۔ پھر ایسا ہوا کہ پی ڈی پی نے نام نہاد’’ نارتھ پول ساؤتھ پول‘‘ کے اتحادکا نعرہ ایجاد کرکے بھاجپا کا داخلہ ریاست میں روکنے کے بجائے بی جے پی کے ساتھ ہی ملی جلی حکومت کا ناطہ باندھا اور کرسی ٔ اقتدار پر براجمان ہوئی۔ تب حالات کسی بھی صورت میں نیشنل کانفرنس کی کامیابی کے طرف دار نہیں تھے لیکن ۳۷۰؍ کے حامیوں یعنی ووٹ ڈالنے والوں کا فرض بنتا تھا کہ وہ ووٹ کا بٹوارہ نہ ہونے دیتے اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں عمر عبداللہ کی’’ ایک ہی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل‘‘ کو اپنے پلو میں باندھ لیتے۔ کاش تب اُس اپیل پر عمل در آمد کیا گیا ہوتا، اپیل کا فائدہ بھی پی ڈی پی کو ہی مل پاتا اور ریاست کے اقتداری معاملات میں بی جے پی کو براہ راست مداخلت کا موقع بھی نہ مل جاتا۔ اس طرح سے ہمارے لئے حالات موجودہ حد تک اَبتر نہ ہوجاتے ۔ ۲۰۱۴ء کے اسمبلی انتخابات میں کشمیری عوام کا بھی حصہ لینا، پی ڈی پی اور بی جے پی کی ملی جلی حکومت کا قیام عمل میں آنا اور پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران وادی میں خاص طور سے امن و امان کی صورت حال کو بہ شدت دھچے دھچکے لگ جانا ، یہ سب تاریخ کے ایک اور سیاہ صفحہ پر پہلے ہی درج ہوچکا ہے۔ اب تاریخ کے اس صفحہ کو جب بھی سامنے لایا جائے گا تو عبرت پکڑتے ہوئے ریاست کا مستقبل بہتر بنانے کے حوالے سے ہی اسے پڑھا جائے۔
ابھی ’’ریاست میں ایک ہی جماعت کی حکومت ‘‘ کا قیام عمل میں لانے کی ضرورت کے حوالے سے ۲۰۱۴ء کے وہی الفاظ دوہراتے ہوئے تب کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ نائب صدر عمر عبداللہ کا بیان بازار ِسیاست میں اب سکہ ٔ رائج الوقت کے طور چلنے لگا ہے۔ اس بیان کی تائید میں پی ڈی پی کے ایک اہم لیڈر اور سابق وزیر خزانہ الطاف بخاری کا کہنا ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں مخلوط سرکار کی افادیت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔الطاف بخاری کا ماننا ہے کہ ۲۰۰۲ء سے مخلوط سیاست ریاست کیلئے نقصان دہ ثابت ہوچکی ہے اور مجموعی تعمیر و ترقی ،امن و امان اور سیاسی استحکام کے خوابوں پر منفی نتائج ثبت ہوئے ہیں۔ عمر عبداللہ کے بیان کے ہو بہو الطاف بخاری نے بھی اپنے الفاظ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف داری کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ عوام اپنے ضمیر کو بیدار کرکے کسی ایک ہی سیاسی جماعت کا انتخاب عمل میں لائیںگے۔ الطاف بخاری کی سیاسی جماعت کی صدر محبوبہ مفتی نے تاہم باقی تمام سیاست دانوں پر سبقت لیتے ہوئے عمرعبداللہ کے بیان اور الطاف کی تائید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مخلوط سرکاریں، یک جماعتی نظام حکومت سے زیادہ پیداواری اور بہتر ثابت ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں محبوبہ مفتی کی پیش کردہ دلائل اُن کے ذہن کی پیداوار ہوسکتی ہیں لیکن ان میں معنویت پنہاں نہیں ہیں۔ اگر اُن کے دلائل کوئی معنی رکھتے ہیں تو محبوبہ جی کے ہاتھوں سے ہی آزاد مخلوط حکومت کے دور میں شرائین بورڈ کو زمین الاٹمنٹ کا بحران کھڑا ہوا تھا اور پی ڈی پی نے ہی مخلوط سرکار کو گرانے کا کارڈ کھیلا تھا۔ اس سیاسی د باغازی نے اُسی سال ۱۱۹؍ نہتے کشمیری مظاہرین کی جان لی تھی اور کشمیر تب سے متواتر جل رہا ہے۔ زیر قلم موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے محبوبہ جی کے دلائل کو علحیدہ طور کسی دوسرے مضمون میں زیر بحث لانے کی سعی کروںگا۔ ابھی تواتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ محبوبہ مفتی نے الطاف بخاری کے بیان کو اُس کی ذات تک ہی سمیٹ دیا ہے۔ تاہم اسی دوران پی ڈی پی کے سرپرست مظفر حسین بیگ سے منسوب اسی موضوع سے ملتا جلتا ایک اور بیان بھی سامنے آیا ہے۔ اس بیان میں مظفر بیگ کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۸ء میں ملی جلی سرکار سے پی ڈی پی کی حمایت واپس لینا بہت بڑی غلطی تھی۔ ابھی جب کہ خود محبوبہ مفتی کو اپنے کولیشن پارٹنر بی جے پی کی غیر متوقع طور اور غیر ضروری مداخلت کے نتیجے میں بڑی حسرتوں پر قائم اپنے اقتدار کی کرسی سے محروم ہونا پڑا ، محبوبہ کاپھر بھی کولیشن نظام حکومت کی طرف داری کرنا، اُن کی کسی سیاسی مجبوری کو ظاہر کرتا ہے ۔ ایک ضرب المثل ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور محبوبہ جی اپنی ضروریات کے پیش نظر سیاسی ایجادات کو معرض وجود میں لانے کا فن بخوبی جانتی ہیں اور ۲۰۱۰ء میں عوامی ایجی ٹیشن کے دوران اس کا مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔
اس دوران ہمارے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی سیاست میں مزاحمتی قائدین کی اہمیت کو کیونکر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مرکزی سرکار اگرچہ مزاحمتی خیمے کی کشمیر پالیسی کے ساتھ کسی بھی طریقے سے متفق نہیں ہے، تاہم اس خیمے کو حاصل اہمیت کے پس منظر میں کانگریس کی مرکزی سرکار کے ہی نقش قدم پر اب بی جے پی سرکار نے بھی اس خیمہ کے ساتھ رابطہ بنانے اور مذاکرات کا شراکت دار بننے پر آمادہ کرنے کیلئے مذاکرات کار کو بھی عرصہ ہوا تعینات کردیا ہے۔ کشمیر مسئلے کو لے کر بھارت سرکار ملکی آئین کے حدود میں کسی بھی فریق کے ساتھ مذکرات کرنے کا وعدہ دیتی ہے جب کہ مزاحمتی خیمہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کرانے کی ضرورت جتلاتے رہتا ہے۔ کشمیر وادی کے حدود سے باہر بھی سرگرم’’ مین اسٹریم ‘‘نام سے ایک اور فریق کو بھی اپنا الگ مقام حاصل رہا ہے، جو ووٹ بھی حاصل کرتا ہے اور سرکار بھی بنالیتا ہے۔ اس فریق کا ایک حصہ ، نیشنل کانفرنس اٹانومی کی بحالی کے منشور کو لے کر بہت پہلے سے سرگرم عمل رہا ہے اور اور دوسرا حصہ سال ۲۰۰۶ء سے سیلف رول کا عَلم اُٹھائے پی ڈی پی کی صورت میں نمودار ہوا ہے ۔ پہلے جب یہ دو حصے نہیں بلکہ سب لوگ ایک ہی پارٹی کے جھنڈابردار اور ہم آواز تھے، تو عوام بھی کچھ حد تک آرام سے اور مطمئن ہوکر بود وباش کرتے تھے۔ مزاحمتی خیمے کے قائدین اپنے آپ کو’’ علحیدگی پسند‘‘ لیڈر کہلانا پسند نہیں کرتے ہیں اور بھارتی الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام منعقدہ کسی بھی چنائو میں شرکت کرنے کی مخالفت کرتے ہیںلیکن کشمیری عوام اپنے ان منظور نظر قائدین کی الیکشن بائیکاٹ اپیل پر پوری سنجیدگی کے ساتھ کبھی عمل آور نہیں ہوسکے ہیں۔ سال ۲۰۰۸ء کے مطابق ہی ۲۰۱۴ء میں بھی اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں عوام کی ریکارڈ توڑ شرکت اور جذبات کی شدت ہم سب کیلئے چشم کشا ہے۔ کئی حلقوں کے مطابق مزاحمتی خیمے سے قربت رکھنے والے کچھ عناصر بھی ووٹران کے طور الیکشن مراکز پر سرگرم حالات میں دیکھے گئے تھے۔ تاہم عوام مجموعی طور اسی خیمے کے سیاسی نظرئیے کے بالکل ساتھ ساتھ جیتے رہتے ہیں، مگر کبھی یہ حصہ اور کبھی وہ حصہ مقامی نوعیت کے کچھ مقاصد اور مجبوریوں کو لے کر ووٹر بن کر انتخابی عمل کے دوران سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ا ن حالات میں اب الیکشن حامی اکثر مین ا سٹریم جماعتیں بھی مجبوری کی حالت میں اعلانیہ کہتی رہتی ہیں کہ الیکشن میں عوام کی شرکت کا مطلب مزاحمتی خیمے کی کشمیر پالیسی کے ساتھ ٹکرائو نہیں بلکہ لوگوں کو حاصل بلدیاتی حقوق کو تحفظ فراہم کرنے تک ہی محدود ہوتا ہے اور ان حقوق میں بجلی، پانی ، نالی اور سڑک جیسے مسائل کا حل نکالنا سر فہرست ہے لیکن پچھلی بار غالباً ستمبر مہینے کے دوران متحدہ مزاحمتی فرنٹ سے وابستہ قائدین کو جب دفعہ ۳۵ ؍الف اور ۳۷۰؍ کے سر پر منڈلاتے بادل دکھائی دئے تھے، تو وہ بھی کو ئی صبر کئے بغیر سڑکوں پر ان کے دفاع میں نظر آنے لگے تھے۔ حالانکہ یہ دونوں دفعات بھارت کے آئین سے تعلق رکھتی ہیں اور مزاحمتی خیمہ بنیادی طور آئین ہند کے ساتھ کوئی رغبت نہیں رکھتا ہے اور آئینی سسٹم کو تسلیم ہی نہیں کر تا۔ کشمیری عوام نے بھی مزاحمتی قیادت کے ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ الف حامی اس اقدام کی کافی سراہنا کی تھی اور ان دفعات کو تحفظ فراہم کرنے کے ارادے سے سپریم کورٹ میں موجود کشمیر بار کونسل کے ممبران کی پیٹھ سہلاتے دیکھ کر فخر محسوس کررہے تھے۔ سپریم کورٹ (بابری مسجد۔ رام مندر مقدمہ کے مانند) کشمیر مسئلے کے پیچیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے ، ان دفعات کو باقی رکھنے یا ہٹانے سے متعلق جلد بازی میں قطعی طور شاید ہی کوئی فیصلہ صادر کرے لیکن دفعہ ۳۷۰ ؍کی برقراری کی کٹر دشمن بی پے پی اپنا ہدف پانے کیلئے کسی بھی صورت میں خاموش بیٹھنے والی نہیں ہے۔ ابتداء میں بی جے پی سرکار کا نشانہ پی ڈی پی کو ریاست جموں کشمیر پر مستقل طور حکمرانی کرنے کا چکمہ دے کر ان آئینی دفعات کو اسی پارٹی کے کندھوں پر سوار کرکے قبرستان پہنچایا جاتا لیکن مفتی سعید کی بیماری کے بعد موت اور اس کے بعد وزیر اعلیٰ بننے پر محبوبہ مفتی کے سامنے مشکلات کے پہاڑ اُمڈ آنے کے نتیجے میں بی جے پی اپنا یہ ہدف پورا کرنے سے رہ گئی۔ اب محبوبہ کو اقتدار سے ہٹانے اور سجاد لون کو مسند اقتدار پر بٹھاکر اس ادھورے خواب کی تعبیر تلاش شروع ہو نی تھی کہ سجاد لون کی تخت نشینی کی گھڑی بجنے سے پہلے ہی تین پارٹیوں کے گھڑی بھر کے ’’اتفاق اور مثالی فیصلے ‘‘نے اس خواب کی تعبیر کو پھر سے تتر بتر کردیا۔ مرکز نے گورنر ستیہ پال ملک کے ذریعہ عین اسی لمحے کے دوران ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا بگل بجا تے ہوئے اسمبلی کو تحلیل کر وانے کا فیصلہ سنایا۔ حالانکہ محبوبہ جی کو اقتدار سے محروم کرنے کے ساتھ ہی، بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتیں پچھلے چھ مہینوں سے ہارس ٹریڈنگ کا واسطہ دے کر اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ ہر محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنے کے باوجود بھی بی جے پی کا دَم خم ابھی تک باقی ہے اور کشمیر سے ان دفعات کو ہٹانے کیلئے تازہ دم ہے۔ اب نئی اسمبلی الیکشن کے لئے تاریخوں کا تعین کرنے کی غرض سے سیاسی پنڈتوں کے ساتھ مشورے جاری ہیں۔ بلدیاتی الیکشن مکمل ہوجانے سے قبل ہی بابائے بلدیہ کو منتخب کرنے کے طرز پر قائد اسمبلی ایوان کا بھی پہلے سے ہی انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔ الغرض صاحبِ اقتدار طبقہ ہر طرح کی تیاریوں پر نظر رکھے ہوا ہے لیکن بے سرو سامان فریق کو اللہ کی امداد کے ساتھ ساتھ مخصوص دفاعی حکمت عملی پر کاربند رہنے کی مجبوری ہے۔ اس کے لئے دور اندیشی ، حُب الوطنی ، دلوں کی پاکیزگی، ایک ہوجانے کی فکر اور اتفاق کے ساتھ رہنے کی تڑپ ہی سب سے کارگر ہتھیار ہوگا ۔