ابھی حال میں امت شاہ نے اپنی انتخابی تقریر میں پانی پت کا ذکر کرتے ہوئے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کی صلاح دی ۔انہوں نے کانگریس اور دیگر اتحادی پارٹیوں پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ شکست کھا گئے تو ملک ایک بار پھر غلام ہو جائے گا ۔ آزادی کی جنگ میں غلام ذہنیت کا ثبوت دینے والے پانی پت کے بہانے اب ہندو مسلم کارڈ کھیل رہے ہیں اور نفرت کے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں۔14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں خوف ناک لڑائی ہوئی ۔ روہیلہ سپاہیوں نے بہادری کی داستان رقم کی۔ ابدالی فوج کے سپاہیوں کا رعب مرہٹوں پر چھایا رہا ۔ان کے تمام جنگی فنون ناکام ہو گئے۔ فریقین میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد سپاہی مارے گئے جن مین زیادہ تعداد مرہٹوں کی تھی ۔اس جنگ میں مرہٹوں نے عبرت ناک شکست کھائی ، اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی جنگی میدان میں فتح حاصل نہ کرسکے۔اب اس جنگ کا حوالہ دے کر مذہب کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے ۔مودی حکومت اپنی ناکامیوں سے واقف ہے ۔ اس لئے ملک کے ہندوؤں کو متحد کرنے کے لئے آتشیں بیانات ، جھوٹ ، فریب ، عیاری اور مکاری کے ساتھ اقلیتوں کو کچلنے کا تمام اہتمام کیا جا رہاہے ۔ حکومت نے الوک ورما کو اس لئے برخواست کیا کہ رافیل سودے کی پول کھلنے کا خوف تھا ، الیکشن کمیشن ، آر بی آئی ، سی بی آئی اور تمام بڑے اداروں کو غلام بنانے والی ذہنیت اب ملک کی غلامی کی بات کر رہی ہے ۔پانچ برس میں ہندوستانی سیاست میں طوفان آ گیا ،مسلمان چوتھے درجے کے شہری ہو گئے ،اقتصادی سطح پر ہندوستان کنگال ہو گیا ،روزی روٹی کے لالے پڑ گئے ،نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریکی میں ڈوبا ہوا نظر آنے لگا ہے ،ملک کا جمہوری ستون ٹوٹ کر بکھر گیا ،سیکولرازم کے شیرازے بکھر گئے ، ہندوستان کا نقشہ اقلیتوں کے خون سے سرخ ہو گیا ہے ۔
اگر ہم ان تلخ حقیقتوںسے واقف ہیں تو ہمیں غور وفکرکرنا ہوگا کہ وہ مذہب کی شمشیر سے کھیل کی تیاری کر چکے ہیں ، ملک کو غلام بنانے کے لئے ۔بہار میں نتیش نے آر ایس ایس کی تعریف کی ،کرناٹک کی حکومت خطرے میں ، کنہیا کمار کے خلاف غداری کا چارج لگایا گیا ،٢٠١٩ کی فتح کے لئے مودی حکومت کی طرف سے ہر تیاری مکمل ہے ،ملک کے سیکولر کردار کو جاگنا اب ضروری ہو گیا ہے۔کیا ہم زندہ ہیں ؟ بجھی ہوئی ماچس کی تیلیاں ہیں ؟ جہاں ملک کی سیاست نے ذہنی طور پر ہمیں اپاہج بنا دیا ہے ؟ ہم اس نئے سیاسی نظام کو دیکھ رہے ہیں ، جہاں یا تو ہمارے لئے موت ہے یا پھر زندگی کے نام پر تھوڑی سی اُمید ۔ملک کے ایک بہت بڑے طبقے نے سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔یہ طبقہ جشن میں شامل ہوتا ہے ۔روبوٹ کی طرح مودی مودی کی آواز نکالتا ہے ۔پھر ہزاروں لاکھوں کا مجمع منتشر ہو جاتا ہے ۔