سرینگر//نیشنل کانفرنس کار گزار صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود 35 اے پر خطرہ برقرار ہے۔عمر نے کہا’’ راجناتھ سنگھ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ مرکزی سرکار ایسا کچھ نہیں کرے گی جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں، لیکن 35Aپر خطرہ تب تک برقرار رہے گا جب تک نہ مرکزی سرکار سپریم کورٹ میں اس معاملے کا دفاع کرنے کیلئے جوابی بیان حلفی جمع نہیں کراتی‘‘۔ڈاک بنگلہ بارہمولہ میںمیڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’35Aکا معاملہ تب حل ہوسکتا ہے جب اس قانون کو چیلنج کرنے کیلئے داخل کی گئی پٹیشن خارج کی جاتی ہے‘‘۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ اگر نیشنل کانفرنس نے 35Aکیخلاف ہورہی سازشوں پر آواز نہ اٹھائی ہوتی تو ریاستی حکومت اس بارے میں آج تک خواب غفلت میں ہی ہوتی ۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ہی 35Aسے متعلق جانکاری مہم چلائی اور ریاست کے کونے کونے میں رائے عامہ کو منظم کیا کیونکہ اس دفعہ سے ہی ریاست کی پہچان، انفرادیت، خصوصی پوزیشن اور آبادیاتی تناسب قائم و دائم ہے۔انہوں نے کہا جس ملک کا ہم حصہ ہیں اُس میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو ریاست کی خصوصی پوزیشن کو برداشت نہیں کرتے ۔ اُن کو لگتا ہے کہ جموں وکشمیر کا اپنا جھنڈا نہیں ہونا چاہئے ۔عمرنے کہا کہ اس وقت ریاست جموں وکشمیر کی پہچان اور انفرادیت پر 35Aکے خاتمے کی سازشوں کے ذریعے حملے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ35A کا دفاع ہمارے لئے عزت اور بقا کا سوال ہے۔ پی ڈی پی اور بھاجپا اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ذریعے اس دفعہ کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے اس لئے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے عدالت کا سہارا لیا گیا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جونہی نیشنل کانفرنس نے 1999میں اٹانومی قرارداد تیار کی اور اسے ریاستی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے منظور کروایا، اُسی وقت مرکز نے زر کثیر خرچ کرکے پی ڈی پی کی بنیاد رکھی تاکہ اٹانومی کے مطالبے کو سبوتاژ کیا جاسکے۔۔عمر نے کہا کہ 2002میں ہمارے 28ممبر اسمبلی تھے جبکہ پی ڈی پی کے صر ف16،ہمیں 28ممبر ہونے کے باوجود بھی سرکار سے باہر رکھا گیا جبکہ 16ممبران پر پی ڈی پی نے سرکار بنائی کیونکہ صرف یہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح نیشنل کانفرنس کو اُس وقت ختم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جو غلام محمد شاہ صاحب کے دور میں کیا گیا وہی 2002میں ہمارے ساتھ کیا گیا تھا ۔
ایجنڈا آف الائنس فراڈ
پی ڈی پی اور بھاجپا مخلوط اتحاد کے ’ایجنڈا آف الائنس ‘کو فراڈ قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے سراب ثابت ہوئے۔ نہ پاکستان کیساتھ دوستی ہوئی، نہ حریت کیساتھ بات ہوئی، نہ افسپا کی منسوخی ہوئی، نہ بجلی گھروں کی واپسی ہوئی، نہ بے روزگاری پر قابو پایا گیا اور نہ ہی دفعہ370پر جوں کی توں پوزیشن کے وعدے کا پاس و لحاظ رکھا گیا۔
گلی گلی میں پارٹیاں
انہوں نے شیخ محمد عبداللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اُس وقت کہا تھا، کہ دلی کی کوشش ہو گی کہ گلی گلی سے لیڈر پیدا ہو، تاکہ کشمیر ی قوم یک آواز میں بات کرنا بند کرے، اور یہاں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، ہمیں الگ الگ ترازو میں بانٹا جا رہا ہے، پہلے تو جموں کو کشمیر سے لڑوایا جاتا ہے پھر ہندو،مسلم ، سکھ عیسائی الگ، پھر لداخ اورکرگل کو۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ قوم ایک ساتھ نہ رہے اور اس کو کمزور کر کے وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہو نا چاہتے ہیں ۔عمر نے کہا کہ ریاست میں جو حالات بنے ہوئے ہیں اور جو خطرہ ہمیں نظر آرہا ہے اُس سے ہم بچ کر کیسے نکلیں، ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہئے ۔ اگر ہماری ریاست کا جھنڈا ہمارے سر کے اوپر سے ہٹ گیا ،ہمارا آئین ہم سے چھینا گیا ،ہماری پہچان ہم سے لی گئی تو ہمارا مکان کتنا بھی پختہ ہو ، ہمارے گھر میں کتنے ہی ملازم ہوں، ہمارے گھر کے باہر کتنی ہی گاڑیاں کھڑی ہوں ،ہمارے پاس کتنے ہی افسر سلام کرنے کیلئے ہوں لیکن ہماری بنیادی کمزروی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا ہے ۔