ما ہ صیام کا آخری عشرہ چل رہا ہے، رحمت مرحمت و انوار کی گھٹائیں رِم جھم برس رہی ہیں، یوں سمجھئے کہ ایک لمحہ گذرنے کے بعد دوسری ساعت مزید غنیمت بنتی جارہی ہے۔خوشا وہ اقبال مندانِ ازلی جنہوں نے رمضان کے پیام کو ایمانی شعور کے ساتھ سمجھ کر تہذیب واخلاق اور تطہیر نفس کی صبر آزما مشق میں کامرانی حاصل کرلی اور رب جلیل کا بندۂ مطلوبہ بننے کے تعلق سے اپنی بساط بھر کاوشیں کیں۔یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نظام عبادات و ریاضات کو قمری مہینوں سے متعلق کردیا ہے اور مقصد صرف ہرموسم میںہماری استقامت کو جانچنا ، صبر کو پرکھنا اور جذبہ اطاعت و فرماں برداری کا امتحان لینا ہے ۔قمری مہینے تو سال بھر محو گردش رہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ موسم ِصوم کبھی شدت کی گرمی میں تشریف آور ہوتا ہے اور کبھی کڑاکے کی سردی اور یخ بستہ ہوائوں کے بیچ، کبھی اس کا ورود خزاں میں ہوتا ہے تو کبھی بہار کے فرحت انگیز ایام میں ۔ کیاقمری مہینوں کی مختلف موسموں میں یہ آمد صیام ہمیں بین السطوریہ پیام نہیں دیتی کہ ہماری زندگی کاپل پل بھی اسی طر ح غم و مسرت یعنی خزاں وبہار سے عبارت ہے۔ مومن کا یہ شیوہ ٔ ازلی ہے کہ وہ ہر حال ہر فضا میں صابر و شاکر رہ کر بس مولا کے احکام کی تعمیل میں ہمہ تن عمل بنا رہتا ہے، خوشی ملے تو شکر و امتنان کا پیکر ، دُکھ اس کی دہلیز پہ ڈیرا جمائے تو صبر وبرداشت کا دامن اُس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا ۔کتنا درست اور واضح پیغام ہے قمری مہینوں کے تین عشروں میں :پہلا وہ جس میں چاند نکل کر تدریج کے ساتھ منور ہوتا تو ہے لیکن اس کی روشنی دنیا کی ساری تاریکی کو اُجالے میں بدل نہیں پاتی ،دوسرا عشرہ تو یکسر مختلف ہوتا ہے ،یہ وہ عرصہ ہوتا ہے جب چاند پورے شباب پر ہوتا ہے اور اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ ساری دنیا کو روشن اور منور کردیتا ہے اور تیسرا وہ عرصہ جب تدریجی طور شباب پر آنے والا یہ سیارہ تدریج کے ساتھ ہی اپنا جمال، ا پنی تابانیاں ،اپنی تا بندگیاں اور اپنا سا ری رعنائی کھو دیتا ہے ۔ اس مرحلہ میں اس کا ہر پل اور ہر لمحہ زوال کی جانب روں دواں ہوتا ہے ۔۲۹ ؍ویں تاریخ تک وہ افق میں اپنی شناخت ہی کھو دیتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اُس کا وجود تھا ہی نہیں۔غور فرمایئے کیا انسان کی حیاتِ مستعار کا بھی بالکل یہی حال احوال نہیں؟اس عمل پر قیاس فرمایئے کہ اس بندۂ خاکی کی زندگی کو اگر ان ہی تین عشروں میں تقسیم کیا جائے تو یہ تقسیم کتنی درست ثابت ہو گی کہ اس کا پہلا عشرہ پیدائش، پھر رضاعت اور پھر پنگوڑے اور بچپن کی بھول بھلیوں سے عبارت ہوتا ہے ۔دوسرا عشرہ آتا ہے تو یہ اولادِآدم قوت و طاقت کا مجسمہ بن جاتا ہے ،شباب سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے ،دست و بازو پر انحصار بڑھ جاتا ہے ،خاکی بدن کو سنوارنے سنبھالنے سجانے میں شب و روز صرف ہوجاتے ہیں ۔