حرام کمائی کی صورتیں …تجارت اور ملازمت میں !
سوال:- آج کل حرام کمائی اور خرام خوری کا دور دورہ ہے ۔ مزاج اتنا راسخ ہو گیا ہے کہ اب حرام کو اس طرح استعمال کیا جاتاہے جیسے کہ وہ حلال ہے ۔کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ حرام کی وہ صورتیں جو بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ، کیا ہیں؟تجارت ،ملازمت وغیرہ میں کیا کیا چیزیں حرام کمائی کے زمرے میں آتی ہیں ۔
شوکت احمد خان … بمنہ ، سرینگر
جواب:-حرام کمائی کی یوں تو بے شمار صورتیں ہیں لیکن کچھ شکلیں بہت زیادہ رائج ہیں اور ہر شخص ان کو جانتاہے ، سمجھتاہے اور اس کے رائج ہونے سے واقف بھی ہے ۔ان ہی کثیر الوقوع چند شکلوں کو اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے :
(۱لف)- جن چیزوں کی تجارت قرآن یا حدیث میں حرام قرار دی گئی ہے مثلاً شراب ،چرس ، بھنگ اور اس قبیل کی دوسری منشیات وغیرہ ، ان کا خریدنا ، بیچنا حرام ہے ۔ ان اشیاء سے جو روپیہ کمایا جائے وہ حرام ہے ۔
اسی طرح مردار جانور کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے اور اُس سے حاصل شدہ رقم حرام کمائی ہے ہاں مردار جانور کی ہڈیاں خشک کی گئی ہوں یا کھال کو دباغت دیا گیا ہو تو ان دو اشیاء کی قیمت حلال ہوگی ۔ شراب صرف پینا اور پلانا یا خریدنا اور فروخت کرنا ہی حرام نہیں بلکہ شراب کا ٹھیکہ ، شراب کی ایجنسی چلانا ، مورتیوں یا مجسّموں کی تجارت بھی حرام ہے چاہے وہ قدیم اور نادر ہوں یا نئے مجسمہ ہوں ۔شراب کی فیکٹری لگانا ،شراب کی فیکٹری میں ملازمت کرنا ،شراب پلانے کی نوکری کرنا ، شراب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔ مثلاً کوئی شخص ٹرک یا لوڈ کیرئر سے شراب دوسری جگہ پہنچائے اور اپنی مزدوری لے کر یہ سوچے کہ میں نہ خود پیتاہوں نہ پلاتاہوں ۔ تو حق یہ ہے کہ یہ سب حرام ہے او ران میں سے ہر شخص کی آمدنی حرام ہے ۔
شراب کی صنعت کو سپلائی کرنے کے لئے مخصوص طور پر انگور یا دوسری کوئی چیز جو صرف شراب بنانے ہی کے کام آئے ، کاشت کرنا اور اس کی آمدنی حاصل کرنا ۔ یہ آمدنی بھی حرام کمائی میں آتی ہے ۔مثلاً کشمیر میں کچھ علاقوں میں Hops پھول ، جنہیں کشمیری میں شراب پوست کہتے ہیں ، کی کاشت صرف اسی غرض کے لئے ہوتی ہے۔ یا منشیات کی کوئی نباتاتی قسم مثلاً خشخاش اور بھنگ یا فکی تو ان اشیاء کی کاشت سے آنے والی آمدنی حرام ہے ۔
شراب یا دیگر منشیات کے بزنس کے لئے جو دستاویز لکھی جائے ۔اس کا لکھنے والا ، گواہ بننے والا اس کام سے جو آمدنی پائے گا ،وہ بھی حرام ہے ۔
(ب)- تجارت میں دھوکہ فریب دے کر پیسہ کمانا ہے مثلاً نقلی یا دونمبر کی اشیاء اصلی کہہ کر فروخت کرنا ، تو زائد رقم حرام ہے ۔ اسی طرح خود ملاوٹ کرکے یا ملاوٹ کی چیز لاکر فروخت کرنا حرام ہے اس پر جو نفع ہوگا وہ بھی حرام کمائی ہے ۔ سامان عمدہ تھا مگر پرانا ہونے کی وجہ سے خراب ہوچکاہے تو اس عیب دار چیز کو فروخت کرنا اور رقم کمانا حرام ہے ۔ اسی طرح مقرر نرخ سے زائد قیمت لینا یا خریدار کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع لینا حرام ہے ۔ اسی طرح ناپ تول میں کمی کرکے جو رقم کمائی جائے وہ حرام کمائی میں ہی آتاہے ۔
تجارت میں اشیاء ضروریہ مثلاً کھانے پینے اور اس طرح کی ضروریات مثلاً گیس وغیرہ کا ذخیرہ کرنا تاکہ بھائو بڑھا کر پھر من مانی قیمتیں وصول کریں ۔ یہ زائد رقمیں بھی حرام کمائی میں داخل ہیں اس لئے کہ یہ ذخیرہ اندوزی کرنا اسلامی شریعت میں حرام ہے ۔
(ج)-ملازمت میں مقررہ وقت سے کم حاضر رہنا او رپھر اُن اوقات کی تنخواہ لینا حرام ہے ۔ جن شعبوں اور اداروں میں ملازمت کرنا حرام ہے ان کی نوکری کرنا اور تنخواہ لینا حرام ۔ مثلاً بنک کی ملازمت ،انشورنس کمپنیوں کی ملازمت ، شراب پلانے کی ملازمت ، اسی طرح ناچ گانے کی ملازمت ، فیشن سیکھنے اور سکھانے کا کام وغیرہ اس پر ملنے والا روپیہ حرام کمائی ہے ۔اسی طرح غیر شرعی کام کرنے والے اداروں کا ایجنٹ بننا،ان کو افراد مہیا کرنا اور اُس پر رقم کمانا حرام کمائی میں داخل ہے ۔
