یہ بات باعث اطمینان ہے کہ غیر منظم شعبہ سے وابستہ کام گاروں کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے متعلقہ حکام آج کل بار بار اجلاسوں کاانعقاد کررہے ہیں۔گوکہ عوام کو معلوم ہے کہ ایسے اجلاسوں سے کام گاروں کی حالت بہتر ہونے والی نہیں ہے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس طرح کے اجلاسوں سے کم از کم اس طبقہ کے مسائل و مشکلات نہ صرف زیر بحث آجاتے ہیںبلکہ ارباب اختیار ان کے ازالہ کیلئے منصوبے بناتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کام گار طبقے کے حقوق کی حفاظت کے لئے کئی قوانین موجود ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد نفی کے برابر ہے جس کے نتیجہ میں کام گار مسلسل پسے جارہے ہیں اوران کی حالت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ غیر ہوتی جارہی ہے ۔
ایک زمانہ تھا جب جموں وکشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص زرعی شعبہ کو چھوڑ کرغیر منظم شعبہ کے یہی کام گارمقامی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی تصور کئے جاتے تھے اوران کے بل پر ہی مقامی معیشت کا پہیہ چل رہا تھا مگر آج حالت یہ ہے کہ کام گاروں کا یہ طبقہ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہا ہے اور حکومت کی ناک کے عین نیچے اس طبقہ کا استحصال ہورہا ہے جسکے نتیجہ میں نہ صرف یہ طبقہ احساس محرومی کا شکار ہوچکا ہے بلکہ وہ اب اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
حکومت سینہ ٹھونک کر یہ کہتی ہے کہ جموں وکشمیر بلڈنگ اینڈ کنسٹریکشن ورکرس ویلفیئر بورڈ نے اب تک 4لاکھ سے زائد مزدوروں کا اندراج کیا ہے جنہیں تمام طرح کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں تاہم حکومت کو اس بات کا بھی اعتراف کرناچاہئے کہ غیرمنظم سیکٹر کے کارکنان کے حقوق کے تحفظ کیلئے 1996میں مرکزی حکومت کی سطح پر عمارتی و دیگر تعمیراتی ورکران کے روزگار اور کام کے حالات سے متعلق ایک قانون بنایا اور اس ایکٹ کی دفعہ18کے تحت کام گاروں کی بہبود کیلئے ایک فلاحی بورڈ کا قیام ناگزیر تھا لیکن سابق ریاستی حکومت کو پہلے تو اس قانون کے ضوابط تیار کرنے میں 10برس لگے اور2006میں ایس آر او232کے تحت رولز ترتیب دئے گئے۔ اس کے بعد اس قانون کی طر ف کسی نے نہیں دیکھا اور پھر چار سال بعد حکومت کو یاد آیا کہ اس قانون کے تحت مزدوروں کی فلاح وبہبود کیلئے ایک فلاحی بورڈ کی تشکیل لازمی ہے اور یوں2010میں محنت و روزگار محکمہ کے وزیر کی سربراہی میں ایک بورڈ تشکیل دیاگیا جس کا نام جموں وکشمیر بلڈنگ اینڈ کنسٹریکشن ورکرس ویلفیئر بورڈ رکھا گیا اور اس میں حکومت اور کام گاروں کو یکساں نمائندگی دی گئی۔ اس طرح یہ قانون بننے کے 14برس بعد بورڈ تشکیل پایا ۔خدا خدا کرکے بورڈ تو بنا لیکن عملی طور کچھ نہیں ہوا ۔ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایکٹ کی عمل آوری یا کارکنان کی بہبود کے لئے دیگر اسکیموں کے نفاذکیا عالم ہوگا؟۔
کہنے کو حکومت بہت کچھ کہہ رہی ہے اور خوب کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں تاہم عملی طور حالت یہ ہے کہ جن مزدوروںکے اندراج پر متعلقہ محکمہ فخر محسوس کرتا ہے ،اُن مزدوروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے اور وہ قانونی تحفظ میسر ہونے کے باوجود آج بھی ٹھیکیداروں اور سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر ہیں اوران کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ایسے میں یہ انقلابی قانون کب حقیقت کا روپ دھار لے گا ،اس بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور ایسے میں یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ کب کام گار طبقہ اس قانون سے مستفید ہوگا۔
غیر منظم سیکٹر کے ورکروں کی فلاح و بہبود کے لئے ہزار ہا کروڑ روپے بطور ٹیکس جمع کئے جاتے ہیں لیکن یہ رقوم خزانہ میں پڑی رہتی ہیں کیونکہ ان کے صرفہ کا کوئی ٹھوس بندو بست نہیں ہے اور اکثر شکایات یہ ہیں کہ جعلی کاغذات بنا کر محکمہ روزگار کا ایک مافیا ان رقوم کو ہڑپ رہا ہے جو اگر کام گار طبقہ پر صرف کئے جاتے تو شاید ان کا معیار زندگی بہتر ہوتا۔ایک طرف سب کیلئے تعلیم یقینی بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب اس بد نصیب طبقہ کے بچے آج بھی کارخانوں ،کوڑے دانوں اور اینٹ کے بٹھوں میں روٹی کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں ۔آخر یہ بچے کیسے سکول جائیں گے جب ان کے والدین کی معاونت کا کوئی بندو بست نہ ہو۔
آج کل اُن بچوں کی تعلیم کے انتظامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے جن کے والدین کام پر جاتے ہیں اور اس سلسلے میں مقام ِ کار پر ہی تعلیم کی فراہمی کی تجویز پیش ہورہی ہے لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ جس گھر میں ایسے بچے دو وقت کی روٹی کماپانے کاذریعہ بن چکے تو انہیں سکول کیسے لایا جاسکتا ہے ۔اگر ان بچوں کو حال کی تاریکیوں سے نکال کر روشن مستقبل کی جانب لے جانا ہے تو اس کیلئے ان کے گھروں میں دو وقت کی روٹی کا انتظام کر نا ہے تاکہ والدین بحالت مجبوری ان ننھے سے پھولوں کو سڑکوں کی خاک چھاننے کیلئے مجبور نہ کریں بلکہ ان کے کاندھوں پر کتابوں کے بستے لاد کر ہاتھ میں قلم دیں تاکہ وہ اپنے گھر اور والدین کی تقدیر بدل سکیں۔
تقاریر اور تحاریر بہت ہوئیں ۔اب عمل کا وقت آچکا ہے اور اگر آج بھی ہم نے محض تماشا دیکھ کر عمل نہ کیا تو آنے والے وقت میں کام گاروں کا طبقہ سماج کیلئے ایک بڑا ناسور بن جائے گا اور ایک ایسی کھیپ تیار ہوجائے گی جو باغیانہ ذہنیت کی ہوگی جن پرپھر قابو پانا بھی مشکل ہوجائے گا۔اس سے پہلے کہ وہ صورتحال درپیش ہو،ابھی بھی وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں اور کام گاروں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے جتن کریں تاکہ سماجی نابرابری کا کسی حد تک خاتمہ ممکن ہوسکے ۔