عظمتِ حسینؓ
نبی علی کا گھرانہ مرے حسین کا ہے
حسب نسب بڑا اعلٰی مرے حسین کا ہے
اسے دباؤ گے جتنا یہ ابھرے گا اتنا
یہ میرا ایماں نوازا مرے حسین کا ہے
تو قتل کرتے ہوئے شمر یہ بھی بھول گیا
نبی کا عکس، سراپا مرے حسین کا ہے
کہیں بھی نسلِ یزیدی نظر نہیں آتی
ہر ایک شہر میں کنبہ مرے حسین کا ہے
گلے میں تیر چبھا ہے مگر ہے لب پہ ہنسی
یہ روئے کیسے کہ بیٹا مرے حسین کا ہے
یزید و شمر کا لیتا نہیں ہے نام کوئی
جہاں میں آج بھی چرچا مرے حسین کا ہے
لقب ہے فاتحِ خیبر علی ہے جس کا نام
خدا کا شیر وہ بابا مرے حسین کا ہے
نبی کی پشت کے اور دوش کے سوار ہیں یہ
بڑی بلندی پہ رتبہ مرے حسین کا ہے
عبادتوں کی جو تاریخ میں مثالی بنا
قسم خدا کی وہ سجدہ مرے حسین کا ہے
ذکیؔ نبی کا یہ فرمان بھولنا نہ کبھی
وہی ہے میرا جو شیدا مرے حسین کا ہے
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی
نورِ عینِِ محمدؐ
آمد ِحسینؑ سے جہاں میں آیا انقلاب
چمک اُٹھا ہے نور سے ذرہ ذرہ آفتاب
ہوگئے سرشار محمدؐ دیکھر کر روئے جناب
لے لیا ہاتھوں میں ان کو اور چُومابے حساب
تب ولایت کے ہی ہاتھوں میں امامت آگئی
حقِ سبحانی کا تیرا تھا ازل سے انتخاب
اُن کی عظمت اور عفت ہم ہے ہو کیونکر بیاں
سرورِ عالمؐ ہوں نانا اور علیؑ ہوں جن کے باپ
ہیں شجاعت میں وہ یکتا خصلتِ ابوتراب
کربلا میں دی شہادت کھول دی راہِ ثواب
روئے منور دیکھ کر مٹ گیا سب اضطراب
آپ نورِ عین ہیں محمدؐ نے بخشا ہے خطاب
سنگ در پر ہے کھڑا ساقی ؔبہت ہے مضطرب
ہے توقع بخش دیںگے وہ مجھے روزِ حساب
امدادساقیؔ
باغبانپورہ، لعل بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛9419000643
منقبت
تاریک شب میں نورِ ستارہ حسین ہے
حق اور وفا کا سمجھو ادارہ حسین ہے
جابر سمجھ نہ پائے گا اخلاص کی زباں
دینِ یزید کا وہ خسارہ حسین ہے
شہدا کی داستان مکمل نہ کیسےہو ؟
عثمان ہیں مدیر شمارہ حسین ہے
ہوتا بھلا سفینۂ حق زیرِ آب کیوں
دریائے مصطفیٰؐ کا کنارہ حسین ہے
دعوت پہ جن کی آیا نواسہ نبیؐ کا جب
وہ بھی نہ کہہ سکے کہ ہمارا حسین ہے
اپنی تباہیاں مجھے منظور ہیں مگر
کیسے جھکوں کہ میرا سہارا حسین ہے
ظلمت کی آندھیوں میں اگر گھِر بھی جاؤں گی
منظرکے چار سوبھی نظارہ حسین ہے
سارے جہاں میں گونج رہی ہے صدا جبیںؔ
اک بے مثال نور منارہ حسین ہے
جبیں نازاں
لکشمی نگر، نئی دہلی
<[email protected]>
محرم
تاریخ بتاتی ہے یہی شام وسحر کی
تکلیف ، محرم میں بڑھے سوزِ جگر کی
طاغوت کے آگے نہ جھکے گردن حق وہ
یہ شان اعلیٰ دیکھی علی مولا کے گھر کی
محرومِ اِنا تھا سبھی طاغوت کا لشکر
زینب یہی کہتی تھی ردا چھن گئی سر کی
جس روز اُتارے گئے اس دھرتی پہ آدم
اس دن سے قیامت ہی تھی قسمت میں بشر کی
کربل میں حکومت سے نہتے ہی لڑے وہ
ایسی تھی شہادت مرے زہرا کے پسر کی
خط بھیج کے بلوایا انہیں ہٹ گئے پیچھے
غیرت بھی کہاں مر گئی اُف اہل نظر کی
ہر ماہ میں افضل ہے نیا ماہ ،محرم
انجمؔ یہ کہانی ہے بہتر(۷۲)کے سفر کی
فریدہ انجم
پٹنہ سٹی، بہار
[email protected]>
کربلا کی شام
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
زینب اکیلی ہے غم کی ستائی ہے
میں کیا کروں بابا دیتی دہائی ہے
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
آکر یہاں دیکھو بابا اسیروں کو
ظالم ستاتے ہیں بابا یتیموں کو
خاموش کیوں اس پر ساری خدائی ہے
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
