کیاگول کے تعمیراتی منصوبے پھر سے الیکشن کے بھینٹ چڑھیں گے | 25برسوں سے سڑکیں تشنہ تکمیل، پل، بس سٹینڈ ودیگر کاموںکے وعدے سراب ثابت

oplus_1024

زاہد بشیر

گول؍؍ سب ڈویژن گول کو کہ ہمیشہ سے ہی سیاسی سطح پر نظر انداز ہوتا جا رہا ہے جس وجہ سے یہاں پر سالہا سال سے تعمیری منصوبے الیکشن کے بھینٹ چڑھتے آ رہے ہیں ۔ ہر آنے والے الیکشن میں یہاں کی غریب عوام کے ساتھ وعدے کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں وہ وعدہ سراب ثابت ہوتے ہیں ۔ جہاں گول گاگرہ سڑک ہے وہیں گول کا بس اسٹینڈ بھی ایک قضیہ بنا ہوا ہے اس طرح سے گول کے بہت سارے تعمیراتی کام جو بیس سے زائد عرصہ سے نہیں بنے ہیں ۔گو ل علاقہ جو پہلے گول گلاب گڑھ اسمبلی حلقہ کا ایک حصہ تھا اور بعد میں یہ ارناس گول کے نام سے تھا اور اس کے بعد اب اس کو حلقہ انتخاب بانہال کے ساتھ جوڑا گیا ۔ اس طرح سے یہاں پر اعجاز احمد خان نے لگا تار تین بار جیت حاصل کی اور ایک بار مقامی نیشنل کانفرنس کے لیڈر نے جیت حاصل کی۔گول سب ڈویژن کے مختلف علاقوں میں کشمیر عظمیٰ نے جب مقامی لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ گول کے عوام کے ساتھ ہمیشہ سے ہی دھوکہ کیا گیا ، یہاں کی عوام سے مختلف الیکشنوں چاہئے اسمبلی الیکشن ہوں ، پارلیمانی الیکشن ہوں ، پنچایتی الیکشن ہوں یا ڈی ڈی سی الیکشن ہوں تمام الیکشنوں میں جو وعدے کئے تھے وہ سراب ثابت ہوئے ۔ گاگرہ کی عوام کا کہنا ہے کہ گول گاگرہ روڈ جو قریباً24برسوں سے زیر تعمیر ہے لیکن ابھی تک اس کو مکمل نہیں کیا گیا ہے ۔ اس پر کئی پل بھی تعمیر کرنے کے منصوبے تیار کئے گئے تھے اور پنچایت الیکشن و ڈی ڈی سی الیکشن میںبھی یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کئے تھے اور ایک گزشتہ سال دسمبر میں کئی سیاسی لیڈروں نے یہاں پر ایک ماہ کے اندر اندر

پل تعمیر ہونے کی بھی بات کی تھی لیکن ابھی تک وہ پل تعمیر نہیں ہوئے ۔ اس طرح سے ڈی ڈی سی چیر پرسن نے گول میں ایک بھاری عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے گول میں بس اسٹینڈ کی تعمیر ، سبزی منڈی کی تعمیر ، ڈیجیٹل اسکرین لگانے کا بھی عوام سے وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا ۔ گول بس اسٹینڈ کی اگر بات کی جائے تو قریباً5کنال13مرلہ اراضی جو پنچایت کے نام محکمہ دیہی ترقی کے پاس کاغذات تھے لیکن زمین کہاں پر ہے اس پر انتظامیہ بھی ناکام ہوئی ہے ۔ انتظامیہ نے کئی مرتبہ اس بس اسٹینڈ کی اراضی کی پیمائش بھی کی تھی ،اور اس پر ایک کمیٹی بھی بٹھائی گئی تھی لیکن نا جانے کیا بات ہوئی کہ اس تمام مسئلے کو دبا دیا گیا ۔اس طرح سے اندھ ماسواہ روڈ جو 20سال سے زائد عرصہ سے نہیں بنا ہے ، مہا کنڈ جبڑ روڈ ، گول بازار اور سنگلدان بازار میں بیت الخلائوں کی تعمیر ،گول تتا پانی روڈ میں آئی اراضی کا معاوضہ ،علاقہ چنا میں پل جو کئی پنچایتوں کو ملاتا ہے ، کھیت نہر جس پر کروڑوں روپے صرف کئے گئے لیکن اس منصوبے کو سرے سے ہی دفن کیا گیا ، ٹی آر سی عمارت کو خستہ حال پڑی ہوئی ہے ، بس کے معروف آثارِ قدیمہ گھوڑا گلی ڈینگام کے مقام پر انورنمنٹل پارک پر لاکھوں روپے خرچنے کے با وجود یہ پارک جنگل و جھاڑیوں کی صورت اختیار کر چکی ہے ، گھوڑا گلی کے مقام پر بور ویل جو پنچایت داچھن ، اندھ وغیرہ علاقوں کو پینے کے پانی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا جس پر کافی پیسہ بھی خرچ کیا گیا وہ نہیں بنا ۔ یہاں پر ٹولب گارڈن بنانے کی بات کی گئی ۔ جبڑ مہا کنڈ روڈ جو قریباً12سال سے زائد عرصہ قبل بنا ہے لیکن ابھی تک اس کی حالت کو سدھارا نہیں گیا ۔گول میں کئی جگہوں پر ڈی ڈی سی فنڈس سے ٹریکٹر روڈ بنائے گئے لیکن زمینی سطح پر ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے کہ کہاں پر یہ روڈ بنے ہیں جبکہ خزانہ عامرہ سے رقم نکال لی گئی ہے۔ مہا کنڈ اور جبڑ کے لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہاں پر ہم نے ڈی ڈی سی چیر پرسن جو نیشنل کانفرنس کی ہے یک طرفہ ووٹ دے کر اس کو جتایا ہے لیکن ابھی تک علاقے کے روڈ کی حالت کو نہیں سدھارا ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ علاقے میں کافی مشکلات سے لڑ رہے ہیں عوام کے مسائل روز برو بڑھتے ہی جا رہے ہیں کم نہیں ہوتے ہیں ۔ لوگوں نے کہا کہ اب عوام سمجھ چکی ہے کہ ان کے ساتھ جو وعدے کئے جاتے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے ہیں اور عوام بھی اسی نمائندے کو چنے گی جو اُن کے وعدوں کو پورا کرے گی ۔