گلفام بارجی
وادی میں منشیات فروشی کا کاروبار جتنی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اتنی ہی تیزی سے جموں کشمیر پولیس کا شکنجہ بھی ان منشیات فروشوں کے خلاف سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جموں و کشمیر خاص کر وادی میں منشیات کے عادی نوجوانوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہےجو معاشرے کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ حالانکہ ایسی بھی خبریں موصول ہورہی ہیں کہ ان منشیات کے عادی نوجوانوں میں نو عمر اور نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ آج تک منشیات کی اس لعنت سے کتنے ہی گھر اجڑ گئے جبکہ کئی نوجوانوں نے اپنے ہی والدین کو قتل کردیا اور کئی سارے نوجوان منشیات کی اس لعنت میں مبتلا ہوکر اپنی ہی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔راہ چلتے لوگوں کو لوٹنے کے کئی معاملات رونما ہوتے رہے۔ کئی بزرگ شہریوں کے گھروں میں گھس کر اُن شہریوں پر حملہ کرکے لوٹ مار کردی گئی۔اگر والدین نے اپنے بچوں کی وقت پر نگرانی کی ہوتی تو شاید آج معاشرے میں اس بدعت کا نام و نشاں نہیں ہوتا۔ہر ایک ماں باپ چاہے وہ امیر ہو یا غریب کی تمنا ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہترین شہری بن کر اپنی زندگی بسر کریں، اپنے والدین کا سہارا بنے۔ لیکن یہاں پر صرف خالی تمنا کرنے سے ان کے بچے اچھے شہری نہیں بن سکتے اور نہ ہی ان کا سہارا بن سکتے بلکہ اچھی تعلیم و تربیت، بہترین پرورش اور اچھی دیکھ بھال سے ان کی یہ تمنا پوری ہوسکتی ہے۔والدین کا فرض بنتا ہےکہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ ان کے بچے کہاں جاتے ہیں، کس کے ساتھ جاتے ہیں، موبائل فون پر ان کا زیادہ رابطہ کس کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ ہے، اُس کی اپنے طریقے سے چھان بین کریں۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہےکہ اگر اپنے محلے یا آس پڑوس میں کوئی ایسا نوجوان ہے، جس کو منشیات کی لت لگ گئی ہو تو جب کوئی اس بات کی شکایت اُس نوجوان کے والدین سے کرتا ہےتو چند ایسے بھی والدین ہوتے ہیں جو شکایت کندہ گان کو ہی اُلٹا ڈانٹ پلا دیتے ہیں کہ آپ خامخواہ میرے بچے کو بدنام کرتے ہو اور ان والدین کے اس طرح کے رویے سے منشیات کے عادی اس نوجوان کو حوصلہ ملتا ہےجس کی وجہ سے وہ سدھر نے کے بجائے بگڑ جاتا ہے اور اپنے ساتھ دیگر کئی نوجوانوں کی زندگیوں کو بھی برباد کرتا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر کسی بچے کے والدین کو اپنے بچے کے بارے میں اس طرح کی شکایت ملتی ہے تو وہ والدین شکایت کندہ گان کے ساتھ اُلجھنے کے بجائے اپنے بچوں کی طرف دھیان دیتے اور اس شکایت کی اچھی طرح سے چھان بین کرتے ،توایسا کرنے سے اُن کے بچے کی زندگی بھی بچ جاتی اور ساتھ میں آس پڑوس کے نوجوانون کی زندگیاں بھی محفوظ رہ جاتیں۔ اب دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آخر یہ منشیات فروش کہاں سے آتے ہیں؟ کیا ان منشیات فروشوں نے معاشرے کو تباہ و برباد کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ان کی پشت پناہی کون کررہا ہے؟ اگرچہ جموں و کشمیر پولیس ان منشیات فروشوں کے خلاف روزبروز اپنا شکنجہ سخت کرتا جارہا ہے، لیکن دوسری طرف ہمیں آئے روز یہ خبریں سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہے کہ آج فلاں جگہ سے پولیس نے اتنے منشیات فروشوں کو دھر دبوچ لیا۔ حالانکہ ان منشیات فروشوں میں خواتین بھی پیش پیش رہتی ہیں اور کئی خواتین کو بھی پولیس نے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاہے۔ حالانکہ معاشرے سے اس منشیات جیسی بدعت قلع قمع کرنے کے لئےکئی سارے بدنام زمانہ منشیات فروشوں کی جائیداد پولیس نے NDPS ایکٹ کے تحت ضبط بھی کی اور 100 کے
قریب بنک اکاونٹس منجمد کئے، جو منشیات کی اس بدعت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ایک قابل ستائش اقدام ہے ۔لیکن پھر بھی ہمارے سماج میں اس قسم کے بے ضمیر لوگ باز نہیں آتے ،آئیں گے بھی کیسے، جب تک نہ عوام ان منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب نہ کرے۔ اس لئے معاشرے کو اس بدعت سےصاف و پاک رکھنے میں عوام پر بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ یہاں پر اس بات کو بھی ہمیں نظر انداز نہیں کرناچاہئےکہ جموں و کشمیر کی بہادر پولیس ہمارے معاشرے کو منشیات کی اس بدعت سے صاف و پاک رکھنے کے لئے جس تندہی اور جانفشانی سے دن رات کام کررہی ہے، اس کے لئے ہم جموں و کشمیر کی اپنی بہادر پولیس کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن اگر واقعی آپ اپنے معاشرے کو منشیات کی اس لعنت سے صاف و پاک رکھنا چاہتے ہیں تو آیئے ہم سب مل کر جموں و کشمیر پولیس کو اس بدعت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنا تعاون فراہم کریں۔