بخیر! یہ 1995کی بات ہے۔ میں اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ چھٹیوں میں واپس آیا تو پروفیسر نثار احمد فاروقی صاحب سے ملاقات کے لیے چلاگیا۔واضح ہو کہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے میںپڑھتے پڑھتے مدینے چلا گیا تھا۔ بی اے میں تعلیم کے دوران کسی صاحب کے توسط سے میںپروفیسر نثار فاروقی صاحب سے متعارف ہوا تو یہ تعارف بعد میں جب میں دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہوا تو استادی شاگردی کے تعلق میں بدل گیا اور پھر میرا ان کے ساتھ یہ تعلق ان کی وفات تک برابر قائم رہا۔ میں ان سے ملاقات کرکے ان کے گھر سے نکل ہی رہا تھا کہ انھوں نے مجھے ایک کتاب دی اور کہا کہ اس کا عربی میں ترجمہ کردو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک شعری مجموعہ ہے اور اس کے شاعر کا نام ڈاکٹر حنیف ترین ہے۔ وہیں کہیں سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کرانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا ایڈرس ہے اور فون نمبر۔ ان سے رابطہ کرلینااور اس کا ترجمہ کردینا۔
میں بی اے میں زیر تعلیم چھوٹا سا کم عمر طالب علم تھا۔ مگر فاروقی صاحب نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ تم اس کا ترجمہ کربھی سکوگے کہ نہیں۔ تمہارے پاس وقت بھی ہے کہ نہیں۔ شاید انہیں میری صلاحیتوں پر، میری بردباری اور میری فرماں برداری پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ تھا جو انہوں نے مجھ سے پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور جو کہا وہ تقریبا حکم کے انداز میں کہا۔ میں نے کتاب ہاتھ میں لی اور ان سے اجازت لے کر واپس آگیا۔
پروفیسر نثار احمد فاروقی کی زبان سے پہلی بار میں نے وہ نام سنا جس کے مسمی کو شعری وادبی دنیا میں ڈاکٹر حنیف ترین کے نام سے جانا جاتا تھا۔ میںمدینہ منورہ واپس پہنچاتو اپنی زنبیل سے اس کتاب کونکال کر اس کی ورق گردانی شروع کی۔ اس کتاب کا نام ’’کتاب صحرا‘‘ تھا۔ میں نے ڈاکٹر حنیف ترین صاحب کو فون کیا۔ پتہ چلا کہ وہ عرعر کے مرکز صحی (ہیلتھ سنٹر)میں ڈاکٹر ہیں۔واضح ہو کہ سعودی عرب کے ہیلتھ سنٹر یہاں کے ہسپتالوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا ترجمہ تو اچھے اچھے نہیں کرسکتے۔ آپ ہی بتائیے کہ’’بگولے، جنم کنڈلی،سسکنا،جھرجھری، اکھڑے اکھڑے ہونا،جسم وجاں کی نیلی پیلی وارداتیں،بنجر صحرا،ساون،کوئل کوک لگائے،جامن،جھینگر، الہڑ مسکانیں،اودی مست گھٹائیں،مرمری بانہوں،کچے آم کی کھٹی خوشبو،باندھ کے گھنگرو،پگڈنڈی،سوچ نگر، گھونسے لاتیں،تن من ڈولا،اس کو نچایا چھم چھم چھم،شیش محل،جھاجھر،نشیلی صبحیں،سلگتا سوال،نیل کمل، شمشان، صندل بدن،سلگتا سوال،اتراتی خوشبو،ماں کی لوریاں،ملگجی فضا،کریدنا،زعفران اوڑھے،بوڑھا چہرہ ، جھرّی،فون پر تھرکتی آوازکاسر پٹکنا،یقین کی گٹھری‘‘ جیسی لفظیات کا عربی میں ترجمہ کرنا میرے جیسے چھوٹے سے بچے کے لیے ممکن تھاکیا؟ میرا شعری شعور بھی ابھی نابالغ تھا۔ میں ان مذکورہ الفاظ کے عربی میں ہم معنی الفاظ سے بھی نہ آشنا تھا۔ اس شعری مجموعے میں موجود جدید ہیئت کے اشہار، ان کی لفظیات تراکیب دیکھ کرمیرا ماتھا ٹنک گیا۔ میں بہت بڑی آزمائش میں پڑ چکا تھا۔ ادھر پڑھائی کا یہ عالم تھا کہ ایک سمسٹر میں ایک ساتھ بارہ بارہ سبجکٹ شامل نصاب تھے۔ایک طرف امتحان کی تیاری اور دوسری طرف اس شعری مجموعے کا عربی ترجمہ۔یہ کام بہت کٹھن، مشکل اور کم وبیش میرے لیے ناممکن جیسا تھا مگر استاد گرامی پروفیسر نثار احمد فاروقی صاحب نے جس اعتماد کے ساتھ مجھے وہ کتاب ٹرانسلیشن کے لیے دی تھی اس اعتماد پر پورا اترنا میرے لیے ضروری بھی تھا۔
اس زمانے میں نہ تو انٹرنیٹ تھا، نہ سوشل میڈیا۔ میں یوینورسٹی لائبریری کے قسم اللغۃ الأجنبیۃ (غیر عربی کتابوں کے سکشن) میں گیا تووہاں مجھے کوئی اردو عربی ڈکشنری نہیں ملی جس سے مذکورہ بالا سخت الفاظ کا عربی متبادل تلاش سکوں۔ اس لیے میں نے اس کام کو ملتوی کردیا۔ ایک سال بعد جب میں ہندوستان واپس آیا تو سب سے پہلے میں نے مولانا وحید الزمان کیرانوی کی ڈکشنری القاموس الجدید(اردو عربی، عربی اردو) القاموس الاصطلاحی خریدی۔ مدینہ واپس گیا اور اس کتاب کے ترجمے کے بارے میں سر کھجانے لگا۔ یہ کتاب عام نثری کتاب نہیں تھی۔شعری مجموعہ سے عبارت تھی۔جس میں جدید اسلوب میں کہی گئی نظمیں تھیں۔ معا مجھے نقوش اقبال کا خیال آیا۔ میں اس کتاب کا اردو ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ چنانچہ میں نے اس کا عربی ورجن ’’روائع اقبال‘‘ بھی حاصل کیا۔علامہ اقبال کے اشعار کے ترجمے میں مولانا علی میاں کے اسلوب کوبہ نظر غائر دیکھا اور یہ سمجھے کی کوشش کی کہ علامہ کے اشعار کو مولانا نے کیسے ترجمہ کیاہے۔ ایک دو اور ترجمے بھی پڑھے۔ پھر میں نے اللہ کا نام لے کر ’’کتاب صحرا‘‘ کے ترجمے کا کام شروع کیا۔خدا خدا کرکے یہ ترجمہ مکمل ہوا اور پھر اسے میں نے ڈاکٹر حنیف ترین صاحب کو بھیج دیا۔ یہ ترجمہ کافی عرصے تک شائع نہیں ہوا۔لیکن ڈاکٹر صاحب مسلسل مجھ سے رابطے میں رہے۔ جو لوگ ان سے وابستہ تھے وہ جانتے ہیں کہ وہ بڑے خوش مزاج اور بے تکلف انسان تھے۔سب سے رابطے میں رہتے تھے۔ اور بہت سارے لوگوں کی طرح مجھے بھی وہ ہر عید الفطر اور عید الاضحی میں گریٹنگ کارڈ بھیجا کرتے تھے۔خط بھی لکھا کرتے تھے اور اس میں وہ ’’میرے پیارے شمس کمال انجم‘‘ سے مخاطب کیا کرتے تھے۔
کم وبیش دس سال بعد انہوں نے پھر کتاب صحرا کے حوالے سے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا’’ارے میرے پیارے بھائی! میری وہ کتاب چھپوادو۔ میں اسے منطقہ شمالیہ کے پرنس کو بھینٹ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا اب تو میں تھوڑا سا شعوری اعتبار سے آگے بڑھ گیا ہوں۔ آپ وہ مسودہ مجھے اصل کتاب کے ساتھ پھر سے بھیج دیں۔ میں اس پر از سر نو نظر ڈالتا ہوں۔ انھوں نے مجھے وہ مسودہ واپس کیا۔ میں نے اس ترجمے پر نظر ثانی کی۔کتاب میں موجود ایک نظم سے مستعار لے کر اس کا نام ‘‘بعیدا عن الوطن‘‘ رکھا۔’’ الدکتور حنیف ترین: شاعر الغربۃ والحنین‘‘ کے عنوان سے عربی میں پیش لفظ لکھا اور اسے ۲۰۰۷ ء میں شائع کروادیا۔
