راجہ محمد ایوب خان1925 ء میں راجہ اصغر خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا راجہ آزرخان نگر کے راجہ تھے۔ راجہ ایوب سنٹرل جیل کے قریب اندرون کاٹھی دروازہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے 13 جولائی کا قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اگرچہ اس وقت وہ صرف 6 ؍یا 7؍ برس کے تھے لیکن اس خونین واقعہ نے ان کی زندگی کا رُخ ہی بدل ڈالا۔ کم سنی میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو تحریک کشمیرکے لئے وقف کردیا۔ البتہ یہ ستارہ کشمیر کے سیاسی افق پر 1946ء کو چمکاجب انہوں نے کشمیر چھوڑ دو تحریک میں بھر پور حصہ لیا لیکن جلد ہی انہوں نے جانا کہ کشمیر کا مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ وہ اَن پڑھ ہے اور مہاراجی حکام اس کو جانوروں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ چناںچہ انہوں نے مسلم کانفرنس میں شمولیت کی اور جلد ہی عتاب کا شکار ہوئے۔ وقفہ وقفہ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کے سات سال زندان خانوں میں گزارے۔ ڈوگرہ شاہی کے خاتمے پر انہیں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت نے بھی زندان کی نذر کردیا۔ رہائی کے فوراً بعد ان کو 1950ء میں پھر سے گرفتا ر کیا گیا۔ اس بار انہیں امرتسر جیل میں چھ ماہ تک قید رکھا گیا۔ سال1951ء میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور آٹھ ماہ بعدرہائی نصیب ہوئی۔ 9؍ اگست 1953ء کو جب شیخ محمد عبداللہ کو برطرف کرکے گرفتار کیا گیا تو راجہ صاحب کو پانچ ماہ تک سنٹرل جیل سرینگر میں رہنا پڑا۔ مسلسل گرفتاریوں سے راجہ صاحب کا ارادہ اور بھی مضبوط ہوا۔ وہ تحریک کی آبیاری کرتے رہے۔ 13؍اپریل1963ء میں راجہ صاحب جموں چک پوسٹ پر جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے گئے۔ اس بار انہیں شدید ٹارچر کے شرمناک دور سے گزرنا پڑا۔ تین ماہ تک ان کا مسلسل ٹارچر ہوتا رہا لیکن عزم و استقلال کے اس پیکر نے کوئی شکایت نہ کی۔ عدالت عالیہ کے حکم پر انہیں رہا کیا گیالیکن اسی سال دسمبر میں درگاہ حضرت بل سے موئے مقدس کا سرقہ ہواجس کی بازیابی کے لئے تمام تنظیموں پر مشتمل ایکشن کمیٹی بنائی گئی ۔ موئے مقدس کی بازیابی کے بعد اس کمیٹی میں ر خنہ پڑا اور مرحوم مولانا فاروق صاحب نے عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا۔ راجہ صاحب اس کے جنرل سیکر ٹری بنے۔ یہ کمیٹی حصول حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرنے لگی۔965 ء کی ہندپاک جنگ کے دوران راجہ صاحب کو گرفتار کر کے سنٹرل جیل سرینگرمیں مقید رکھاگیااور پانچ ماہ بعد رہا کیا گیا۔1971ء میں پھر گرفتار ہوئے، اس بار جیل میں بہت بیمار پڑے۔ یہ دور ان کے لئے بہت مشکل رہا۔ بیماری کے علاوہ گھر کی مالی حالت بھی خراب تھی لیکن راجہ صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ انہیں سرکاری ملازمت اور پیسے کا لالچ بھی دیا گیا لیکن انہوں نے فقیری میں ہی گزر بسرکر نا پسند کیا۔1977 ء میں وہ کئی بار گرفتار ہوئے ۔ آخر کار خرابی ٔ صحت کی بنا پر انہیں پیرول پر رہا کیا گیا۔ان ہی دنوں جنتا پارٹی کشمیر میں وارد ہوئی۔ راجہ صاحب نے مرحوم مولانا فاروق سے اس معاملے پر اتفاق نہیں کیا۔ ان کو میر واعظ منزل میں مرارجی ڈیسائی کا آنا بہت بُرا لگا۔ راجہ صاحب 25؍ جون 2004 ء کو فوت ہوئے۔
…………………
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648