ابھی حال میں جے این سٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید نے بھی بیان دیا کہ ہندو ہونے کے نام پر مسلمانوں کی مخالفت میں ذہن سازی کی گئی جو بہت حد تک کامیاب رہی ۔بی جے پی میں صرف مودی اور امت شاہ بچے ہیں ۔باقی جشن میں شامل بھکتوں کی آواز بن چکے ہیں ۔ان میں وزیر بھی ہیں ، آر ایس ایس کے لوگ بھی اور یہ اس بات سے واقف ہیں کہ مودی سے علیحدہ ہو کر ان کی حیثیت کسی مسخرے جیسی ہے ۔ ٢٠١٩ کے لئے جشن کا ماحول گہری اُداسی میں تبدیل ہو چکا ہے ۔دیگر سیاسی پارٹیاں اپنی شناخت کے لئے حیران و پریشان ، اور ہوتا یہ ہے کہ ایک قدآور مجسمے کی موجودگی میں ، باقی مجسمے پستہ قد نظر آتے ہیں ۔اس ملک کی جمہوریت تاریخ میں دفن مگر یہ سوچنا بھی لازمی ہو جاتا ہے کہ کیا یہ جمہوریت اس ملک میں کبھی تھی بھی یا نہیں ؟ اگر ہوتی تو ملک کا چوتھا موسم فرقہ وارانہ فسادات نہ ہوتے ۔انیس سو چوراسی نہ ہوتا ، چھ دسمبر نہ ہوتا ، بھاگلپور ، ملیانہ ، بھیونڈی اور ہاشم پورا کے دنگے نہ ہوتے ، گودھرا اور گجرات نہ ہوتا ۔کیا کبھی اس گمشدہ جمہوریت کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کی گئی ؟تاریخ کی کتابوں سے لے کر سیاسی چہروں میں ؟ عوام سے لے کر آتش زدہ بیانوں میں ؟ سرخ رنگ میں ؟ خوف میں ؟ اندیشے اور وسوسوں میں ؟ بھوک میں اور جبر میں ؟ دانش ور ، ادیب ، صحافی سب نے مان لیا کہ ایک فرضی مجسمہ ہندوستان کے نقشے پر آباد ہے ، جسے جمہوریت کہتے ہیں ،ستر برس میں ایک سیاسی پارٹی نے امبیڈکر کو اوٹ ڈیٹڈ سمجھ کر خارج کرنا شروع کیا ۔آئین ہند کی کتاب ان برسوں میں بوسیدہ ہو چکی تھی ،منو اسمرتی برہمن وادی نظام کے لئے ضروری اس لئے بھی تھی کہ اس کے بغیر بڑی سیاسی اتھل پتھل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔قد آور مجسمہ اس حقیقت سے واقف تھا کہ جو لوگ الیکشن کمشنر اور ای وی ایم کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے ، ان کو نظر انداز کر کے سب کچھ کیا جا سکتا ہے اور یہی آج کا سچ ہے کہ دو مجسمے تمام پارٹیوں اور ان کی فکر پر بھاری پڑ رہے ہیں ۔کیا کانگریس ، بسپا اور سپا الگ ہو کر بی جے پی کی فتح کو روک سکیں گے ؟ جواب ہے نہیں ۔کیا کانگریس اس خوش فہمی میں ہے کہ ایک بار پھر اس کا پرانا ووٹ بنک لوٹ آیا ہے ؟ یہ ایک مذاق ہے ۔سپا اور بسپا ابھی تک قد آور مجسمے کی طاقت کو سمجھ نہیں پائے ۔دلی میں کیجریوال مسلسل کانگریس کے خلاف بول رہے ہیں ،مسلم ووٹ منتشر ہوگا اور صورت حال وہی ہوگی جو ۲۰۱۴میں تھی ۔مشکل یہ ہے کہ ہم کچھ لوگوں پر ، کچھ طاقتوں پر ، کچھ پارٹیوں پر یقین کر لیتے ہیں اور ہماری جواب دہے ختم ہو جاتی ہے ۔
