کیا میںپوچھ سکتا ہوں کہ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟
پوچھ تاچھ کے لئے!
پوچھ تاچھ؟
جی!کیسی پوچھ تاچھ اور کیوں ( کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد)
پر۔۔۔۔۔ پر مجھے دیر ہوگئی ہے مجھے گھر جانا ہے۔
آپ ہمارے چند سوالات کے جواب دیجئے اور گھر چلے جایئے۔
اچھا ٹھیک ہے پوچھئے کیا پوچھنا ہے۔
ہمیں شکایت ملی ہے کہ آپ عمارتِ عالیہ ( جو ہم سب کے لئے باعثِ تعظیم ہے) کے سامنے تھوکتے رہتے ہیں۔
نہیں تو۔
جی بالکل ہماری اطلاع کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔
پر۔
تھوک اور تھوکنا ایک فطری عمل ہے کبھی بھی کسی کو بھی یہ عمل کرنے کی ضرورت محسو س ہوسکتی ہے۔ بھلا اس میں میری کیا غلطی ہے۔
مگر کسی خاص اور مخصوص جگہ پر تھوکنا ۔۔۔۔۔ اور بار بار تھوکنا ۔۔۔۔۔اسکے کئی معنی اور مطلب نکلتے ہیں۔
مثلاً؟
مثال کے طور پر ۔۔۔۔خیر ابھی رہنے دیجئے پہلے یہ بتایئے کیا یہ سچ ہے
کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ شاید میں نے کبھی پریشانی کی حالت میں ایسا کیا ہو۔ جان بوجھ کر نہیں۔
پریشانی کی حالت میں؟
جی۔
کیسی پریشانی؟
وہ۔۔۔۔۔۔وہ کیا ہے کہ آجکل میں رات بھر سو نہیں پاتا۔
سو نہیں پاتا۔۔۔کیوں نیند نہیںآتی یا پھر بیوی سونے نہیں دیتی۔
ہا ہا ہا ۔۔سوری سوری بس یوں ہی مذاق میں کہہ دیا، ویسے آپ شادی شُدہ تو ہونگے۔ پولیس انسپکٹر پہلی بار کرسی سے اُٹھا اور اُسکی طرف بڑھا مگر اُسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔
تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ جان بوجھ کر یہ فعل نہیں کرتے مگر ہماری اطلاع کے مطابق آپ کو روز صبح اُس عمارت کے سامنے سے گذرتے ہوئے اور سہ پہر کو واپسی پر یہ گستاخی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ویسے آپ کام کیا کرتے ہیں ؟ انسپکٹر نے اپنے دونوں بازو ٹیبل پر رکھتے ہوئے اپنے جسم کا بوجھ اُن پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
وہ تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا۔
جب آپ کو یہ ساری اطلاعات ہیں تو آپ یہ بھی جانتے ہونگے کہ میں کام کیا کرتا ہوں۔
جی بالکل ۔ ہم آپ کے بارے میں سب کچھ جانتے ہے مگر ہم آپ کی زبان سے سُننا چاہتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا ۔ پھر اُس کی نظریں بائیں طرف زنگ آلودہ سلاخوں والی حوالات پر پڑی ۔ اندھیری کوٹھری ۔۔۔۔۔ وہ ڈر گیا۔اُسکے سارے بدن میں جھری جھری سے ہوئی۔
میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے۔ انسپکٹر غرّایا۔
جی میں ایک ملازم ہوں ، ایک پرائیوٹ کمپنی میں ۔ ویسے آپ اور کیا کیا مجھ سے سننا چاہتے ہیں۔
ویٹ ویٹ صبر رکھیں مسٹر ۔۔۔۔
ویسے آپ کا نام کیا ہے۔
امن دیوالیہ
کیا ؟کیا؟۔۔۔۔۔۔کیا کہا؟
جی امن دیوالیہ
تعجب ہے ایسا نام پہلی بار سُنا ہے جس میں دیوالیہ ساتھ جڑا ہو۔(انسپکٹر نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا )۔۔۔
