سہیل سالم
بقول ڈاکٹر عامر سہیلؔ: یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ افسانچے کو سمجھنے کے لئے ہمیں فن افسانہ نگاری سے مدد لینے پڑے گی۔اس لیے دونوں اصناف افسانچہ اور افسانہ میں چند فنی چیزیں مشترک اہمیت کی حامل ہیں۔مثلا افسانویت،اسلوب و عنوان وغیرہ۔ کہانی ہو یا افسانہ،دونوں میں اول سے آخر تک یہ تجسس رہتا ہے کہ بالآخر کونسا نتیجہ بر آمد ہوگا۔اس بنیاد پر افسانچہ میں بھی پہلے لفظ سے آخری لفظ تک تجسس بر قرار رہتا ہے کہ ا ٓخر میں کیا ہوگا یا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ تجسس رہنا بھی چاہیے،لیکن یاد رہے افسانہ میں گرہ اس طرح نہیں چھپائی جاتی جس طرح افسانچے میں حھپائی جاتی ہے۔“(ماہنامہ۔۔فن زاد سر گودھا۔۔اپریل،2019۔ص۔۔96۔افسانچہ نگاری حدود و امتیازات)
ناول ،افسانے اور افسانچے میں معاشرے کا چہرہ نظر آتا ہے ۔افسانے اور افسانچے میں سماج کے کسی نہ کسی گہرے زخم کو موضوع بنایا جاتا ہے اور افسانہ نگار کسی واقعے کو اپنی تخلیقی توانائی سے کام لیتے ہوئے اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری کے وجود پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور پڑھنے کے دوران اسے اس کہانی میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے۔اگر اس طرح کے نقوش کہانی سے غائب ہو تو اسے معاشرے کا آئینہ نہیں کہا جاتا ہے۔فکشن نگار کی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ وہ کم لفظوں میں معاشرے کے اس درد کو اجاگر کرتا ہے جو معاشرے کے لئے لا علاج مرض بنا ہوا ہوتا ہے۔
جموں کشمیر کے فکشن نگار بھی اپنے معاشرے کی سماجی بیماریوں کو اجاگر کرنے میں محو نظر آتے ہیں ۔جن میں ڈاکٹر نذیر مشتاق کا نام بھی سر فہرست نظر آتا ہے ۔ڈاکٹر نذیر مشتاق کا یہ افسانچوں کا مجموعہ ’’سوچ‘‘2024 میں منصہ شہود پر آگیا اور اس سے قبل ان کا ایک اور افسانچوں کا مجموعہ “تنکے “اردو دنیا متعارف ہوچکا ہے ۔”سوچ” میں کل 146 افسانچے شامل ہیں ۔یہ افسانچے ہیں جو ہمیں قلیل وقت میں درد انگیز حالات و واقعات سے روشناس کراتے ہیں ۔بیشر افسانچوں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نذیر مشتاق نے سماجی بیماریوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔موجودہ دور میں جنت بے نظیر میں جس تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے اسے مشترکہ تہذیب کے نام سے جانا جاتا ہے ۔لوگ اپنی تہذیب و ثقافت کا قتل عام کر رہے ہیں ۔سماجی ذمہ داریاں اور تہذیبی اثاثہ ختم کیا جارہا ہے۔زندگی کی قدریں ایک نیا رنگ اپنا رہی ہیں ۔بقول ڈاکٹر نذیر مشتاق:
” پھر رات کو ڈنر پارٹی میں اپنے دوستوں کے ساتھ انجوئے کرنے لگا اس کی بیوی خصوصی ڈریس پہنے نوکروں کے ساتھ مل کر مہمانوں کی خاطر تواضع کر رہی تھی۔
پارٹی اپنے جوبن پر تھی ۔اچانک بشارت ملک کا ایک دوست لڑکھڑاتا ہوا آیا اور اس سے کہا،بشارت ملک کو where are your parents. بشارت ملک کو عجیب سا جھٹکا لگا مگر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا ،وہ اپنے آبائی گاؤں میں رہتے ہیں انہیں شہر کی زندگی پسند نہیں ہے ۔اس نے جھوٹ کہا تھا۔ اس کے ماں باپ اس وقت ایک خیراتی اسپتال میں تھے ماں آخری سانسیں گن رہی تھی اور اس کا شوہر بشارت ملک کا باپ صبح سے بھوکا اپنی بیوی کے سرہانے آنسو بہا رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔”(ص۔42)
انسان انسانی رنگ و نسل ،ذات پات ،زبان ،مذہب ،علاقہ اور تہذیب کے نام پر ایک نیا راستہ تیار کررہا ہے جس کی آخری منزل تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔انسانی ذات کے ان تمام اندرونی اور بیرونی مسائل کو ڈاکٹر نذیر مشتاق نے
بڑی خوبصورتی سے اپنے افسانچوں میں سمٹا ہے۔سچ کو قریب سے دیکھ کر انھوں نے جس طرح اپنے افہام و تفہیم پر قابو رکھتے ہوئے زندگی کی سچائیوں کو بے نقاب کیا ہے ،ان کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ حیات و کائنات کی ہر اک شے پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔”سوچ “میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
