کشمیر یوں کا شہد کی کاشت کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے۔ شہد کو باقاعدہ بی ہائیو میں کاشت کرنے اور اسے صاف کرنے کا عمل 1954ء میں شروع ہوا جب اٹلی سے شہد کی مکھیوں کی بہترین نسل کویہاں درآمد کیا گیا۔ بعد میں جموں کشمیر حکومت نے اس صنعت کو بڑھاوا دینے کے لئے نئے نئے منصوبوں پر کام شروع کیا اور محکمہ زراعت کے ساتھ ساتھ کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز بورڈ قائم کیا گیا تاکہ شہد کی کاشت کو جدید خطوط پر استوار کیاجائے۔ حکومت کی نگہداشت میں بعض سوسایئٹز قائم کی گئیں جنہوں نے اس صنعت میں عوامی دلچسپی بڑھانے کے لئے مہمیں چلائیںاور اس صنعت کو منافع بخش بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ یہ مہم سرینگر سے شروع ہوئی اور بعد میںاسلام آباد، بارہمولہ اور جموں میں ضلع ڈوڑہ اور کٹھوعہ وغیرہ بھی شہد کی کاشت کے دائرے میں آگئے۔
سرینگر میں شہد کی کاشت کے لئے شاہ خاندان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔1964ء میں علی محمد شاہ نہ صرف خود اس کام میں جُٹ گئے بلکہ شاہ خاندان کے مردوزن اور بچے شہد کی صنعت کے ساتھ منسلک ہوگئے۔مرحوم شاہ صاحب جنون کی حد تک اس صنعت کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور ان کی ہی کاوشوں نے اس صنعت کو کمرشل خطوط پر استوار کیا۔ یہ بات اب مسلمہ ہے کہ مرحوم شاہ صاحب نے یہ کام دولت اکھٹا کرنے کے لئے نہیں کیابلکہ وہ ذاتی شوق کی وجہ سے پورے ولولے کے ساتھ اس کام کے ساتھ جڑ گئے۔ وہ نہ صرف سرینگر کے ہارون دارا میں شہد کے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے، بلکہ گاندربل، کنگن، سونہ مرگ،اسلام آباد، لام ترال، ستورہ، نارستان، کپرن کوکرناگ، عیش مقام ، قاضی گنڈ، لولاب، کلاروس اور جموں کے ڈوڑہ کشتواڑ اور کٹھوعہ وغیرہ اکثر جاتے تھے اور کاشت کاروں کو شہد کی مکھیاں پالنے، شہد کشید کرنے اور مارکیٹنگ کے جدید طریقوں سے روشناس کراتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کشمیرمیں شہد کی کاشت کو وسعت دینے کے لئے وقف کردی تھی،یہاں تک کہ شہد کی کاشت، شہد کی مکھیوں کے اقسام اور اس صنعت سے متعلق دوسرے پہلوؤں پر پہلی بار 1976میں مرحوم شاہ صاحب کے فرزند فاروق احمد شاہ نے’’مگس بانی‘‘ کے عنوان سے ا س موضوع پر اب تک کی واحد اور مفصل کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب تحریر کرنے کے پیچھے فاروق صاحب کی غایت یہ بھی تھی کہ شہد سے متعلق معلومات کشمیر کے تعلیمی نصاب میں شامل کی جائیںتاکہ آئندہ کی نسلیں اس اہم اور روایتی صنعت کے بارے میں واقف بھی رہیں اور جو لوگ اسے اپنا روزگار بنانا چاہتے ہوں ، وہ اسے باقاعدہ طور اپنائیں۔ مرحوم شاہ صاحب اور ان کے خاندان نے پوری دنیا میں مشہور ’’شاہ بی کیپرس‘‘ نامی کمپنی کے بینر تلے جس قدر ہوسکا ،اس صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششیں کیں۔ شاہ خاندان کی کاوشوں اور حکومت کی کئی ا سکیموں کے باعث کشمیر میں یہ صنعت کئی دہائیوں تک پھلتی پھولتی رہی مگرافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سماجی زندگی میں شہد کی اس قدر اہمیت کے باوجود یہ صنعت اب سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر غفلت کی شکار ہے۔ فی الوقت کشمیر میں ڈیڑھ ہزار سے بھی کم شہد کے کاشت کار ہیں اوروادی میںشہد کی مکھیوں کی ایک لاکھ بیس ہزارکالونیوں کی صلاحیت کے باوجود یہاں صرف 35ہزار کالونیز موجودہیں۔