ملازمت میں رشوت چاہے وہ افراد سے لی جائے یا اداروں سے یہ رشوت کی رقم سخت حرام ہے ۔ ملازمت کے دوران ڈیوٹی پر حاضر رہ کر دوسر ا کوئی غیرمتعلقہ کام کرنا اور تنخواہ اپنے مفوضہ کام کی لینا، یہ تنخواہ لینا بھی حرام کمائی ہے ۔
جن اداروں کے ذریعہ اسلام یا مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے یا جن محکموں کے ذریعہ اسلام کو ضرور پہچایا جاتاہو اُن اداروں اورمحکموں کی ملازمت حرام اور وہاں سے آنے والی تنخواہ حرام کمائی ہے ۔ وکالت میں جرائم کے مرتکب افراد مثلاً قتل ،زنا ،ماردھاڑ ، چھیڑ خوانی،رشوت خوری وغیرہ کی وکالت کرنا دراصل مجرم کو بچانے پرتعاون دینا حرام ہے او راس پر جو رقم کمائی فیس کے نام پر لی جائے وہ حرام کمائی میں داخل ہے ۔
اسی طرح کسی ظالم کے حق میں وکالت کرنے کا حکم بھی یہی ہے۔ وکالت میں جھوٹا کیس بنانا ،جھوٹی دستاویز بنانا ، جھوٹے بیان حلفی تیار کرانا او رجھوٹی گواہیاں دلوانا اسی حرام کمائی کے زمرے میں آتاہے ۔
سود چاہے بنک سے لیا جائے یا افراد سے لیا جائے اور چاہے نام بدل کرکسی اور عنوان مثلاًنفع ، بونس وغیرہ کا نام دیا جائے وہ حرام اورسخت ترین حرام کمائی ہے ۔
مزدوری میں اپنا مفوضہ کام نہ کرنا اور مزدور پوری لے لینا حرام کمائی میں ہے ۔
سردست اس مختصر کالم میں اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔حرام کمائی کی دوسری شکلیں بہت ہیں وہ آئندہ کبھی تحریر کی جائیں گی ۔ انشاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنے کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہے ۔ اگرجنازہ کی سلام پھیرنے کے بعد دعا کی جائے اور طریقہ یہ ہو کہ امام دعا کرے اور مقتدی حضرات آمین کہیں ۔ یعنی اجتماعی دعا کی جائے تو کیا اس میں کوئی حرج ہے ۔ کیا حضرت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرات صحابہ کرامؓ نے اس طرح کبھی دعا فرمائی ہے ۔کیا شریعت کی کتابوں میں اس طرح دعا کرنے کا کوئی ثواب کوئی ثبوت موجود ہے ۔جواب کا انتظار ہے ۔
حاجی اسداللہ …… گاندربل، کشمیر
نمازِ جنازہ کے فوراً بعد اجتماعی دعاکا کوئی ثبوت نہیں
جواب:-نمازِ جنازہ کی سلام پھیرنے کے بعد میّت کو اُٹھانے سے پہلے کھڑے کھڑے اجتماعی دعا کرنے کا نہ کوئی ثبوت ہے نہ اس پر کوئی اجر ہے ۔حدیث کی مشہور کتاب مشکوۃ شریف میں یہ حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کہ جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اخلاص کے ساتھ اُس کے لئے دعا کرو، یہ حدیث ابودائود میں ہے ۔ اس حدیث کی تشریح میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنازہ کے دوران جودعا پڑھی جاتی ہے اُس میں اُس میت کی نیت کی جائے جن پر جنازہ پڑھا جارہاہے ۔ اگرچہ اُس دعا میں الفاظ عام ہی ہیں ۔اس حدیث میں ہرگز یہ نہیں ہے کہ جنازہ کے بعد میت کے لئے دعا کی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اور حضرات صحابہؓ نے کبھی بھی جنازہ سے فارغ ہوکر کوئی دعا نہیں فرمائی اور آج بھی پورے عالم میں مسلمان اپنے مُردوں پر جنازہ پڑھتے ہیں مگر کبھی بھی جنازہ کے بعد کوئی دعا نہیں کرتے ۔ اب آج یہ نئی بدعت کیوں شروع کی جائے ۔ مشکوٰۃ کی شرح مرقات میں تو یہ بھی لکھاہے کہ جنازہ کے بعد کوئی دعا نہ کی جائے ۔ اس لئے یہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ کرناہے ۔اور اپنی طرف سے کسی عمل کا اضافہ وزیادتی بدعت کہلاتی ہے اور بدعات کاپھیلائو اسی طرح ہوتاہے کہ اس کو دین کا عمل کہہ کر شروع کرایا جاتا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہورکتاب ’’خلاصۃ الفتاویٰ ‘‘میں لکھاہے کہ جنازہ کے بعد کھڑے ہوکر ہرگز دعا نہ کی جائے ۔ یہ مکروہ ہے ۔ خود یہاں کشمیر میں جب سے اسلام آیاآج تک جنازہ کے بعد کوئی دعا کہیں نہیں پڑھی گئی اور آج بھی یہاں جب بھی جنازہ پڑھاجاتاہے اس کے بعد کوئی دعا نہیں ہوتی ۔ جب کسی حدیث یافقہ کی کسی کتاب میں جنازہ کے بعد دعا کرنے کا کوئی تذکرہ تک نہیں ہے تو پھر اس کا جواز کیسے ہوسکتاہے اس لئے اگر کہیں جنازہ کی سلام کے بعد کھڑے کھڑے دعا کرنے کا رواج شروع کیا جائے تو یہ دین میں اضافہ اور ایک نئی بدعت کو شروع کرنے کا عمل ہوگااور کوئی عمل چاہے وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بہتر بلکہ عبادت بھی ہو تو بھی وہ اُس وقت بدعت اور غیر شرعی قرار پاتاہے جب وہ کسی عبادت میں اضافی عمل ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین کی زیب وزینت اہم وضاحتیں
س:۱-آج کل کشمیر میں بیشتر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بنائو سنگھار کرکے گھرسے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں وشادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتاہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بنائو سنگار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتاہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لئے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھاجاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔
شبیر احمد …بتہ مالو ، سرینگر
جواب:۱-اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرحال میںبنائو سنگھارکاشوق رکھتی ہیںاور یہ مزاج اور شوق دراصل ایک اہم مقصد کے لئے ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لئے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ،ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بلکہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کااہتمام کریں گے ۔ اس لئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پوراکرے مگر ا س طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بنائو سنگھار(مگر شریعت کے دائرے میں)کرکے شوہرکوخوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہروقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لئے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لئے معطر و پُرکشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لئے یہ سب باعث اجر وثواب ہوگا ۔
لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لئے بنائو سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگرغیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عو رتوں میں اپنی عزت وبرتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر وبرتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔
عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ،اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لئے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر وہ ایسا بنائو سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہوجائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہے۔کیونکہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔
اس لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کا حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بنائو سنگھار مت کرو)۔ اس میںایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کوجاہلانہ کہاہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لئے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کوجاہلانہ روش قرار دیاہے ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے اچھا لباس ،اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ،بیوٹی پارلر جانا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیرمردوں کا سامنا ہو ایسا بنائو سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہوجائے ۔
lllll