“ڈرائیور نے اسے اسپتال پہنچا دیا … اسے معلوم پڑا کہ اس کا بیٹا سڑک حادثے میں زخمی ہوا ہے ۔اس کی الٹرا ماڈرن بہو نے روتے ہوئے اس سے کہا ، آپ کے خون کا گروپ آپ کے بیٹے کے گروپ سے ملتا ہے آپ اپنے بیٹے کی زندگی بچائیے۔سلہ چاچہ نے بلا چوں و چرا خون ڈونیٹ کیا کسی پر یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ خون کس نے ڈونیٹ کیا ، اس کا بیٹا ہوش میں آیا مگر سلہ چاچہ بے ہوش ہو گیا ۔ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ سلہ چاچہ کوما میں چلا گیا ہے۔
اس کی بہو نے ڈاکٹر سے کہا یہ لیجیے آپ کا انعام خیال رہے کہ وہ کوما سے باہر نہ آنے پائے۔(ص..67)
ڈاکٹر نذیر مشتاق نے زندگی کے نشیب و فراز اور زندگی کی ناہمواریوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔انھوں نے معاصر مسائل کو اور نئی نسل کی سوچ اور نجی مجبوریوں کو تعلیمی اور سماجی نظام سے منسلک کر کے اسے ایک انوکھا روپ دے دیا ہے جس میں زندگی کے حقائق اور بدلتے ہوئے نظام کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے ۔اور ہر تعلیم یافتہ فرد اسی نئے نظام میں گرفتار نظر ہوا آتا ہے ۔ڈاکٹر نذیر مشتاق لکھتے ہیں:
“وہ دفتر میں اپنی نشست پر بیٹھا تھا ۔چپراس نے کافی کامگ اس کے سامنے رکھا اور کہا’’صاحب جی مجھے ایک گھنٹہ کے لئے اجازت دیں۔ مجھے اپنی بیٹی کے لیے انٹرنس فارم لانا ہے اس نے 2 10plus امتحان پاس کیا ہے ،وہ ڈاکٹر بنا چاہتی ہے ۔صاحب جی نے جواب دیا ’’ ارے یہ تو اچھی بات ہے۔‘‘
میری بیٹی نے بھی امتحان پاس کیا ہے اسکے لیے بھی ایک فارم لا نا …. یہ لو…. اس نے پانچ سو کا نوٹ چپراسی کی طرف بڑھایا مگر چرای نے مسکراتے ہوئے جواب دیا …. ” صاحب جی آپ کی بیٹی کے لیے فارم صرف ایک سو روپے میںملے گا . پانچ سو میں تو میری بیٹی کے لیے فارم ہے … میں بیک ورڈ نہیں ہوں نا۔”(ص۔78)
ڈاکٹر نذیر مشتاق نے اپنے افسانچوں میں ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاسی تبدیلی کو بھی افسانچوں کے قالب میں ڈھال کر ایک انوکھا تجربہ کیا ہے جسے اس ملک کی سیاسی صورت حال یا اس خطے کے دکھ اور درد کو محسوس کیا جاتاہے۔جہاں غم کی پرچھائی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے ۔بقول ڈاکٹر نذیر مشتاق:
“کونسلر نے مریض سے نام ، عمر ، ایڈریس، فیملی ہسٹری وغیرہ سب پوچھ کر سوال کیا ،اب آپ مجھے یہ بتائے کہ پہلی بار آپ کے دائیں کندھے اور سینے کے بیچ میں درد کب ہوا تھا۔ مریض چند لمحے خاموش رہا پھر کونسلر کی طرف دیکھ کر کہا اس دن سے جب میرے اکلوتے اکیس سالہ بے گناہ بیٹے کو والوں نےگولی مار دی اور مجھے اپنے بیٹے کے تابوت کو کاندھا دینا پڑا ۔کو نسلر نے سن کر فوری جواب دیا ”سوری میں آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکتا اور ہاں! آج سے آپ کوئی دوائی نہیں لیں گے آپ کا در دلا علاج ہے۔”(ص۔34)
اکیسویں صدی کے نئے مسائل ،نئی نسل کے نئے غم اور آس پاس کی بستیوں میں ویرانی کو ڈاکٹر نذیر مشتاق نے اپنے افسانچوں میں نئے انداز سے پیش کیا ہے۔ان کے کئی افسانچے ہمیں حیرت انگیز انکشافات سے آشنا کراتے ہیں جن میں گیت ،ماں،وفا،قانون،خواہش ،مجرم،وضو ،خواب،شک،درد،چرسی،لاش ،نا معلوم ،اندھے ،کاش،فیصلہ،خودکشی،دور اندیش ،بدلاو اور ویڈیو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ڈاکٹر نذیر مشتاق نے کسی مخصوص طبقے یا معاشرے کو اپنے موضوعات میں قید نہیں کیا ہے بلکہ سماج اور زندگی سے وابستہ ہر ایک مسائل کو خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی کامیابی سعی کی ہے۔ افسانچوں کے کردار اپنے ہی آنگن سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کے افسانچوں کی زبان اور اسلوب عام فہم ہے۔ڈاکٹر نذیر مشتاق کی “سوچ ” کا کینوس اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انھوں نے “سوچ” میں انسانی دکھ و درد کو ہی نہیں بلکہ عصری مسائل و مشکلات کو مختلف رنگوں میں پیش کر کے فکشن کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے ۔
(رعناواری سرینگر ،9103654553)
[email protected]