عقل و فہم و دانائی میں اضافہ در اضافہ ہوتا ہے اور پھر تیسرے عشرہ کا آغاز کیا ہوتا ہے کہ ان ساری قوتوں، اعضا ء و جوارح میں اضحملال شروع ہوجاتا ہے ۔اب زندگی کی سمت ڈھلوان کی جانب ہوتی ہے ،بینائی کمزور ہونے لگ جاتی ہے ،سننے کی قوت بھی کم ہوتی جاتی ہے ،اُٹھنے بیٹھنے کے لئے سہاروں کا سہارا لینے کی ضرورت کا آغاز ہوتا ہے ،گھٹنوں کی طاقت جواب دینے لگتی ہے ،ہاضمہ درست ڈگر پر نہیں رہتا ،بلند فشار خون کے اوپر نیچے آنے سے زندگی کے حوالے سے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ اس سلبی عمل میں یوں اضافہ ہوتا ہے کہ ہر قدم قبر کی جانب جاتا ہوا دِکھتا ہے ،یہاں تک کہ ایک دن لواحقین ہمارے اس پیکر خاکی کو آسودہ ٔ خاک بنا کر خود اسی گورستان میں آنے کے دن گننے لگتے ہیں۔ کیا ا نسانی زندگی کے یہ تین مراحل قمر ی مہینے کے کامل عکاس و ترجمان نہیں لگتے؟ با لکل مگرشرط بس اتنی ہے کہ انسان غفلت و مدہوشی کے خول سے چند لمحات کے لئے ہی باہر آئے، پھر اس بارے میں خو ب سوچ لے تو زندگی بدلنے اور خالق کے احکام کا مطیع بننے میں اسے دیر نہیں لگے گی ۔
آج اس قمری مہینے کے سفر کا پڑاؤ ماہ صیام ہے جو اب بھی رحمتوں کی سوغات لئے جلوہ گر ہے اور اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے ۔ ہمیں یہ پورا موقع فراہم ہورہا ہے کہ اماوس کی شب آنے سے پہلے جو کچھ ہم سے چھن گیاہے ،ہم اُسے واپس حاصل کریں ۔ ہم سے بچپن ،لڑکپن ،جوانی اور عالم پیری میں ہم سے جو عیاں و پوشیدہ خطائیں سرزد ہوئی ہیں تو بہ کر نے سے نامہ سیاہ کو دھو سکتے ہیں اور اس کی یقینی قبولیت کے لئے صرف ایک شیٔ درکار ہے : وہ ہے اخلاص۔اخلاص سے عبارت کوئی بھی عبادت قلیل ضرور ہو مگر دائمی ہو توبارگاہِ صمدیت میں شرفِ قبولیت حاصل کرکے ہی رہ جاتی ہے ۔یوں کہئے کہ اس نوعِ توبہ کو توبتہ النصوح کہا جاتا ہے کہ شعور کی پوری بیداری کے ساتھ بندگان خدا گزشتہ سیٔات سے تائب ہوں اور آئندہ ایمان و بندگی کے جملہ تقاضوں کے ادائیگی کے ساتھ اپنی زندگی کو خالق کے بیا ن کر دہ سانچے میں ڈھالنے کے بھر پور کوشش ہو ۔ قمری سال کا رمضان ۔۔۔ یہ عرصۂ تربیت۔۔۔ آتا ہی اسی لئے ہے کہ روزوں کے حدود و قیود میں رہ کر صائم پھر سارے سال ایک پابند اور منضبط ایمانی زندگی گزارنے کا اہل ہوسکے ۔’’صوم‘‘ یعنی رُک جانے کے رمضانی سبق سے مستفید ہوکر ہر اُس کام سے احتراز کرے جو اُس کے اُخروی گھاٹے کا موجب بنے ،روزہ رسمی نہ ہو بلکہ روزہ داری کی روح کے درس سے آشنائی اصل مقصود ہے۔زبان ،دِل ،نگاہ ، خیال۔۔۔غرض سب پر اللہ کی حکمرانی کی چھاپ عیاں طور دکھائی دے ۔غور فرمایئے کہ ان ساعات سعیدکے مخصوص عرصہ میں مباح یعنی جائز کاموں یعنی کھانے ،پینے اور دیگر کچھ مبا ح کاموں سے روکا جارہا ہے جب کہ یہ ایک پیکر خاکی بنیادی ضرورتیں ہیں،اور حرام امور تو حرام ہیں ہی، ان سے اجتناب کس قدر لازمی ہوگا؟؟؟ زبان کے فتنوں ،یعنی جھوٹ ،غیبت ،لڑائی جھگڑے سے اگر وہ نہیں رُکتا تو روحِ روزہ مسل کے رہ جاتی ہے۔ایک دلچسپ اور چبھتی ہوئی حقیقت یہ ہے کہ ہم اور آپ مباح یعنی جائز امور سے پرہیز تو کرنے کو کریں لیکن حرام امور کا ارتکاب جاری رہے تو ہم کف افسوس ملیں کہ ہم پیام صیام کو سمجھ ہی نہیں پا ئے !ہماری معاشرتی خانگی اور عائلی زندگی پر رمضان کی کامل چھاپ صاف طور پر نہ دِکھے تو پھر برزبان تسبیح و در دل گائو خر والا مقولہ تو صادق آئے گا ہی۔ماہ رحمت و غفران عرصۂ محاسبہ بھی ہے اور اعمال سیأت سے کامل طور تائب ہونے کا بھی قرینہ بھی۔ انسان معصوم عن الخطاء تو بہتیری عبادات کے بعد بھی فرشتہ نہیں بن سکتا لیکن دانستہ خطائوں اور گناہوں کا مرتکب ہو،انسانیت کا گلا کاٹے ،انصاف کو بیچ چوراہے پر قتل کرے ،اخلاق کی دھجیاں بکھیرتا پھرے ،بندوں کے حقوق کو تلف کرنے کے عمل کو اپنی ہوشیاری سے تعبیر کرے،والدین کو رُلاتا اور دوستوں کو نوازتا رہے ،حق کو جانتے بوجھتے نظر انداز کرکے باطل و طاغوت کا کا سیہ لیس بنے ،حقیر مفادات کے حصول کے لئے اپنے ذہن و ضمیر کو بیچنے سے احتراز نہ کرے ،تجوریاں بھر نے اوراقتدارکا نشہ دوچند کر نے کے لئے شراب کی حلت کا برسر بازار فتویٰ دینے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھے ، شکم پری کے لئے کتنے انسانی شکموں پر لات مارنے یا انہیں ملاوٹ زدہ اشیاء ، نقلی دوائیاں کھلاکر مو ت سے ہم کنار کرنے کا سامان کر نے اور ہمچو قسم کی دیگر برائیوں کا مرتکب ہونے کے ساتھ رمضان کے لمحات میں صرف خوردونوش سے اجتناب کرکے یا مجالس ِوعظ ، حسن قرأت یا حسن ِ نعت میں شریک ہوکر ہونے سے ،یا خیر کے چند کاموں میں کچھ روپیہ دینے سے بزعم خویش یہ سمجھ بیٹھے کہ جنت جاگیر بن گئی ،تو اسے دیوانے کے خواب سے کچھ زیادہ نہیں کہا جاسکتا ۔اسلام تو کامل طور بندگی کے دائرے میں آنے کا نام ہے اور اس کے عملی اظہار اور بہتر تربیت کے لئے ہی سال بسال رمضان کا ورودِ مسعود ہوتا ہے ۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ انسان متذکر ہ برائیوں کا مرتکب ہی نہ ہوا ہو بلکہ اگر اس سے بھی بھاری خطائیں اُس سے سرزد ہوئی ہوں، تورمضان اُسے ناامیدی کے دلدل سے نکال کر شبستان امید کی بہاروں میں لے آتا ہے بشرطیکہ اخلاص وخداخوفی سے اس کا وجود لبریز ہوکر توبہ واستغفارکا عملی نمونہ بن جائے اور ایک دن یا ایک ماہ نہیں بلکہ ساری زندگی اب دُرست سمت اور صحیح پٹری پر چلنے کا خلوص بھرا عہد وپیمان اللہ علیم وخبیر سے کیاہو تو عفو و درگذر مقدر بن جائے گا اور رمضانی رحمتیں واقعی ملکیت بن جائیں گی کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ، ایک عملی حقیقت بن جائے۔یہ بات پھر وہیں آکر ُرک گئی کہ آئندہ کو چۂ سیأت میں دانستہ طور نہ جانے کا صدقدلانہ عہد ہو ،اسے ہی توبہ کہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ توبہ کے کلمات زبان پر عاجزی و آہ وزاری کے سا تھ جاری تو ہوں لیکن دل ہنوز دنیا پر ستی اور ضمیر نفس کی غلامی سے زنگ آلودہ ہو۔ زندگی بدلنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ،تو صیام کا سحر وافطار بس خانہ پری ہے اورکچھ بھی نہیں ۔ماہ رمضان میں مسلمان کو اطاعت کا خوگر بنانے کے لئے تو مولا کریم نے مومنین و مسلمین کے پاس ان کے خارجی دشمن شیطان کی آمد کو روک تو دیا ہے لیکن دوسرا حریف و رقیب یعنی نفس اس مادی تن و توش کے اندر ہی گذر بسر کررہا ہے ۔روزہ کے عرصۂ تربیت کے دوران اس کے مچلنے اُچھلنے کی قوت کو توڑا جاسکتا ہے ۔یہ اندرونی دشمن ہی اصل میں نوع بشر کو سیأت اور گناہوں پر آمادہ کردیتا ہے ، جھوٹ کی آلودگیوں میں ڈبو دیتاہے ، شہوانی جذبات کو اُبھارنا اور بھوک و پیاس کی شدت سے خوف زدہ کرانا بھی اس حریف ِبے زنجیر کی خاص کارستانیاں اور حربے ہتھکنڈے ہیں ۔کتنے درست اور دل لگتے انداز میں ایک صاحب ِبصیرت نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نفس کی مثال اُس سرکش گھوڑے کی ہے جو پٹھے پر ہاتھ رکھنے ہی نہیں دیتا، آپ اس پر سوار ہونا چاہیں تو دولتیاں جھاڑ دیتا ہے اور سوار ہوجائیں تو د و چار قدم کے بعد آپ کو پٹخ دینا چاہتا ہے لیکن یہی گھوڑا جب سدھا لیا جاتا ہے تو ایک بچہ بھی اسے اپنے اشاروں پر دوڑاتا ہے۔یہی حال نفس کا ہے جسے حقیقی روزوں کے ذریعے ہم اپنے قابو میں کرلیتے ہیں اور گناہوں کو اپنے قر یب آنے نہیں دیتے۔روزہ بیمار اور کمزور بھی ہوتا ہے اور اُس کی علامتوں کا ادراک کرانے کے لئے کوئی ڈاکٹر اور طبیب نہیں بلکہ ہمارے اندر والا ضمیر ہی بہتر مفتی ہے، اگر حیلہ سازی ،نمازوں میں لاپرواہی ،شہوانی دروازوں کو کھلا رہنا ،غیرضروری گفتگو ،بے قابو غصہ ، روزہ گزاری کے لئے پردۂ سمیں سے چمٹنے رہنا ،ریا کاری ،دھوکہ دہی اور بندوں کو دام فریب میں پھنسانے کا عمل جاری ہے تو روزہ بیمار ہے اور اس کی شفا بس اس بات میں مضمر ہے کہ روزہ کے بنیادی تطہیری او ر تزکیاتی مقصد کو سمجھ کر ہی اسے ر کھا جائے اور ساتھ ہی ساتھ جیسا کہ ان سطور میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اخلاصی توبہ کا عمل جاری ہے، درِتوبہ بند ہی نہیں ہوتا، یہاں تک کہ بندہ ہی اپنی زبانِ استغفار اور دل معافی تلافی طلب بند نہ کرے۔
یہ خالص توبہ ہوتی کیا ہے ؟امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ توبتہ النصوح یہ ہے کہ انسان گناہوںکو چھوڑ کر دوبارہ ان کا مرتکب نہ ہو۔جیسے دوددھ دوہے جانے کے بعد تھن میں دوبارہ واپس نہیں جاسکتا ۔حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا توبہ کرنے کے لئے ضرروری ہے کہ بندہ سے جو غلطی ہوجائے اُس پر نادم ہو اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرے۔حضرت کلبی ؒ نے ارشاد فرمایا :توبہ کے لئے یہ بات شرط ِلازم ہے کہ زبان سے استعغفار کرو، دِل میں شرمندگی محسوس کرو اور اعضائے بدن سے دوبارہ وہ حر کت نہ کرو۔