ہندتو ، رام جنم بھومی ، ہجومی تشدد ، ہلاکتیں ، انتشار ، بے نیازی ، سرد مہری ، زبان بندی ، خوف : سیاست کے اس کولاز میں ہماری زندگی گروی پڑی ہے ۔ہم کہاں ہیں ؟ لفظ کہاں ہیں ؟ ترک ناول نگار ارحان پامک کے الفاظ دستک دیتے ہیں :مصنف وہ شخص ہے جو صبر اور تحمل سے اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے،اس دنیا کو دیکھتا ہے ،جس کا وہ خالق ہے ،اپنے وجود اور الفاظ سے وہ ایک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے ۔ مشہور ناول نگار گنٹر گراس نے اپنے ناول د ٹن ڈرم میں دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں جرمنی کو دیکھا ، پستہ قد آسکر جو اپنی چیخ کے ساتھ شیشے کو توڑ سکتا ہے، اور اپنے معمولی ٹن ڈرام کو بجا کر پوری آرکسٹرا کی آواز کو خارج کر سکتا ہے۔آسکر غضب کا کردار ہے ،وہ کثیف روشنی کے ملبے میں پیدا ہوا ،اُسے ایک ڈرم ملا ،ڈرم کو بجایا ۔مشرق و مغرب کی سیر کی ،ڈرم کو قبر سے نکالا ،جیل گیا پھر آزاد ہو گیا ،میں اس چیخ کو محسوس کرتا رہا جو آسکر نے اپنے وجود میں پیوست کر لی تھی ۔یہ چیخ کہاں ہے ؟ فسطائی طاقت نے ہمیں ملبے میں دفن کر دیا ہے ،آسکر کی طرح ہمیں اس ملبے سے نکلنا ہوگا ۔گمشدہ آواز کو زندہ کرنا ہوگا ۔ ہندوستانی معاشرہ آج ایک مذاق بن چکا ہے ۔یہاں ایک یوگی ایک تانترک ایک ریاست کی باگ ڈور سنبھالتا ہے ،کمپیوٹر بابا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،لکڑی کی بنی کنجی سے سینٹرل جیل کا تالا کھل جاتا ہے ،آکسیجن کی کمی سے بچوں کو بچانے والا مسیحا ویلن بنا کر جیل میں بھیج دیا جاتا ہے ،آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عجیب و غریب بیان آتا ہے کہ دس سر رکھنے والے راؤن کے پاس پشپک طیارہ کے علاوہ بھی ٢٣ قسم کے طیارے تھے اور یہ کہ مہابھارت کے مشہور کردار پانڈووں کی پیدائش ٹیسٹ ٹیوب سے ہوئی تھی ،دادری میں فریج میں رکھا ہوا مٹن ، حکومت کے جادو سے بیف بن جاتا ہے مگر بنک نوٹ بندی میں خالی ہوجاتے ہیں ،یہاں جادو کا زور نہیں چلتا،۳۲سے زیادہ انڈسٹریلسٹ بنک سے اربوں کروڑوں کا غبن کر کے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں ، کویی پشپک ومان انہیں واپس ہندوستان نہیں لاتا ۔ یہ چند مثالیں ہیں ۔ایسی ہزاروں مثالیں صرف ان پانچ برسوں میں سامنے آئی ہیں جس نے ملک سے زیادہ ہندو قوم کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔کیا کسی تہذیب یافتہ ملک میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ انسان کی ہلاکت کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن گایوں کا تحفظ انسان سے زیادہ ضروری ہے ؟ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے تخت پر ایک ایسے مسخرے کو بٹھا دیا گیا ، جس کا ہر بیان ہندوستان ، ہندو مذہب اور ہندو قوم پر سیدھے چوٹ کر رہا ہے ۔
کیا ہندتو کا ہتھیار اس قدر موثر ہے کہ پانچ برسوں کی ناکامیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں ؟ میڈیا اور اندھے بھکت بے حس ہندوستان کی علامت ہیں ،یہاں میڈیا ہلاکت کی زمین تیار کرتاہے ، نفرت پھیلاتا ہے،اندھے بھکت آر ایس ایس کی شاکھاؤں سے پیسے لیتے ہیں ،ان میں سے کوئی ایک مسخرہ دن دہاڑے ایک مسلمان مزدور کو جنگل میں لے جاتا ہے ،بے رحمی سے قتل کرتا ہے ،لاش کو آگ لگاتا ہے پھر اس کا ویڈیو تیار کرتا ہے اور اندھے بھکتوں کے درمیان ہیرو بن جاتا ہے ۔امرتیہ سین ، نصیر الدین شاہ جیسی شخصیات بھی حیران ہیں کہ آخر اس ملک میں ہو کیا ہو رہا ہے ۔ ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سموسے اور پکوڑے بیچنے کی صلاح حکومت کی طرف سے بار بار دی جاتی ہے ،تعلیم کے بجٹ کو کم کیا جاتا ہے ،اسکول کالج سائنس اور ٹکنالوجی کو فروغ دینے کی جگہ تین ہزار کروڑ کی لاگت سے سردار پٹیل کی مورتی تیار کی جاتی ہے ،گایوں کے تحفظ کے لئے سرکاری محکمہ قائم کیا جاتا ہے اور سڑک پر دن دہاڑے اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہلاک کیا جاتا ہے ،ایسا ملک جہاں میڈیا بھی حکومت کے ہر کاروبار کو فروغ دے رہا ہے ،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے دلیلیں پیش کر رہا ہے ،ایک تہذیب یافتہ دور میں ، ایک زعفرانی پارٹی ملک کو رام جنم بھومی اور گایوں کا واسطہ دے کر مہابھارت اور رامائن کے دور میں لے جانے کی تیاری کر رہی ہے ،کمبھ میلہ ، گایوں کے تحفظ اور پٹیل کی مورتی پر ہزاروں کروڑ خرچ کرنے والی حکومت نے ہندوستان کے مستقبل کو نفرت کے سلگتے شعلوں میں جھونک دیا ہے ۔ملک اب ڈیجیٹل عہد میں نہیں ، رامائن عہد میں پیچھے کی طرف جا رہا ہے ۔اس پرالبئر کامو کے ناول’’ دی پلیگ ‘‘کی یاد آتی ہے ۔۔۔شہر میں ہر طرف چوہے مر رہے ہیں ،لیگ پھیل گیا ہے ،جب پلیگ کا خاتمہ ہوتا ہے تو ہزاروں جانیں جا چکی ہوتی ہیں ،اس موقع پر ڈاکٹر ریو کہتا ہے ، اس کے باوجود نئی زندگی کا سورج طلو ع نہیں ہوگا ،پلیگ پھر آے گا ،جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔انسان مر رہے ہیں ،ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی جا رہی ہے ،ستر برسوں میں مذہبی تعصب پلیگ کی طرح پھیلتا چلا گیا ، دنگے ہوئے ،فسادات ہوئے ،جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں ،حکومت اب یہی کر رہی ہے ۔ سنسر شپ ، پابندیاں ،انسان کی طاقت کو کم کر دو ، حکومت کا یہ بھی موثر طریقہ رہا ہے ۔ اب یہ طریقہ ہم پر آزمایا جا رہا ہے ،یہ سب ہو رہا ہے لیکن ہم کہاں ہیں ؟ پانی پت کا کھیل کھیلا جا چکا ہے ، رام جنم بھومی کا فیصلہ آنا باقی ہے .،پریاگ کا پانی بھگوا ہو چکا ہے ،منو اسمرتی اب آئین ہے ، قانون ان کی مٹھی میں ۔ہم اداس موسم کے درمیان اپنی اپنی قبروں میں ہیں ۔پنجابی شاعر اوتار سنگھ پاشؔ کی ایک نظم تھی :
سب سے خطرناک ہوتا ہے ، ہمارے سپنوں کا مر جانا
سب سے خطرناک ہوتا ہے مردہ شانتی کا بھر جانا
تڑپ نہ ہونا ، سب کچھ سہہ لینا
گھر سے نکلنا کام پر اور کام سے لوٹ کر گھر جانا
سب سے خطرناک وہ گھڑی ہوتی ہے
جو آپ کی کلائی پر چلتے ہوئے بھی رُکی ہوتی ہے
سب سے خطرناک وہ آنکھ ہوتی ہے
جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی برف میں جمی ہوتی ہے
سب سے خطرناک وہ رات ہوتی ہے
جو زندہ روح کے آسمانوں میں ڈھل جاتی ہے
اوتار سنگھ پاش ؔکم سنی میں دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے لیکن پاش ؔکی چیخ اب بھی کانوں میں صدا دیتی ہے … سب سے خطرناک ہوتا ہے ، ہمارے سپنوں کا مر جانا ۔۔۔سپنوں کی موت کے ساتھ لفظ بھی مردہ ہو جاتے ہیں۔