ڈاکٹر فلک فیروز
ابلیس کے انکارہ سجدہ کی دو وجوہات ملتی ہیں ایک تکبر دوم حضرت آدم کی تخلیق سے حسد، جس کا بیان قران پاک میں آیا ہے۔ تکبر اور حسد کرنا ان افراد میں موجود ہے جو اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہے اور یقینی ہے کہ جو شخص خدا کی تقسیم،ان کے فیصلوں،ان کے حکموں پر راضی نہیں ہوگا گویا وہ اپنے نصیب پر ناشکرا ہے اور ظاہر ہے کہ جن کے اندر ناشکراپن پایا جاتا ہے، وہ ہمیشہ منفی خیالات کو ہی اپنے سینوں کے اندر پالتے ہیں اور اس طرح مایوسی،پریشانی،نحوست،ہاے رے میری قسمت ان کا وطیرہ خاص اور تکیہ کلام بن جاتا ہے۔ البرٹ انسٹائن کا ان افراد سے دوری اختیارکرنے کا مشورہ فایدہ مند ہے ثابت ہو سکتا ہے، وہ لکھتے ہیں۔
”Stay away from nagative people they have a problem for every solution ”
جذباتی ذہانت کے تجربات،علوم ،مسایل پر تحقیق کرنے والے مشہور سائنسداں ڈینایل گولمین ہمیںمثبت روّیے کی عینک سے لوگوں،حالات واقعات اور مسایل کو دیکھنے نیز پرکھنے کا مشورہ صادر کرتے ہیں کہ مثبت نظریے سے لوگوں کے اندر اچھائی یا خیر و بہتری تلاش کرنا اصل میں تلاشنے والے فرد کی اہلیت،قابلیت اور لیاقت کی قوی دلیل پیش کرتا ہے، حالانکہ ایک انسان کے لیے یہ بہت مشکل عمل ہے کہ وہ ہر وقت مثبت رہے،خوش رہے،خیر کرے،بہتری کرے،اچھے خیالات پیدا کرے،بہتر تخیل روا رکھے مگر ممکنات میں بھی شامل ہے ناممکن عمل نہیں ہے لیکن ضرورت حوصلہ مندی کی ہے۔
‘A positive outlook is the ability to see the positive in people in situation and even faced with challenges ” (Daniel Goleman)
مثبت رہنے کی تلقین متعدد آسمانی ہدایات میں کی گی ہے۔جس میں خاص طور سے قران مجید میں اللہ نے بار بار اپنے بندوںبا لخصوص ممنوں سے براہ ِراست خطاب ہے کہ اُمید پر قایم رہو کیونکہ نا امیدی کفر ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جب کفار نے مخالفت کے تیر برساے،وحی نہ آنے کی صورت میں طعنے کسے گئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوف زدہ ہوگئے،پریشانی،غم کی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر طاری ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے وحی کی صورت میں سورہ ضحء نازل فرمائی، جس میں پُر امید رہنے کا حکم دیا گیا ،صبر قایم رکھنے کی ہدایات نازل کی گئی نیز االلہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور بھروسہ رکھنے کا سبق دیا گیا۔ اسی طرح سے اللہ قرآن پاک میں اپنے بندوں،ممنوں کو بار بار صبر سے کام لینے کی ترغیب دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی گی ہے کہ آدم فطرتاً کمزور اور جلد باز ہے۔کام میں جلدی کرتا ہے اور اللہ کی جانب سے آزمایش یا امتحان وارد ہونے کی صورت میں شکوے شکایتیں کرتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اس پر کرم کرتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لانے میں بخیلی کرتا ہے ۔نفسیاتی علوم اور جذباتی ذہانت پر کام کرنے والے محققین کی تحقیق کا ماننا ہے کہ تمام تر اچھے اور خراب حالات کا درومدار ایک انسان کے سوچنے کے عمل، ردعمل، جذباتی ذہانت،خیالات،باطنی قوت ِمدافعت پر مبنی ہے یعنی اگر انسان بہتر خیالات کو ہی اپنے من میں جگہ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسکے اندر اچھی توانائی پیدا ہوگی، نتیجہ کے طور پر وہ اچھے حالات کے حصار کا ہی قیدی بنے گا لیکن اگر اس میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے تو حالات کا منفی رخ اختیار کرنا لازمی ہے۔
رویہ سے مراد ایک آدمی کا اسلوب، سوچ کے دائرہ کار،زندگی گزارنے کا طریقہ کار جس کو انگریزی زبان میں Attitude کہا جاتا ہے جس کی لغوی معنوں میں یوں تعریف بیان کی جاتی ہے۔’
‘A settled way of thinking or Feeling about something”.