ڈاکٹر حنیف ترین کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ تعلقات کو نبھاتے تھے۔ ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے۔ بے انتہا خوش مزاج تھے ۔ اتنے کہ یہ خوش مزاجی اور بے تکلفی ان کی عظیم شخصیت کے لیے کئی بار ہانی کارک بھی ہوجاتی تھی۔ لیکن وہ اسی مزاج کے مالک تھے اور بغیر کسی تصنع اور تکلف کے وہ اس طبیعت کو زندگی بھر اوڑھے رہے۔
سعودی عرب ایک بہت بڑا صحرائی ملک ہے۔ اس صحرائی ملک کے ایک قصبے عرعر میں وہ بحیثیت ڈاکٹر تعینات تھے۔مگر انہوں نے اپنی حرکی اور فعال شخصیت ،اپنے شعری وادبی سرگرمیوں کے ذریعے عرعر کو پورے بر صغیر میں متعارف کرادیا۔ وہ جب تک وہاں رہے اردو شعر وادب کے امین بن کر رہے۔ میں سجھتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر کم شاعر اور ادیب زیادہ تھے۔ ان کی شخصیت میں میڈیکل کے ایک ماہرکا کم شعر وسخن کے ایک رمز شناس کازیادہ غلبہ تھا۔
ان سے میرا جو تعلق تھا وہ ہمیشہ مستحکم رہا۔یہ تعلق تقریبا پچیس برسوں پر محیط ہے اور ان کی وفات تک برقرار رہا۔ میں دہلی جاتا تھا تو ان سے ملاقات کی کوشش کرتا تھا۔ ان کی جب بھی کوئی کتاب شائع ہوتی تومجھے بذریعۂ ڈاک بھیجتے تھے۔ ایک بار یوں ہی چلتے ہوئے بٹلہ ہاؤس میں ملاقات ہوگئی تو وہ پرساد کمپلکس میں واقع فلیٹ میں لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی کوئی کتاب فرش پر پھیلی ہوئی ہے اور ایک آدمی انہیں لفافے میں سلیقے سے لپیٹ کر ان پر ایڈرس چپکا رہا ہے۔ اس طرح ان کی کتابیں پورے ملک کے شعراء اورادباء تک پہنچ جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’ابابیلیں نہیں آئیں ‘‘لکھی تو اسے انہوں نے کم وبیش تمام قابل ذکر شعراء اور ادباء کو بھیج کر ان سے اس پر ان کی رائے طلب کی۔اس قت میں دوحہ قطر میں مقیم تھا۔ وہ مجھ سے ہی نہیں میرے پورے خاندان سے ایسے واقف تھے جیسے کہ وہ قریبی رشتے دار ہوں۔ والد صاحب، سہیل صاحب، حماد صاحب سبھی سے ان کی شناسائی تھی۔ حنیف ترین پر شائع ہونے والے کتاب نما کے مخصوص شمارے کو سہیل انجم نے مرتب کیا تھا۔ حماد صاحب کو بھی وہ اکثر خط لکھتے رہتے تھے۔ اور حماد صاحب بھی ان کا جواب دیتے تھے۔حماد صاحب کا ایک خط میرے پاس ہے جسے میں نے مکتوبات حماد انجم میں شامل کیا ہے۔ جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔اس خط میں حماد صاحب نے حنیف ترین کی مشہور نظم وہ نہیں آئی کا زبردست جائزہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر حنیف ترین صاحب سے جب بھی بات ہوتی تو کہتے یار تم لوگ ایک ذہین خاندان کے افراد ہو۔ حماد صاحب کے انتقال پر بڑے ملول ہوئے اور کہا کہ ہم لوگ ایک بڑے شاعر اور نقاد سے محروم ہوگئے۔ اس آدمی کو اتنی جلدی نہیں جانا چاہیے تھا۔ اوران کے انتقال کے پانچ برس بعد خود بھی اسی صف میں شامل ہولیے۔