حضرت محمد بن کعبؒ کا فرمان ہے:توبہ کے لئے چار باتیں بے حد ضروری ہیں :زبان سے استغفار کرنا ،معصیت سے جسم کو دور رکھنا ،دل میں پکا ارادہ کرنا کہ دوبارہ یہ گناہ نہیں کریں گے اور بُرے لوگوں کی صحبت سے دور بھاگیں گے۔علامہ ابن قیم ؒ کا ارشاد ہے:توبتہ النصو ح میں تین باتوں کا پایا جانا ضروری ہے :ترک معا صی یعنی تمام گناہوں کو یکسر چھوڑ دینا ،دوبارہ انہیںنہ کرنے کا عزم اور گناہوں کی جانب لے جانے والے سارے راستوں سے اجتناب،یعنی توبہ کے ارادے سچے عزم اور شعور کی بیداری کے ساتھ کئے جانے والے عہد کا نام ہے۔یہ صرف چند الفاظ کے دہرانے کے عمل کا نام نہیں کہ رمضان کی راتوں میں آہ و بکا ہ کی ،واعظین نے خوب رویا رُلایا لیکن نفس کی دولتیاں جاری ہیں اور آخرت اُس کے کھیل تماشوں کی بجلیوں کی زد میں ہے،تو پھر یہ کیسی توبہ ہوئی ؟یاد رکھئے کہ اگر گناہوںکا تعلق عبادات میں کمی و کوتاہی سے ہے تو اُس کی تلافی کرے ،اگر گناہ لوگوں کے حوالے سے کئے ، غیبت کی ،معافی مانگ لیجئے ،مال ہڑپ کیا واپس ادا کیجئے ، کسی قسم کی فریب کاری کی، اپنے کو جلد از جلد بری کرنے کے سارے جتن کرڈالئے۔ اس لئے حضرت سید المرسلین فداہ ابی و اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مقدس ہے :’’کہ جس شخص کے پاس اپنے کسی بھائی کی ۔۔۔یا کسی اور چیز کے متعلق کوئی حق ہو تو وہ اُس سے آج ہی معاف کرائے اس (دن) سے پہلے کہ جب کوئی درہم ہوگا نہ دینار ۔اگر اُس کے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو اُس سے ظلم کے برابر نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو اس کے ساتھی(مظلوم) کے گناہوں میں سے ظلم (ظلم کے گناہ کے برابر)لے کر اُس پر ڈال دئے جائیں گے ۔بہر حال رمضانی انوار و برکات جوبن پر ہیں اور روز عید کی آمد آمد نے اسلامی دنیا میں عجب ہلچل پیدا کی ہے ، اللہ رحمت نازل فرمائے اُن بندگان نیک طینت کو جنہوں نے سمجھا دیا ہے کہ اگر اس ماہ میں اپنے گناہوں کو بخشوانے میں کامیاب نہ ہوئے تو یہ جدید ملبوسات ، مرغن غذائیں اور عالی شان سواریوں پر عید گاہوں کی جانب روانگی بس ایک رسم ہی ہوگی ۔طفل نفس کے بہلاوے کا عمل ہوگا ،عید قطعی نہیں ۔اس لئے ایک عالی مرتبت حکمران اور امیر المو منین کو عید کے روز بھی روکھی سوکھی کھاتے دیکھ کر اپنے رفیقوں نے وجہ دریافت کرلی تو جواب کس قدر چونکا دینے والا تھا : مجھے کیا خبر کہ رمضان کے روزے نوافل اور شب زندہ داریاں قبول بھی ہوئی ہیں کہ نہیں۔کس بات پر اترائوں اور خوشی کا اظہار کروں۔قیام و صیام کی قبولیت کی شرط تو ایمان و احتساب کا عمل ہی قرار دیا گیا ہے، ایمان و احتساب کو وسیع معنیٰ میں دیکھ لیجئے ۔ ہم اپنے روزوں کا جائزہ لیں تو عقدہ کھل جائے گا کہ عید کی خوشیاں منانے کے ہم کس قدر حقدار ہیں؟