جس کی مزید وضاحت عام لفظوں میں یہ کرکے کی جاسکتی ہے کہ رویہ ہر اس عمل کو کہا جانا چاہے،یا کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ایک انسان اپنی کلہم شخصیت کے تئیں روا رکھتاہے، جس سے اسکی انفرادی پہچان،شناخت قائم ہو جاتی ہے،بالخصوص ذہنی سطح پر۔رویہ کی تعریف کرتے ہوے وینسٹن چرچل لکھتے ہیں۔
”Attitude is a little thing that makes a big Difference ”گویا رویہ محض ایک معمولی چیز ہے مگر اس میں غیر معمولی فرق بنانے کا فن موجود ہے جس کو ہم بہ آسانی سمجھنے سے قاصر ہے، اس فرق رکھنے کے جو طریقے رائج ہیں وہیں ایک انسان کو دوسرے انسانوں سے منفرد بناتے ہیں ،جس کا راست تعلق انسان کے ماحول،اس کی تربیت اور تعلیم پر ہوتا ہے۔ایک صحت مند معاشرہ ہمیشہ مثبت سوچوں کا متقاضی رہتا ہے جس میں مثبت خیالات،سوچ،افکار،نظریات،رویے رکھنے والے افراد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس سے کام کے متعلق مشورہ،جانکاری لی جاتی ہے اور لی بھی جانی چاہئے۔ آسمانی ہدایات کی تمام کتابوںمیں لوگوںکو جو تلقین کی گی ہے اس میں مثبت رویے اپنانے کی تلقین،اللہ سے امیدیں وابستہ رکھنا،شکر ادا کرنا،مصیبت پر صبر رکھنا،خیر پھیلانا،نیک گمان رکھنا،جذبۂ رحمدلی،جذبہ سخاوت،ہمدردی،ایک دوسرے کی خیر خواہی،نیک سوچوں کو بڑھاوا دینا،ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی،شیطان کے شر سے دور رہنا،دوسروں کے دلوں میں وسوسہ،خدشہ خوف ڈالنے سے پرہیز کرنا،حسد کرنے سےاجتناب برتنا،حسدکرنے والوں کے شر سے ربّ کی پناہ میں آنا،اچھائی کو پھیلانا، بُرائی کو روکنا وغیرہ شامل ہیں۔ جس کا سبق خود ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح سکھایا ہے۔’’ کہہ دو میں لوگوں کے رب کی پناہ میں آیا،اس شیطان کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے،جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، جنوں اور انسانوں میں ہے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔‘‘( القرآن)
آج کل کے تیز رفتار دور اور مابعد سچائی دور میں انسان بے چینی کا شکار ہے،بدامنی اس کے اندر بھی ہے اور باہر بھی ،نفسی کشاکش کا عالم یہ ہے کہ انسان نہ زندہ ہے نہ مردہ، صرف اپنا بوجھ کاندھوں پر ڈوھ رہا ہے کیونکہ وہ ضمیر مردہ ہے جس کو احساس ہوتا تھا ،ذہنی تناؤ بہت حد تک بڑھ چکاہے،لوگوںکی زیادہ تعدادذہنی تناؤیاڈپرشن کی شکارہے،دیکھادیکھی کاماحول ہرسونظرآتا ہے،حسد،کینہ،بغض،غیبت،بہتان جیسی نفسیاتی بیماری کا چلن گھر گھر،دفتردفتر،گلی گلی، بازار کی ہر نکڑ،مسافر گاڑیوں میں، ہسپتالوں کے وارڈوں میں،سرکاری ایوانوں میں،تعزیت کی مجلسوں میں،مسجدوں میں یہاں تک کہ خدا کے حضور پیش کئے جانے والے سجدوں میں، بقول احمد فراز ؎