۲۰۱۸ء میںمیں یونیورسٹی کے یوم تاسیس کی مناسبت سے شعبۂ اردو کی طرف سے مشاعرہ کرنے کا پلان بنارہا تھا۔میری ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے میں کشمیر جارہا ہوں۔ تمہاری یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے جاؤں گا۔ میں نے کہا میں ایک مشاعرہ کرنے جارہا ہوں۔آپ آئیے اور مشاعرے میں شرکت کرکے جائیے۔ چنانچہ انہوں نے میری درخواست کو بخوشی قبول کیا اور وہ یہاں اپنی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر شمیم کے ساتھ تشریف لائے۔محفل کو اپنے فکر وفن سے زعفران زار کیا۔بہت ساری غزلیںسنائیں اورطلبہ وطالبات کو اپنے فکروفن سے محظوظ کیا۔ان کے ساتھ دہلی سے میرے دوست مشہور شاعر حبیب سیفی بھی مشاعرے میں شریک ہوئے تھے۔ شام کو راجوری کی مشہور شخصیت، ماہر تعلیم، مدبر منتظم، شاعر ادیب جناب فاروق مضطر صاحب کے یہاں ان کے اعزاز میں عشائیہ اور ایک شعری نشست کا اہتمام کیاگیا۔خوب صورت پر تکلف ادبی وشعری محفل رہی۔ بارہ بجے شب میں ان کے یہاں سے واپسی ہوئی اور پھر دسرے روزوہ سری نگر کے لیے روانہ ہوگئے۔
حنیف ترین بہت بڑے لکھاری تھے۔ وہ مسلسل لکھتے رہتے تھے۔اور نئی نئی راہیں نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ان کے فکر وفن پر پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، وزیر آغاجیسے بڑے بڑے ادباء اور نقاد نے اظہار خیال کیا ہے۔ وہ ایک معتبر شاعر اور ادیب تھے۔کافی دنوں سے ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا پر نظر نہیں آرہے تھے۔ مجھے تشویش تھی ۔میں انہیں فون کرنا چاہتا تھا کہ انہی دنوں پھر ان کے مضامین کشمیر عظمی میں نظر آنے لگے اور پھر میں سمجھا کہ سب معاملہ ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر صاحب بخیر ہیں۔ ا ن سے میری سب سے آخر ی ملاقات دہلی میں ۲۰۱۸ء میں برادر محترم جناب سہیل انجم صاحب کے یہاں ایک نشست میں ہوئی۔ ڈاکٹرصاحب خوداس نشست میں تشریف لائے تھے اور اپنا کلام بھی سنایا تھا۔ گذشتہ جمعہ کو ان کے ہی فیس بک وال پر ان کے اچانک انتقال کی خبر پڑھ کر یقین نہیں آیا۔اس خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں لرز سا گیا۔ آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ دل ملول ہوگیا۔ جمعہ پورا دن میں غم کے مارے اداس رہا۔ ڈاکٹر حنیف ترین صاحب سے بڑی قربت رہی۔ اس لیے ان کے انتقال سے ذاتی طور سے مجھے صدمہ پہنچا۔ میں رب العزت سے دعا گوہوں کہ وہ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
رابطہ۔صدر شعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیزبابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری