عبداللطیف تانترے
انسان جو کہ اللہ کے عطا کردہ بے شمار صفات کی بدولت دنیا میں اشرف المخلوقات کی عظیم منصب پر فائض ہے، ہمیشہ سے اپنے اندر ودیعت شُدہ مَلکۂ عبدیت کی بناء پر اپنے خالق و معبود سے جڑنے کا متمنی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی بسلسلہ رِسالت انسان کے لیے عبد و معبود کا یہ رشتہ قائم الدائم رکھنے کا بھرپور انتظام فراہم کر کے اُسے بندگی کی حقیقی ادائیگی کے لیے عقل شعور سے کام لے کر ابدی کامیابی کی ترغیب کا بندوبست بھی کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وجہہ تخلیق اِنس وجِن کو اپنی عبادت سے منسوب فرما کر اپنے بندوں سے حقِ بندگی کی ادائیگی کا تقاضہ فرمایا ہے۔ ایسے ہی حقائق سے سرشار مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ ؎
زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی
اگر ایک عام فہم انسان بھی عبد و معبود کے اس آفاقی رشتے کا فِکر و تدبر سے جائزہ لینے کی کوشش کرے گا تو اُسے بآسانی یہ ادراک حاصل ہوگا کہ معبود کی مخلوق سے بے نیازی کے دائرے میں مخلوق کی بندگی بھی شامل ہے اور بندگی کا محتاج خود بندہ ہی قرار پاتا ہے۔ اُسے پتہ چلے گا کہ بندگی میں جو خیر ہے، جو بھلائی ہے، جو دوام ہے، جو سکون ہے ، جو اطمینان ہے، جو سرور ہے، جو کمال ہے، جو عروج ہے، اُس سب کا احتیاج بندے کو ہے نہ کہ معبود کو ۔ اسی طرح غور فکر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سچے دل سے بندگی قبول کرنے والے کو بندگی کبھی گراں نہیں گزرتی بلکہ انسانی زندگی کے تمام تر مشاغل میں سب سے زیادہ لُطف وسرُور بندگی کی ادائیگی سے میسر آنا ایک متفقہ اصول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بندہ اپنی نیازمندی کا اظہار بے نیاز معبود و مطلوب کے سامنے کرتا ہے تو معبود کی بے نیازی کے صدقے وہ بھی اپنے غم و اَلم اور فِکر و اندیش سے بے نیازی حاصل کرتا ہے بقول علامہ اقبالؒ ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تخلیق آدم سے لے کر آج تک عبد و معبود کا یہ رشتہ کبھی یکسر منقطع تو نہیں ہوا، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ عبد کی بے اعتدالی اور بے حسی کی وجہ سے یہ رشتہ ارتقاءِ انسانی کے مختلف ادوار میں کمزور و قلیل سطح پر عرصۂ دراز تک محدود رہا ہے اور جب بھی بندگی کی ادائیگی میں کوتاہی اور تغافل سے انسان نے کام لیا ، انسانیت کو بھاری مشکلات و مصائب سے دوچار پایا گیا اور جب بھی ان مشکلات و مصائب کے بادل چھٹنے سے انسانیت کو بہار نصیب ہوئی تو رشتہ عبد و معبود کی استواری ہی موجبِ واحد رہی ہے۔ تاریخِ انسانی سے یہ بات بھی واضح ہے کہ بندگی میں بندوں کی طرف سے ہونے والی کوتاہیوں اور کمیوں کا سرزد ہونا بھی ایک فطری عمل ہے مگر ان کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے اور پھر سے بندگی کے قرینے میں آنےکی طلب کا مر جانا اصل تباہی اور ہلاکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تاریخ میں جس ملت و قوم نے اپنے آپ کو بندگی کے قرینے میں ڈال کر حقِ بندگی ادا کرنے کی کوشش کی ،اُس قوم و ملت کو حقیقی زندگی کا قرینہ پانے کے مقصدِ خاص سے نوازے جانے کا تحفہ بھی مرحمت ہوا ہے۔ لہٰذا اس امر ثابت کو دل و دماغ میں بسا کر انسان پر انفرادی یا اجتماعی بدحالی سے نا امید ہونے سے بچنے کے علاج کے ساتھ ساتھ ایک ضمانتی اسلوبِ کامیابی کا راز بھی کھل جاتا ہے ۔