قمری مہینے کی تین مدارج انسانی زندگی کے تین مراحل تو بیان ہوئے، اب آخرپر عید کا بس ایک ہی سوال کہ کیا رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے نبوی ﷺ ارشاد کے تحت ادا ہوئے،اگر ہوئے تو فائز المرامی ،ماتھے کا جھومر، اور خدا نخواستہ اگر نہیں تو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے اور المیہ بھی۔پھر بھی وقت نہیں گیا ،ا للہ کی رحمت سے ما یو س نہ ہو ں ،زندگی بدلنے کا ابھی عہد کریں ۔۔۔ایں در گہۂ من در گہۂ نا امیدی نیست۔۔صد بار اگر تو بہ شکستی با ز آ۔۔۔ کی صدا ئے رحمت صاف سنا ئی دے رہی ہے ، اُخروی سر خروئی نصیب ہوگی قدافلح من تٰزکی کے قرآنی سبق کی گہرائیوں میں ڈوب کر اس پر عمل پیرا ہوں تو پھر ہر شب شب ِسعید اور ہر روز روزِ عید ہوگا ۔ ہاں ! عید کے ان لمحات میں غریب و نادار لوگوں ، روتے بلکتے یتیم بچوں کراہتی انسانیت ، بیوائوں اور نیم بیواؤں ، حالات کے ستم رسیدہوں، معذورں اور مجبوروں، نانِ شبینہ کو ترسنے والوں،حق نوائی کی پاداش میں جیلوں کی کال کوٹھریوں میں بند پڑے ستم رسیدہ قیدیو ں، حق نوازوں کے غم گزیدہ اہل خاندان ،اور اپنی نجا بت ،وجاہت اور شرافت کی رکھوالی کرنے والے اُ مومنوں جن کے چہرے سے غربت ولاچاری کے آثار ٹپک رہے ہیں مگر وہ کشکول گدائی کسی کے سامنے نہیں کرتے ،آلام و مصائب کے اٹوٹ سلسلے نے انہیں زرد رُوبنادیا ہے ،جن کے گھروں میں عمر رسیدہ بیٹیوں کے ہاتھ مہندی کو ترستے ہیں لیکن اپنی تنگ دستی انہیں بس آہیں بھرنے ،سسکیاں اور ہچکیاں لینے پر ہی مجبور کردیتی ہیں اور ان آہوں سے بھی کوئی آواز نہیں آتی اس لئے نہیں کہ کوئی سنے نا بلکہ معاشرہ میں دستار ِ غیر ت کی دھجیاں بکھر نہ جائیں۔ان سب مفلوک الحال لوگوں کو مت بھولئے کہ یہ بھول مجرمانہ بھول ہوگی ،جو خطرناک انجام سے دوچار کرے گی۔عید اخوت و محبت کے اظہار کا دوسرا نام ہے اور اس جذبۂ قرابت کا امتحان بس اپنوں اور غیروں کی تسلی بخش دِل جوئی سے ہی پاس کیا جاسکتا ہے اور اگر ایمان و احتساب کے معنی کا عملی ادراک ہمیں ہوگیا ہے ، توبس اسی ایثار و انفاق کی راہ سے ہوگا۔عید کی آمد آمد ہے ۔عید گاہوں کی جانب ہم سب روا ں دواں ہوں گے ،بند گان خدا تو ایک دوسرے سے کندھے سے کندھے ملاکر جڑنے کے لئے ،بغل گیر ہونے کے لئے آئیں گے ،علماء و قائدین قرآن و سنت کی روشنی میں انہیں سیسہ پلائی دیوار بنادیں۔ تسبیح کے ان بکھرے دانوں کو اکٹھا کرنے کے لئے اپنی زبان اور اپنی فصاحت و بلاغت کا ا ستعمال کریں۔ ہر سو وحدت ملت تقا ضے،تقا ریر اور بیا نات ہیں لیکن کہیںسے بھی اگر اشا روں کنا یوں میں ہی وحدت شکنی کی بات ہو گی توبہت رنج دہ بات ہوگی اور جو لوگ ایسا دانستہ یا نادانستہ کرتے ہیں،کیوں کرتے ہیں اور کس کے منصوبوں اور خاکوں میںرنگ بھرتے ہیں، وہ صیام کے پیغام سے غافل ہی قرار پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخوت ، محبت، وحدت ، بقائے باہم اور صبر وتحمل کی صفات سے مالا مال کرے ۔ آمین
رابطہ:9419080306