جموںوکشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی جانب سے خستہ حال معیشت کو پٹری پر لانے کیلئے پہلے مرحلہ کے تحت 1300کروڑ روپے کا اقتصادی پیکیج صحیح سمت میں اٹھایاگیا بروقت قدم ہے۔تمام متعلقین کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعدامید کی جارہی تھی کہ حکومت تجارتی طبقہ کو ضرور کوئی راحت دے گی اور ویسا ہی ہوا بھی ۔اس پیکیج کے تحت سود کی ادائیگی کا جو بندو بست حکومت نے کیا ہے ،اُس پر یقینی طور پر کاروباری حلقہ خوش ہے کیونکہ انہیں واقعی راحت ملی ہے۔سود میں چھوٹ یا سود معاف کرنا دو وجوہات کی بناء پر اہم ہے۔ پہلا یہ کہ ریزرو بنک آف انڈیا پیکیج ،جس کے تحت فقط سود کی ادائیگی کو ٹالا گیا تھااور سود کی رقم مسلسل جمع ہوتی چلی جارہی تھی،کے برعکس اس پیکیج میں حقیقی راحت کا سامان ہے ۔لاک ڈائون کی وجوہات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے تجارتی طبقہ کے سود کا پانچ فیصد خود برداشت کرنے کا جو فیصلہ لیا ہے ،وہ مبنی بر انصاف ہے ۔اگر اوسط شرح سود 11سے12فیصد ہے تو اب قرضہ لینے والے کو صرف6سے7فیصد سود کی ہی ادائیگی کرناپڑے گی کیونکہ باقی حصہ سرکار خود ادا کرے گی۔یہ انتہائی اہم ہے ۔اس قدم سے نہ صرف کاروباری حلقہ کو اپناکاروبار بحال کرنے میں مدد ملے گی بلکہ جموںوکشمیر بنک کو بھی مدد ملے گی کیونکہ بنک پر اضافی بوجھ نہیں پڑے گا اور انہیں اپنے کھاتہ سے کھاتہ داروں کو کچھ نہیں دینا ہوگا بلکہ کھاتہ داروں کو جو بھی راحت ملے گی ،وہ حکومت کی طرف سے بنکوں کے ذریعے ملے گی۔
غور طلب ہے کہ اس اقتصادی پیکیج میں جو حتمی تاریخیںمقرر کی گئی ہیں ،وہ بھی بالکل جائز ہیںاور ایسا لگ رہا ہے کہ حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے سب کچھ کیاگیا ہے۔ایک حتمی تاریخ 31جولائی2019مقرر کی گئی اور یہ تاریخ بالکل5اگست 2019کے لاک ڈائون سے چند روز قبل ہی ہے۔اس سے لگ رہا ہے کہ حکومت نے واقعی اُن حالات کو دھیان میں رکھا ہے جن کی وجہ سے ہمارا کاروباری طبقہ کنگال ہوگیا ۔دہرانے کی ضرورت نہیں کہ 5اگست 2019سے ہی عملی طور جموںوکشمیر میں کاروبار اور تجارت ٹھپ ہے اور کاروباری و تجارتی طبقہ قرضوں تلے ڈوب چکا ہے ۔بہر کیف اس پیکیج سے یقینی طور اس طبقہ کو راحت ملنے کی قوی امید پیدا ہوچکی ہے تاہم اس پیکیج کی کامیابی کا انحصار اس کی کامیاب عمل آوری پر ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جموںوکشمیر بنک کس طرح پیکیج کے فوائد زمینی سطح پر کاروباری یا تجارتی طبقہ تک پہنچاتا ہے ۔اس کا انحصار اس پر بات ہوگا کہ جموںوکشمیر بنک اپنے کھاتوں کے ساتھ کیسے نمٹے گااور وہ سود کی ادائیگی میں علامتی تاخیر کو کس طرح لے گا۔
بہتر رہے گا کہ حکومت اس پیکیج کی عمل آوری کے طریقہ کار کو بھی خود ہی وضع کرے تاکہ بنک برانچوں کی سطح پر صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے۔فی الوقت چونکہ پیکیج کی عمل آوری کے حوالے سے کوئی بلیو پرنٹ سامنے نہیں لایاگیا ہے تو بنکوں کے برانچ منیجر اپنی صوابدید کے مطابق سرکاری حکم نامہ کی تاویلات پیش کر کے اپنی صوابدید کے مطابق ضابطے کو عمل میں لائیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ بات بالکل آئینے کی طرح صاف کی جائے تاکہ کنفیوژن کی ذرا بھر بھی گنجائش نہ رہے کیونکہ اگر کنفیوژن رہا تو نہ ہی متاثرہ طبقہ میں سے صد فیصد کھاتہ داروں کو راحت ملے گی اور نہ ہی بنک حکام اس پیکیج کو اس کی اصل روح کے مطابق عملا پائیں گے۔
ایک طبقہ سے اب چونکہ اس پیکیج کے تحت حکومت نے لو لگائی ہے اور اس منظم سیکٹر کو راحت دینے کی کوشش کی گئی ہے تاہم ابھی بھی ایک بڑا طبقہ حکومتی امداد کا منتظر ہے اور وہ ہے جموںوکشمیر کا غیر منظم سیکٹر ۔غیر منظم سیکٹر میں میں رسمی بینکاری نظام موجود نہیں ہے اور نہ ہی غیر منظم سیکٹر کے بنک قرضوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس یا منظم ریکارڈ موجود ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جموںوکشمیر کی معیشت میں غیر منظم سیکٹر کی بہت بڑی حصہ داری ہے اور معیشت کے پہئے کو چلانے میں یہ سیکٹر واقعی ایندھن کا کام کرتا ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ اس سیکٹر کی راحت رسانی کیلئے بھی کسی پیکیج کا اعلا ن کرے گا تاکہ اس سیکٹر سے وابستہ لوگوںکو بھی لگے کہ اُن کا بھی یہاں کوئی والی و وارث ہے۔