ایک بزرگ اپنا بیگ ریل گاڑی کے ڈبے میں گھسیٹ رہا تھا لیکن زرا بھاری ہونے کی وجہ سے پریشانی ہو رہی تھی۔ اسی کی عمر کا ایک اور شخص اسی ڈبے میں چڑھ رہا تھا۔ اس نے بیگ کی ایک تنی پکڑ لی اوردونوں نے مل کر بیگ کو دو سیٹوں کے درمیان رکھ دیا اور خود ان پر بیٹھ گئے۔ گاڑی میں بھیڑ بڑھ رہی تھی، اس لئے دونوں نے سیٹ مل جانے کے اطمینان کا احساس کیا۔ بیگ کھینچنے سے ہوئی تھکاوٹ کو محسوس کرتے ہوئے ایک نے دوسرے سے کہا، ’’میرے بھائی اب عمریں نہیں رہ گئیں سفر کرنے کی‘‘
’’درُست کہہ رہے ہو‘‘ دوسرے نے جواب دیا اور آگے کہا،’’لیکن عمروں کے ساتھ یہ دُکھ اور مصیبتوں کا بوجھ ہوتا ہے جو بندے کو بوڑھا کردیتا ہیں‘‘۔
پہلے نے متفق ہو کر پوچھا، ’’ایسا کیا ہو گیا ہے میرے بھائی؟ کیا گھر میں سب خیریت ہے؟‘‘
’’ خیریت کا کیا جواب دوں۔ میرا بیٹا مرکزی ریزرو پولیس میں تھا۔ یہ جو دو سال پہلے ہی کل پُرے میں جھڑپ ہوئی تھی، اس میں شہید ہو گیا تھا‘‘
’’ او ـ۔ ۔ ۔ ۔ہو‘‘ دوسرے نے دُکھ کی گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ’’ میرا بیٹا بھی اسی جھڑپ میں مارا گیا تھا‘‘۔ پھر تھوڑا رک کر بولا ’’ ہاں شہید ہو گیا تھا۔‘‘
دوسرے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گہری سانس لی اور پوچھا، ’’ آپ کا بیٹا کس کمپنی میں تھا؟‘‘
’’میرا بیٹا حفاظتی دستوں میں نہیں تھا۔ وہ تو اسی جھڑپ میں ایک جنگجو تھا‘‘۔
یہ سُن کر دونوں ہم سفر کچھ دیر تک بالکل خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ انکو کچھ عجیب سے اور گہرے خیالات گھیرتے جا رہے تھے۔ وہ گاڑی کے باہر جنگل اور کھیتوں کی طرف دیکھنے لگے اور پتا نہیں کیا کیا سوچتے جا رہے تھے۔ آخر ایک بندے نے ہمت جٹا کر بات جاری رکھنے کی غرض سے پوچھا، ’’کتنی عمر تھی آپ کے بیٹے کی؟‘‘
’’26 سال‘‘
’’ اچھا، اور میرا بیٹا 28 سال کا تھا‘‘
’’ کیا اس کے کوئی اولاد بھی ہے؟‘‘ دونوں کو آپس میں باتیں کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
’’ ہاں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے‘‘۔
’’ خوش رہیں، میرے بیٹے کی بھی ایک بچی ہے ،قریب 6 سال کی۔اس بیچاری کو کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو گیا ہے اور مجھ سے اب اس کے ساتھ پہلے کی طرح باتیں ہی نہیں ہو سکتا اور اس کی ماں کے تو میں سامنے ہی نہیں آتا۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس کا گناہ گار میں ہوں‘‘۔ اتنا بولتے اس کا گلابھاری ہو گیا جو اس کے ساتھی نے محسوس کر لیا۔آگے بڑھ کر اس کا کندھا دبایا اور بولا، ’’ دل چھوٹا کرنے سے گزارا نہیں ہوگا، میرے بھائی، گناہ کسی کا نہیں، سب قسمت کا کھیل ہے، اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی‘‘۔صاف دکھائی دے رہا تھا کہ حوصلہ افزائی کرنے والے کے پاس بھی حوصلہ نہیں تھا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایک بولا،’’ کہتے ہیں کہ وقت دکھوں کا دارو ہوتا ہے، لیکن میری گھر والی کا رونا تو ابھی تک ختم نہیں ہوا‘‘۔
’’میرے بھائی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں، یہ رونے ختم نہیں ہوتے۔‘‘
اتنے میں گاڑی آہستہ ہونا شروع ہو گئی، سٹیشن آ رہا تھا۔ ایک نے کہا میں تو بھائی یہاں اُتروںگا، آپ نے کہاں جانا ہے؟‘‘
’’میں بڑے سٹیشن پر جاوںگا اور وہاں سے بس پکڑنی ہوگی‘‘۔
’’آج یہاں رُک جائو میرے غریب خانے، صبح چلے جانا‘‘
’’ شکریہ بھائی، لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ باہر نہیں رکا جا سکتا‘‘
’’درست کہہ رہے ہیں‘‘ ، ایسا کہتے ہوئے دوسرے نے بیگ کو باہر گھسیٹا کیوں کہ سٹیشن آ گیا تھا۔ دوسرے بندے نے اپنی سیٹ پر تھیلا رکھا اور بیگ کی ایک تنی پکڑ کر باہر کی طرف چل پڑا۔
ابھی وہ کچھ بولنے ہی لگے تھے کہ ریل گاڑی کی سیٹی بجی۔ آنکھوں میںتھوڑی نمی کے ساتھ بنا کچھ بولے وہ دو ہم عمرہم سفر، غم زدہ، ہم نصیب اور ابھی ابھی ایک دوسرے کے ہمدر بنے ایک دوسرے سے رخصت ہوگئے۔
رابطہ،چنڈی گڑھ 098783 75903