پتے تھرتھرا رہے تھے ۔چڑیا اپنے گھونسلوں سے باہر نکل کر اپنے رب کی حمد بیان کر رہی تھیں ،مرغ نے پہلے سے ہی بانگ دی تھی۔چند ضمیر سے جاگے انسانوں کے سوا سب خواب غفلت میں سوئے ہوئے تھے۔
مسرت اچانک نیند سے جاگ گی اُٹھی۔ گھڑی کی طرف دیکھا اور سوچنے لگی شاید آج کسی نے اذان نہیں دی ہے۔ایک طویل انگڑائی لے کر وہ اُٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر نماز کے لئے ہاتھ باندھے۔
ابھی سلام بھی نہیں پھیری تھی کہ باہر سے آواز آئی ـــ’’ تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہرنہ نکلیں کیونکہ آج صبح ساڑھے چھ بجے سے غیر معینہ مدت تک کرفیو نافذ رہے گا۔
مسرت نے گیس پر پانی رکھا اور اس میں چائے کی چند پتیاں ڈال دیں اور خود گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
اچانک باہر سے پھر آواز آئی،کوئی زور زور سے کسی سے بول رہا تھا۔
صاحب میں نماز پڑھنے کیلئے مسجد گیا تھا۔ مگر مخاطب اسکی بات سننے کے لئے تیار نہیں لگتا تھا اور وہ شیخ رہا تھا، شائد اُسکی مارپیٹ بھی ہورہی تھی۔
آئندہ کبھی کرفیو میں گھر سے باہر نہیں نکلوں گا۔
مسرت نے جب چیخنے کی آوازیں سُنیں تو گھبرا کر کھڑکی کی طرف بھاگی اور زور سے کھڑکی کھولی ’’ ظالمو اس نے کیا کیا ہے اس کو چھوڑ دو‘‘لیکن کوئی مسرت کی آواز نہیں سُن رہا تھا۔آخر گھبرا کر وہ باہر نکل کے اُس طرف دوڑنے لگی جہاں سے چیخنے کی آواز یں آرہی تھیں۔
وہ اُوندھے منہ خوں میں لت پت بے ہوش پڑا تھا۔
مسرت کی نظر جب اُس کے چہرے پر پڑی تو اُس کی زبان سے چیخ نکلی۔۔۔۔عقیل عقیل عقیل
کشمیر یونیورسٹی سرینگر