لیاقت علی جتوئی
کامیاب کاروباری افراد اپنے فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا راز ہے جسے جاننے کا ہر شخص آرزومند ہے۔ یقیناً کچھ عوامل ایسے ہیں، جن کو کاروباری فیصلہ کرنے سے قبل ہر شخص مدِنظر رکھتا ہے لیکن یہ عوامل ہر شخص کے لیے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مزید برآں، ایک فیصلہ کرنے سے پہلے کس حد تک ضروری معلومات سے آگاہی حاصل ہونی چاہیے، یہ بھی ایک قابلِ بحث بات ہے۔ آپ کا کاروباری فیصلے کرنے کا انداز چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروباری فیصلے لینا ایک پُرخطر عمل ہوتا ہے، کیونکہ آپ کا ایک غلط فیصلہ آپ کی برسوں کی محنت، ساکھ اور نیک نامی کو پانی میں ملا سکتا ہے۔
جیف بیزوس بین الاقوامی ای کامرس کمپنی کے بانی اور سی ای او ہیں، وہ دنیا کے امیرترین شخص ہیں اور دنیا بھر کے کاروباری سربراہان اور انٹرپرنیورز کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ ایسے میں اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ جیف بیزوس کاروباری فیصلے کس طرح لیتے ہیں تو یقیناً آپ کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہوگی۔
’’جس وقت آپ کو کسی بھی صورتِ حال سے متعلق مطلوبہ 70فی صد کے لگ بھگ معلومات موصول ہوجائیں تو اس وقت آپ کو اکثر کاروباری فیصلے کرلینے چاہئیں‘، جیف بیزوس کہتے ہیں، ’اگر آپ 90 فی صد معلومات حاصل ہونے کا انتظار کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ، زیادہ تر معاملات میں آپ فیصلہ سازی میں سست روی اور تاخیر کا شکار ہورہے ہیں‘‘۔
جیف بیزوس دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی کے مالک ہیں۔ اس کے ملازمین کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے، اس طرح یہ وال مارٹ کے بعدامریکا میں سب سے زیادہ نوکریاں فراہم کرنے والی کمپنی بھی ہے۔ جیف بیزوس فیصلہ سازی کے اس عمل کو ’ڈے وَن‘، ’کانسیپٹ‘ اور ’منترا‘کا نام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس بلڈنگ میں بھی اپنا دفتر بناتے ہیں، اس بلڈنگ کو ’ڈے وَن‘کا نام دیتے ہیں۔ ’’میں چاہے کتنی بھی عمارتیں بدلوں لیکن یہ نام میں اپنے ساتھ ہر جگہ لے کر جاتا ہوں‘‘۔ ’ڈے وَن‘ تصور کا ایک اصول ’تیز تر‘ فیصلے کرنا ہے۔ تاہم ’تیز تر فیصلے‘ لینا اس تصور کا واحد مقصد نہیں ہے۔جیف بیزوس کہتے ہیں، ’’آپ کو فیصلے کرنے میں اعلیٰ معیار اور موزوں وقت کو بہرحال برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ یہ اسٹارٹ اَپس کے لیےآسان اور بڑے اداروں کے لیے نسبتاً مشکل ہوتا ہے‘‘۔ آپ اپنے فیصلوں میں ’اعلیٰ معیار‘ اور ’موزوں وقت‘ کو کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں، جیف بیزوس کچھ راہنما اصول بیان کرتے ہیں۔
1- تقریباً یقینی (90فی صد ) معلومات حاصل ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے، مناسب معلومات (70فی صد) کے ساتھ کام کرنا سیکھیں۔
2- فیصلہ کرنے کے بعد غیریقینی صورتِ حال میں خود کو ڈھالنے کے لیے اپنے اندر لچک پیدا کریں۔ ’’کئی فیصلے قابلِ واپسی ہوتے ہیں، دو رویہ دروازوں کی طرح، جن سے گزر کر آپ واپس بھی آسکتے ہیں‘‘، جیف بیزوس کہتے ہیں۔ وہ فیصلے جن کو آسانی سے واپس لیا جاسکے، ان کے لیے ’لائٹ-ویٹ پراسیس‘ استعمال کریں۔ اس کے لیے آپ خود سے ایک سوال کریں: کیا ہوا اگر آپ نے ایک غلط فیصلہ لیا؟
3- کامل فیصلے کرنے کے لیے غلطیوں سے اجتناب برتنے کے بجائے ’غلط فیصلوں کی فوری نشاندہی کرکے انھیں درست کرنے پر مہارت حاصل کریں۔ اگر آپ چیزوں کو تیزی سے درست کرنے میں اچھے ہیں تو آپ کا غلط ہونا اتنا زیادہ معنی نہیں رکھتا جبکہ سست ہونا آپ کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے‘۔
4- بڑے فیصلوں (جنھیں واپس نہیں لیا جاسکتا اور ان کا صارفین، ملازمین یا آپ کے پارٹنرز پر برا اثر پڑسکتا ہے)، کا نقصان خود پر لیں اور آگے بڑھ جائیں۔ آپ کو ایک چیز پر یقین ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کے لیے اور کمپنی کے لیے مفید رہے گی، تو چاہے کمپنی میں اس پر اتفاق موجود نہ ہو، آپ کہہ سکتے ہیں کہ، ’دیکھیں، مجھے معلوم ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس بات پر اتفاق نہیں کرتا، لیکن کیا آپ میرے ساتھ یہ پرخطر کھیل کھیل سکتے ہیں؟ کیا اتفاق نہ کرنے کے باوجود آپ اس فیصلے میں میرا ساتھ دے سکتے ہیں، یعنی اتفاق نہ کرنے کے باوجوداس فیصلے میں اپنے پارٹنرز کی کمٹمنٹ حاصل کریں۔
جیف بیزوس کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرنے کے لیے معلومات حاصل کرکے اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے اپنے دل، وجدان، اور ہمت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ’’اگر آپ ایک فیصلہ تجزیے کی بنیاد پر کرسکتے ہیں تو آپ ایسا ضرور کریں۔ لیکن اکثر یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی زندگی کے سارے بڑے اور اہم فیصلے اپنے وجدان، مزاج اور دل کی بنیاد پر کرتے ہیں‘‘۔
جیف بیزوس نے 1994ء میں جس وقت اپنی ای کامرس کمپنی کی بنیادرکھی تھی، اس وقت ان کے ساتھ 10 لوگ کام کررہے تھے۔ ’’میری ای کامرس کمپنی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات میںمدمقابل کے بجائے صارف کو سرِفہرست رکھا ہوا ہے۔ ہمیں اپنے حریفوں پر نظر رکھنے کے بجائے ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ ہم اپنے صارفین کو کس طرح خوش اور مطمئن رکھ سکتے ہیں۔
مجھے وہ دن یاد ہے، جب صارفین کے ڈیلیوری پیکٹ میں خود پوسٹ آفس لے کر جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم فورک لفٹ کب خریدنے کے قابل ہوسکیں گے۔ آج یہ ایک بڑی کمپنی بن چکی ہے لیکن اس کے دل اور جذبے کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہتا ہوں، جیسے ابھی ابھی کاروبار شروع کیا ہو‘‘۔