میرا بسیرا اس شہر عداوت میں ہے جہاں لوگ سجدوں میں لوگوں کا برا سوچتے ہیں
ہورہا ہے۔اس صورت حال سے کنارہ کشی ہر فرد کی دنیاوی اور عقبی زندگی کے لیے ضروری ہے اگر ایسا نہ ہوا تو اس دنیا میں انسان پریشان رہے گا اور آخرت میں خدا کے عتاب کا شکار اللہ خیر کرے۔اس حوالے سے دنیا کے مختلف موٹیویشنل مقررین،نفسیاتی معالجین اور ان امور پر کام کرنے والے دیگر محققین نے جو مشورے،تحقیقی شواہد پیش کئے ہیں ان کا لب لباب یہی حاصل ہوتا ہے کہ ہر فرد بشر کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہے، اپنے رویوں کو بہتر بنانا ہے،اپنی ذات کے تئیں باخبر ہونا ہے،اپنے وجود کو پانا ہے،باہر سے زیادہ اندر کے شخص کو پرکھنا،جاننا،پہچاننا ہے ،دوسروں کے بارے میں سوچنے،کسی کی غیبت یا بہتان،اپنی ناکامی کا قصور دوسروں یعنی اپنے دشمنوں،دوستوں و احباب پر تھوپنے کے بجاے خود کی ذات پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دینا ہے،خود کی ذات میں پوشیدہ کامیابی کی صلاحیتوں کو کھنگالنا ہے،ناکامی کی وجوہات پر غور کرنا ہے، ان کمیوں کو دور کرنے پر قوت صرف کرنی ہے ،اپنی زندگی کے تاریخی حالات،مستقبل کے خدشات کے بجاے حال پر زیادہ توجہ مبذول کرنی ہے،موجودہ وقت میں کامیابی کے لمحات کی تلاش کرنا، عہد حاضر میں کوشش کرنا،جدوجہد کرنا،ہر اس چیز پر شکر ادا کرنا جس سے آپکی زندگی میں آسایش پیدا ہوئی ہیں ،ہر اس شخص کا دل سے شکریہ ادا کرنا جس نے آپ کو خیر کا راستہ دیا بلکہ اسکی کامیابی،صحت وسلامتی کے لیے دعائیں کرنا ،جس نے مشکلات میں آپ کا ساتھ دیا،جس نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا،جس نے طاقت رکھنے کے باوجود بھی آپکی غلطیاں معاف کردیں،جس نے آپ کو ہمت عطا کی،جس نے آپ کو زندگی کا اچھا،بُرا سبق سکھایا،جس نے آپ کو آپکی پہچان سے واقف کرایا ،جس نے آپ کو خیر کرنا سکھایا،لیکن ساتھ ہی ان لوگوں کوبھی معاف کردیجے جنھوں نے آپ کو تکلیف دی،جنھوں نے آپکی زندگی میں خیر کا راستہ بند کیا،جنھوں نے آپ کے ساتھ بُرائی کی،جنھوں نے آپ کا حق مارا،جنھوں نے آپ سے بد سلوکی کی بلکہ ان کے لئے نیک دعا کیجے اللہ سے، تاکہ آپ کا دل پُر سکون رہے، جس کی ہدایات ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعے دی، اس تعلق سے شاعر نے کیا خوب بدلہ لینے کا آسان طریقہ بتایا ہے، آپ بھی سنیے ۔
میرے خدا انھیں فردوس میں جگہ دینا جو مرگئے میرا جینا حرام کرتے ہوئے
رابطہ۔ 8825001337