ترقی یافتہ ممالک امریکہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، آسٹریلیا وغیرہ نے اس صنعت کو ترقی دینے کے لئے نئے نئے منصوبوں کو روبہ عمل لایا ہے کیونکہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن کھیتوں میں شہد کی کاشت ہوتی ہے، وہاں ہونے والی فصل نہ صرف معیاری ہوتی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی تمام ریاستوں میں شہد کی کاشت کے لئے خاص انتظامات ہیں۔ شہد اب پکوانوں کا اہم جز بناہے اور بیشترادویات میں بھی اب شہد ملادیا جاتا ہے۔ کشمیر میں چند دہائیاں قبل شہد کا استعمال شادی بیاہ یا وقت مرگ کسی کو چکھانے تک محدود تھا لیکن کشمیریوں میں تھوڑی بہت آسودہ حالی کے بعد اب متوسط اور اہل ثروت گھرانوں میں شہد کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ روایتی ادویات میں بھی شہد کی ضرورت پڑتی ہے اور سردیوں میں نونہالوں کو کھانسی سے بچنے کے لئے شہد کھلایا جاتا ہے۔ جہاںایک طرف شہد کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے وہیں دوسری طرف یہ صنعت زوال پذیر ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل شہد کے کشمیری کاشت کار دیگر ریاستوں راجستھان، گجرات ، یوپی وغیرہ میں شہد کی مکھیوں سے بھرے ڈبے کسانوں کے کھیتوں میں رکھتے ہیں۔ اس کے عوض انہیں کرایہ دیتے ہیں، حالانکہ اس کا فائدہ وہاں کے ہی کسانوں کو ملتا ہے۔ وہاں شہد کی مکھیاں فصلوں کا رَس لے کر شہد بناتی ہیں۔ اس عمل سے کسانوں کی فصلوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ فصل کی کٹائی کے بعد یہ مکھیاں واپس کشمیر لائی جاتی ہیں اور پھر جو شہد یہاں بنتا ہے، اسے کشمیری شہد کہا جاتا ہے؟ چونکہ معیاری یا کشمیری شہد جانچنے کا کوئی موزون طریقہ موجود ہی نہیں، اس لئے کشمیری خود تذبذب میں ہیں کہ وہ کون سا شہد کھارہے ہیںاور پھر بیرونِ ریاست یہ مکھیاں اکثر مقامی مکھیوں کے ساتھ خلط ملط ہوجاتی ہیں اور کئی بیماریوں کی شکار ہوجاتی ہیں۔ ماہرین نے ’’واروا‘‘ نامی بیماری کی تشخیص کی ہے جو کشمیری مدھومکھیوں کو لگی ہے اور اسی کی وجہ سے کشمیر میں شہد کی مکھیوں کی آبادی روزافزوں گھٹ رہی ہے، شہد کا معیار گر رہا ہے۔ نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ زعفران کے بعد شہد کی روایتی صنعت بھی یہاں زوال پذیر ہے۔حالانکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے شہد کی صنعت سے متعلق بڑے بڑے منصوبے ہاتھ میں لئے ہیں اور یہاں بھی محکمہ زراعت کے علاوہ کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز نامی محکمے بھی اس ضمن میں فعال ہیں، لیکن زمینی سطح پر اس سلسلے میں کوئی قابل قدر کارروائی نظر نہیں آتی۔ حکومت اگر واقعی کشمیر کی روایتی صنعتوں کو بحال کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ شہد کی صنعت میں تجربہ یافتہ لوگوں کو سامنے لاکر اس صنعت کو بحال کرنے کی کوشش کرے۔
رابطہ:9469649449