جل کر راکھ ہوا بیمار کا بستر
محتاج ہوں اتنی سر پہ نہیں چادر
غم کی اداسی ہے مقتل میں چھائی ہے
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
بالی سکینہ کو اب نیند کہاں آتی
وہ پیاس اصغر کی یوں بھول نہیں پاتی
جھولا جھلاتی ہے سب کو رلاتی ہے
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
نانا نبیؐ کے وہ قرآن کے پارے
خون کے دھاروں میں وہ ڈوب گئے سارے
لختِ جگر زہرا بالکل اکیلی ہے
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
بکھرے پڑے بن میں بےسر بدن سارے
دربارِ امامت کے وہ چاند اور تارے
شام و سحر ان کی اب یاد آتی ہے
یہ کیسی قیامت ہے یہ شام لائی ہے
حکیم مظفرحسین
باغبان پورہ، لعل بازار،سرینگر
موبائل نمبر؛9622171322
مرثیۂ زینب
کسےمعلوم ہے کربلا کا دوسرا حسین
اک نواسہ رسول اور اک آ سراحسین
سنایا جہاں کو ہر سو ماجرا حسین
قید ہو یا بازار ہر جگہ پکارا حسین
شیردل خاتون یہی زہراکی ثانی ہے
عارف تھی دنیا باقی نہیں فانی ہے
کربلا سے کوفہ کوفہ سےبازارشام
مع مضطر فضہ کلثوم اورعیال خام
پھرتی رہی بچانے فقط اسلام کا نام
پلایا بشریت کودین ناب کااک جام
یزیدہارگیاجیت کرحیدرکےلعل سے
حق کودباتے نہیںباطل کےمال سے
تپتی دھوپ سے آ ہ !رنگ کا فق ہونا
بنی ہاشم کے دلیروں کی جان کھونا
چپ کر قیدخانہ کے کونہ میں رونا
بغیرفرش کے بچوں کے ساتھ سونا
نان زہرا سےآ ج کے لئے پالا تھا
تاکہ سب جانے کیا ادنیٰ و اعلیٰ تھا
کمرخم گرد سےحجاب کا انتظام کرنا
سلطنت یزیدکاجڑسےانہدام کرنا
پس مستقبل کی ظلمت کا انتقام کرنا
فکرحسین کوہرسوخاص وعام کرنا
باطل سےلڑائی کا اک یہی انداز ہے
محافظ جنگ پہ فقط یہی سرباز ہے
حق کی خاطرطمانچہ کھایا زینب نے
مطلق حق کوبےججھک پایازینب نے
دنیامیںانوکھا انقلاب لایازینب نے
اسلام بچایا دیکے چادر کا سایا زینب نے
مصائب ترےسن کرامِ مصائب یاد آئی
افسوس تجھے مارنے قو م عاد آ ئی
میر حسین
موبائل نمبر؛9797068660
[email protected]
منقبت
مدینے سے خود کو بمشکل تھا لایا حسینؓ نے
نانا سے اپنا عہد نبھایا حسینؓ نے
حُکم اپنے رب کا نبھایا حسینؓ نے
سجدے میں سر کو اپنے کٹایا حسینؓ نے
چلتے رہے اور جاء بھی کرتے رہے معلوم
کربل کے مقام پر خیمہ لگایا حسینؓ نے
زینب بہن سے ہوئی جو آخری گفتگو
اَنِ اللہ مع الصابرین بتایا حسینؓ نے
شدت کی تھی پیاس مگر پانی نہیں ملا
ہاتھ اپنا مگر پھر بھی نہ پھیلایا حسینؓ نے
وقتِ رخصت بھی تھا مگر کوئی نہیں تھا خوف
ذکر الٰہی زبان پر اور قرآن اُٹھایا حسینؓ نے
سحرؔ بدن پہ کھائے تیر اور پڑھتے رہے نماز
حضورؓ کے دین کو یوں بچایا حسینؓ نے
ثمینہ سحرؔمرزا
بڈھون، راجوری،موبائل نمبر؛7006396639
منقبت
ملتا ہے درس ہم کو صبر و وفا ، رضا کا
ہم نے سبق پڑھا ہے میدانِ کربلا کا
کرتا ہوا تلاوت دھڑ سے جدا ہوا سر
کوئی نہیں بدل بھی شبیر کی ادا کا
اسلام کو بچایا سب کچھ لُٹا کے جس نے
نورِ نظر علی کا ، وہ لال فاطمہ کا
پانی کیا لہو کو خود کو کِیا فنا بھی
سب بن گئے مسافر شُہدا رَہِ بقا کا
عباس نام آتا ہر اِک زبان پر ہے
جب بھی جہاں میں ہوتا ہے تذکرہ وفا کا
شمر و یزید پر ہو لعنت خدا کی ہر دم
ملعون ہیں وہ قاتل شبیر سے شہا کا
بوئے وفا ہو جس میں ، کردار ہو حسینی
ہر گز نہ ساتھ دے گا شاہد ؔؔکبھی جفا کا
علی شاہد ؔ دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج،
کوچ بہار ، مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8820239345