یہ میرا نجی مسئلہ ہے ۔
اوکے ۔۔۔ اوکے ۔۔۔۔۔خیر کہاں رہتے ہیں آپ۔
شہر کے وسط میں (شہر خاص میں)
اس سے پہلے کبھی تھانے میں آنا ہوا ہے۔
جی نہیں۔
اس کا مطلب امن پسند شہری ہو آپ۔
آپ ایسا کہہ سکتے ہیں۔
کیا آپ جمہوریت کے حامی ہیں۔
خاموشی
تو پھر کیا آپ جمہوریت کے مخالف ہیں، انسپکڑ نے زور دیکر پوچھا ۔
خاموشی
جواب دیجئے کچھ تو جواب دیجئے آپ کی خاموشی آپ کے لئے مشکلیں پیدا کرسکتی ہے۔ (انسپکٹر تھوڑا غصے بھر ے لہجے میں )۔
جی۔۔ ۔۔ جی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کبھی اس کے بارے میں سوچا نہیں۔ اسی لئے وثوق یا اعتماد کے ساتھ کچھ کہہ نہیں سکتا۔
ٹھیک ہے۔
اچھا یہ بتایئے کبھی ووٹ ڈالا ہے (انسپکٹر نے ڈھنگ ذرا بدل کر سے پوچھنے کی کوشش کی۔)
میں اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔
اس نے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے کہا۔
اوکے جیسا آپ مناسب سمجھیں۔(انسپکٹر نے لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا)۔
امن دیوالیہ کو انسپکٹر کے چہرے پر ناراضگی دکھنے لگی تو جٹ سے بول پڑا۔
دیکھئے آپ ناراض مت ہوجایئے (اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے) اصل میں مجھے سیا ست کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
سیا ست ؟۔۔۔۔
جی سوری سیاست۔
مجھے کبھی بھی ان معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور کے انسان کا خدا سیا ہ ست دان ہے اور آئی ایم سوری سیاست دان ہی ہے کیونکہ عصر حاضر کے انسان کو لگتا ہے کہ اس کی تمام تر پریشانیوں کا ازالہ سیا ست دان ہی کرسکتا ہے، اسی لئے اُس پر آنکھیں بند کرکے حد سے زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ پھر وہی اُسے تباہی کے داہنے پر پہنچادیتا ہے۔موجودہ دور میں دیکھئے تو ہر سو جو تباہی نظر آتی ہے وہ انسان کے اسی فلسفے کا نتیجہ ہے کہ انسان سیاہ ست کو اپنا ایمان بنا بیٹھا ہے اور نتیجہ ہر سو تباہی اور بے یقینی ہے۔ نہ کہیں چین ہے اور ناہی سکون۔
آئی ، ایم اگین سوری ۔۔۔۔سیاست
ساری دُنیا کی فکر لگی ہے آپ کو ۔مسٹر امن دیوالیہ
جی نہیں بس یوں ہی کہہ دیا ۔ ویسے بھی میرا کہنا اور کرنا زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ میر ی شناخت کیا ہے ۔۔۔۔میں تو بس کاغذوں میں درج ایک نام ایک نشان ایک ہندسہ ہوں۔ اقوام متحدہ سے لیکر اپنے محلے کی کمیٹی تک صرف کاغذوں میں درج ایک نام ایک ہندسہ اور کچھ نہیں۔
اچھا تو دنیا سے بیزار ہیںآپ۔
اچھا یہ بتایئے آپ نے اپنی باتوں میں کسی پریشانی کا ذکر کیا تھا ۔ اور میں نے اُسے ہنسی مذاق میں ٹال دیا تھا۔
ویسے کیا پریشانی ہے آپ کو، انسپکٹر نے بڑی ہمددری اور فکر مندی سے پوچھا۔
کوئی خاص بڑی بات نہیں ، وہ کیا ہے کہ میں چند راتوں سے ٹھیک سے سو نہیں پارہا ہوں ۔
وہ کیوں؟؟ کوئی خاص وجہ؟
انسپکٹر نے جٹ سے پوچھا۔
وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے کمرے میں کچھ دنوں سے کوئی گھس آیا ہے۔
کون گھوس آیا ہے؟
جی۔۔۔۔۔ایک مچھر
ویسے آپ کو یہ بہت معمولی بات لگے گی او ر شاید ہے بھی لیکن میرے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ کہ چند روز سے جب بھی سونے کی کوشش کرتا ہوں وہ میری نیند میں خلل ڈالتا ہے میں جب آنکھیں بند کرتا ہوں وہ کانوں کے نزدیک آکر بین بجانا شروع کردیتا ہے اور میں اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہوںاور قوالوں کی طرح اپنے ہاتھ بجاتا رہتا ہوں اور میری بیوی خراٹے لیکر سوئی پڑی رہتی ہے۔
تو پھر ۔
پھرکیا، دن بھر اونگھتا رہتا ہوں۔ اونٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا ہوں اور کبھی کبھی لگتا ہے غش کھاکر گر پڑوں گا ۔ شاید ایسی ہی حالت میں کبھی کبھی مجھ سے ایسی کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو۔ (تھوکنے کی غلطی)
جان بوجھ کر تو با لکل بھی نہیں۔ آ پ میری حالت سمجھ سکتے ہیں۔
پر اس چھوٹی سی مشکل کے لئے تو کئی علاج ہیں۔ (انسپکٹرنے پھر مسکراکرکہا)۔
جی ہے تو سہی! بہت کوشش کی مگر ہر علاج ناکام رہا۔
اصل میں وہ بہت ہی چالاک بلکہ شاتر مچھر ہے ۔ جب کبھی میں اُ س کو مارنے کے لئے کوئی طریقہ آزماتا ہوں تو وہ پہلے سے بھی اور زیادہ چوکنا ہوجاتا ہے۔
خیر۔۔۔انسپکٹر نے لمبی آہ بھری اور ایک چھوٹی سی انگڑائی لیکر پوچھا۔
تو یہی ہے آپ کی پریشانی ۔
جی۔
اب!
تو اب کیا کرنا؟ انسپکٹر نے پوچھا۔
جی۔۔۔۔۔وہ کیا ہے کہ مجھے گھر جا نا ہے اور گھر جانے سے پہلے کچھ چیزیں بھی خریدنی ہیں۔
منی کے لئے فراک اور چھوٹو کے لئے سپورٹس شوز۔وہ اپنے ساتھ بڑ بڑایا۔
مجھے گھر جانے دیجئے پلیز۔ (اُسکے لہجے میں التجا تھی)۔
تو یہاںسے نکل کر آپ یہ چیزیں خریدنے جائیں گے۔
انسپکٹر نے کچھ حیرت سے پوچھا۔
جی۔۔۔ حضور بالکل ۔ کیوں؟
آپ کو کیا لگتا ہے مجھے یہاں سے نکل کر یہ سب چیزیں خریدنے کے بجائے کفن خریدنے جانا چاہئے۔(امن دیوالیہ کچھ بھڑک سا اُٹھا)۔
نہیں نہیں میں نے ا یسا تو نہیں کہا۔ انسپکٹر نے کچھ جھنجھلا کر جواب دیا اور ساتھ ہی کہنے لگا۔
وہ کیا ہے کہ آپ بڑے دلچسپ آدمی لگے اور آپ کی باتیں اورزیادہ بھی دلچسپ ہیں، ابھی آپ کو جانے دینے کا من نہیں کررہا ہے۔ اچھا یہ بتایئے ہماری اطلاع کے مطابق آپ کبھی کبھار آفس سے جلدی چھٹی کرکے چلے آتے ہیںایساکیوں۔(انسپکٹر پھر تحقیقاتی موڑ میںآیا)۔
حضور ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے تو نہیں جاتا۔
وہ کیا ہے کہ روز بنک جاتا ہوں، بنک سے قرضہ لینے کی غرض سے لیکن ابھی تک منظور نہیں ہوا۔
کیوں؟ کیوں منظور نہیں ہوا۔ انسپکٹر نے سوال کیا ۔
وہ کیا ہے صاحب جو کاغذات میں نے وہاں داخل کرائے ابھی نامکمل ہیں ۔ پھر بینک والوں نے کہا کچھ گروی رکھو۔