اگرچہ دور حاضر میں انسان اپنے ارتقائی سفر کی بلند ترین چوٹی پر پہنچنے کا اعزاز رکھتا ہے مگر اس عروج کے سبب وہ عبد و معبود کے لازمی رشتے کی اہمیت و افادیت سے لا تعلقی کابھی مرتکب ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہترین مادی حصولیابیوں سے میسر آرام و آسائش کے باوجود انسان دورِ ماضی کی پُرامن و پُرسکون محنت و مشقت پر مبنی سادہ زندگی کی آرزوں کرتا نظر آرہا ہے۔ اُسے تلاش و جستجو ہے کہ وہ دورِ قدیم میں پائے جانے والے اطمینانِ قلب اور ذہنی سکون کے پیچھے کار فرما حکمت کو جانیں اور حقیقی اسلوبِ زندگی کی جھلک اپنی زندگی میں پا کر کھوئے ہوئے اطمینان و سکون سے ہمکنار ہو جائے ۔ لیکن بدقسمتی سے مادی آسائشوں کا عادی انسان فکری طور اصلی سکون و اطمینان کا متمنی ہو کر بھی استقامت کے ساتھ اس کے حصول کے لیے معذُور و ناتواں ثابت ہو رہا ہے۔ آج کے انسان کو اپنے عقل و شعور سے سجائی ہوئی دنیا کی چکا چوند نے اتنا اندھا بنایا ہے کہ وہ خالقِ حقیقی کو یا تو یکسر بھول چُکا ہے یا اس کی لامحدودیت کو محدود سمجھ کر عبد و معبود کے رشتے کو پامال کر کے اصل زندگی کو اپنے آپ موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ اُسے بندگی کا سودا سب سے زیادہ مہنگا اور سب سے کم فائدہ بخش نظر آرہا ہے، اُسے بندگی کو حقیقی معنوں میں سمجھنے سے اس لیے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تقاضۂ بندگی کی معرفت اُسے ناقابل عمل مشقت میں نہ ڈال دے۔ ایک طرف مادہ پرستی کی روِش پر گامزن انسان اپنی مادی ضروریات کی حصولیابی کے لیے آسمانوں سے باتیں کرنے والے پہاڑوں کو چیر کر راستے بنانے میں تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا، سمندروں میں بستیاں آباد کرنے میں تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا اور سیاروں اور سیارچوں پر ڈیرہ ڈالنے کی کوشش میں بھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا مگر دوسری طرف بے حد و حساب اِن نعمتوں کے عطا کرنے والے سے تعلق کی استواری کوبارِ گراں سمجھ کر مادہ پرستی سے بگاڑ کا نمونۂ اُتم ثابت ہو رہا ہے۔ اب جب کہ انسان اپنے اندر پیدا شدہ بگاڑ کے نتائج کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بگاڑ کے تدارُک کی اپنی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی دیکھ رہا ہے تو بچاؤ کی واحد راہ اختیار نہ کرنے کواس کے عقل و شُعور کی پستی کی انتہا سے تعبیر کرنا کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بالعموم تمام لوگ اور بالخصوص ہمارے علماء، فقہا ، ادیب، دانشور اور صحافت و تعلیم سے جُڑے لوگ اپنے انفرادی حلقوں کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی پلیٹ فارم کے ذریعے اس بگاڑ کے اسباب کی تشہیر کے ساتھ ساتھ حقیقی بندگی میں مضمر اس بگاڑ سے بچاؤ کا واحد حل بھی لوگوں کے دل و اذہان میں پیوست کرنے کی اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھائیں کیونکہ موجودہ دور میں عبد و معبود کے درمیان جو خلاء پیدا ہوا ہے، اس کی وسعت کے حساب سے دورِحاضر میں انفرادی اقدامات کے ساتھ ساتھ اجتماعی کاوشوں کی اَشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ متذکر بالا خصوصی ذمہ داران کو اپنے اوپر عائد اس ذمہ داری کو بھانپ کر تقریر و تحریر اور نشر و اشاعت جیسے تمام ابلاغی وسائل کو بروئے کار لا کر انسانیت کو عبد و معبود کے رشتے کی پاسداری کا درس دینا ہوگا، لوگوں کو بندگی سے ملنے والی ذہنی اور قلبی تراوت کے حصول کی اور راغب کرنا ہوگا اور موجودہ نہج پر قائم رہنے کے نتیجے میں متوقع تباہی سے بھی خبردار کرنا ہوگا ۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور کا انسان اس پاک رشتے کو بحال کرنے پر اَزحد مجبور ہے کیونکہ اس رشتے کی ناقدری سے پیدا شدہ بگاڑ ٹھیک کرنا اب انسانی بساط سے باہر ہو چکا ہے۔ اسکے علاوہ جو سب سے زیادہ فہم و ادراک میں لانے والی واضح اور غیر مبہم حقیقت ہے، وہ ہے معبود حقیقی کی رحمت کا دریائے بے کراں ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ ؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائے کسے رہروِ منزل ہی نہیں
جہاں بحیثیت مجموعی تمام عالم انسانیت کو درپیش مصائب و آلام سے بچنے کی فکر لاحق ہونی چاہیے ،وہی موجودہ امت مسلمہ کے لیے اپنی زبو حالی کی اور فکر مندی سے توجہ مرکوز کرنے کی گھڑی بھی دستک دے رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عبد و معبود کے رشتے کی ہر آن پاسداری ہی بندے کی دنیا و اخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے اور تو اور اس رشتے سے مناسبت کے بغیر بندے کے تمام افعال و افکار کسی قدر و قیمت کے حقدار بھی نہیں گردانے جاتے۔کیونکہ بندگی کا اسلامی تقاضہ وہ غلامی ہے، جس میں غلام کو اپنی مرضی و منشا کا کوئی اختیار نہیں بلکہ صرف اور صرف مالک و معبود کی مرضی و منشا پر چلنا مطلوب ہے۔ اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ایک صاحب ظرف بزرگ کے غلام کا واقعہ اکثر تصانیف و بیانات میں پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ وا قع میں جب مالک غلام سے اس کا نام پوچھتا ہے تو غلام جواباً کہتا ہے جس نام سے پکارو وہی میرا نام ہے، پوچھا گیا ایسا کیوں ؟ تو جواب ملا غلام کا بھی کوئی نام ہوتا ہے ۔اسی طرح مالک نے کھانے پینے ، پہناوے اور دیگر خواہشات و میلانات سے متعلق دریافت کیا تو جواب وہی آیا کہ جو مالک کی مرضی کھلائے، جو مالک کی مرضی پلائے اورجو مالک کی مرضی پہنائے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہمارا معبود و مالک اگرچہ بے نیاز ہے لیکن اپنے غلاموں اور بندوں سے کامل محبت رکھتا ہے ،اس کی شفقت و رحمت و مغفرت اپنے بندوں کے لیے بے قرار رہتی ہے ۔ وہ ہر رات کے آخری حصے میں اپنی شانِ کریمی کے مطابق آسمانِ دنیا پر جلوہ افروز ہوکراپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے کہ ہےکوئی جو مغفرت کا طلبگارہے، میں مغفرت کروں گا ، ہےکوئی جو ہدایت کا طلبگارہے ، میں ہدایت دوں گا، ہے کوئی جو رزق کی کُشادگی مجھ سے مانگے میں عطا کروں گا۔ اور تو اور اللہ کا فرمان حق ہے کہ جب بھی بندہ اُسے پکارے گا تو اُسے قریب پائے گا۔ اسلامی تعلیمات میں بندہ نوازی کا جو سب سے اہم ترین انعام و اکرام کا اسلوبِ رحم و کرم سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سچے دل سے توبہ کرنے والےبندے اپنی آخری سانس تک اپنے ربّ کو تَوّاب ورحیم پاتے ہیں۔ لہٰذا لازمی ہے کہ دورِ حاضر کے مسلمان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی حالت زار سے ابھر کر اگر اپنا کھویا ہوا مقام و مرتبہ بحال کرنا مطلوب ہے تو اسے تائب بن کر اپنے رب سے تعلقِ بندگی جوڑنا ہوگا اور اس کے فضل و کرم کا آسرا لے کر دنیا و آخرت میں اپنی بقاء کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کی بقاء کا طلبگار بننا ہوگا۔
رابطہ۔7006174615
[email protected]