اب اپنا مکان گروی رکھنے جارہاہوں۔ ویسے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں اس وقت تو ہر شئے کی قیمت ہے بغیر انسان کے۔ اچھا ہوا میرے بجائے میرے مکان کی قیمت نکلی۔
ایک جیتے جاگتے انسان کی قیمت کچھ بھی نہیں ۔۔۔ خیر چھوڑیئے۔
جناب ۔۔۔جناب کیا میں گھر جاسکتا ہوں میں نے پہلے ہی کہا مجھے کچھ چیزیں خریدنی ہیں ۔ گھر پر سبھی انتظار کررہے ہونگے۔اس کے لہجے میں التجاء تھی۔( پھر اُس کی نظروں کے سامنے منی کا فراک اور چھوٹو کے سپورٹس شوز گھومنے لگے)۔
اچھا ٹھیک ہے۔انسپکٹر نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
لیکن خیال رکھنا ہماری نظریں آپ پر برابر ہیں۔ آئندہ خیال رکھنا کوئی بھی نازیبا حرکت تمہارے لئے مشکل پیدا کرسکتی ہے۔
انسپکٹر نے اُسے سمجھایا۔
جی۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔ بالکل۔۔۔۔ ضرور۔۔۔ ضرور
و ہ جلدی جلدی اُٹھا اور فوراً تھانے سے باہر نکل آیا۔ باہر سڑک پر آکر اُس نے اطمینان کی سانس لی۔ اُسکی دھڑکنیں اب معمول پر آنے لگیں اور اُسے قدرے سکون محسوس ہوا۔ کھلی ہوا میں آکر اُسے ا چھا لگا اور اُسے کسی حد تک راحت محسوس ہوئی اور وہ تیز تیز قدموں سے بازار سے گذرنے لگا۔ او ر من ہی من یہ سارا واقعہ یاد کرنے لگا اور انسپکٹر کی باتیں بھی ۔ بازار میں چلتے چلتے اُسے ایک بار پھر یاد آیا کہ اُسے منی کے لئے فراق لانا ہے او ر چھوٹو کے لئے سپورٹس شوز۔ وہ جلدی جلدی ان دکانوں کی تلاش میں لگ گیا، جہاں سے اُسے یہ چیزیں خریدنی تھیں۔ شام ہونے والی تھی۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ دھوپ کا زور ٹوٹ رہا تھا اُس کے ماتھے پر ا بھی بھی پسینہ پھوٹ رہا تھا، جسے وہ بار بار رومال کے بجائے اپنی آستین سے پونچھ رہا تھا۔ چلتے چلتے اُس کے قدم اچانک رُک گئے جب اُس کی نظر عمارت عالیہ ( جو بقول انسپکٹر کے سب کے لئے باعث تعظیم ہے) پر پڑی۔
پھر ۔۔۔۔پھر ۔۔۔۔ اُس کے قدم رُک گئے ۔ دماغ میں ایک عجیب قسم کی کھلبلی مچ گئی۔ اور اُسے اپنے اندر ہی اندر ایک شور سا محسوس ہونے لگا۔ شور بے انتہا شور، پر یہ شور کیسا وہ کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اسی شور میں اُسے انسپکٹر کی نصیحت یاد آئی۔ ہماری نظریں ہمیشہ آپ پر رہیں گی۔
اُسے لگا جیسے انسپکٹر دیکھ رہا ہے جیسے وہ کئیCCTV کیمروں کے بیچ کھڑا ہے۔ جہاں اُس کی ہر حرکت، ہر ایکشن ریکارڈ ہورہی ہے۔ اُسکے اردگرد چلتے پھرتے لوگ اُسے سب جاسوس لگ رہے تھے ۔ جو اُسکی حرکتوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پھر اُسے منی اور چھوٹو یا دآئے اور اُن کی چیزیں۔۔۔۔ فراک۔۔۔۔سپورٹس شوز
اُس کا سر گھومنے لگا اس کا سرپھٹا جار ہا تھا۔ اُسے کھڑے کھڑے عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اور پھر۔۔۔۔۔ اور پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ اچانک اُسکا منہ کھلااور ایک آواز گھونجی ’’ آخ تھو‘‘۔
رابطہ؛محلہ جامع قدیم سوپور
فون نمبر:9419031183
7780889616,8493914034