لیاقت علی جتوئی
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے (SMEs) اور درمیانے درجے کی کمپنیاں بہت سے ممالک کی معیشتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا ہمیں ان کی کامیابی کو یقینی بنانے اور دنیا کے سب سے بڑے اور انتہائی اہم مسائل پر ان کے اثرات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
مجموعی کمپنیوں میں 90فی صد چھوٹی کمپنیاں ہوتی ہیں اور دنیا بھر میں تقریباً 70فی صد ملازمتیں اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) ان ہی کی مرہونِ منت ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر کی جانے والی حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے 67فی صد کمپنیاں اپنی بقاء کی جنگ کو اپنا سب سے بڑا چیلنج قرار دیتی ہیں۔ان کمپنیوں پر گہری نظر ڈالتے ہوئے، جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ شاید حیران کن نہیں ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی SMEs اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کی مستقبل کی تیاری کے حوالے سے جاری کردہ حالیہ سالانہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے کاروباری اداروں کے پاس عالمی، علاقائی اور مقامی معیشتوں میں وسیع پیمانے پر ترقی، جدت اور پائیداری کو ممکن بنانے کے لیے مطلوب ضروری صلاحیتیں موجود ہیں۔ موجودہ حالات اس صلاحیت کو اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔
عالمی ہنگامہ آرائی اور SMEs صنعتیں :
کووڈ۔19 کے بعد کا دور لوگوں کے خدشات سے کہیں زیادہ چیلنجنگ ثابت ہوا ہے۔ بڑھتا ہوا جغرافیائی سیاسی تناؤ، توانائی کا بحران، رسد کے نظام میں خلل، کمر توڑ ریکارڈ مہنگائی کی شرح اور موسمیاتی تبدیلی ان واقعات میں سے چند ایک ہیں جو آنے والی دہائیوں کو مشکل بنا دیں گے۔SMEs اور درمیانے درجے کی کمپنیاں اکثر اس طرح کی ہنگامہ آرائی کی صف اوّل میں ہوتی ہیں۔
درحقیقت، ایک اندازے کے مطابق کووِڈوبائی مرض کے جھٹکے کے بعد دنیا بھر میں ایک تہائی چھوٹے کاروبار مستقل طور پر بند ہو گئے۔ ایسے میں ان اداروں کی تمام تر توجہ صرف اپنی بقاء پر ہی مرکوز رہی، بجائے اس کے کہ وہ دورِ جدید کی ضروریات کے مطابق خود کو اَپ گریڈ کرتے ہوئے طویل مدت میں ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچیں۔
رپورٹ کے مطابق، SMEs اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کے 67فی صد ایگزیکٹوز کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بقاء اور توسیع ہے۔ مزید برآں ان میں سے تقریباً نصف ایگزیکٹو ٹیلنٹ کو اہم چیلنجوں میں سے ایک کے طور پر بتاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، صرف 25فی صد ایگزیکٹوز کی توجہ ٹیکنالوجی اور اختراع پر رہی اور صرف 7فی صد نے پائیداری کو ایک اہم چیلنج کے طور پر بتایا۔ ایسے میں سب سے اہم سوال جو ہمیں پوچھنا چاہیے وہ ہے: کس طرح چھوٹی کمپنیاں نا صرف اپنی بقا کو یقینی بنا سکتی ہیں بلکہ اپنی طویل مدت کامیابی اور مستقبل کی تیاری کو یقینی بنانے کے لیے اپنی منفرد صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں بھی ہیں؟SMEs اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کے لیے مستقبل میں کامیابی کے لیے تجویز کردہ حکمتِ عملی کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے (SMEs)کے کاروبار اور درمیانے درجے کی کمپنیاں درج ذیل تین صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرکے خود کو مستقبل کے لیے تیار کرسکتی ہیں۔
طویل مدتی نمو:جدید کاروباری ماڈلز، مصنوعات اور/یا خدمات کے ذریعے دیرپا مالی طاقت پیدا کرنے کی صلاحیت۔
معاشرتی اثرات: نہ صرف ممکنہ مثبت اور منفی دونوں خارجی عوامل کو حل کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے کاروباری نتائج معاشرے کو ماحولیاتی، سماجی اور گورننس کے اہداف کے مطابق مثبت انداز میں متاثر کرتے ہیں۔
ڈھل جانے کی استعداد:اعلیٰ سطح کی ڈھانچہ جاتی مضبوطی اور چستی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا، کمپنی کو مشکل وقت سے نکالنے، مواقع کی بروقت نشاندہی کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنانا، اور مستقبل کے کاروباری ماڈلز میں تغیر لانا۔
یہ تینوں مہارتیں نہ صرف انہیں ترقی کی منازل طے کرنے کے قابل بنائیں گی بلکہ ہماری عالمی، علاقائی اور مقامی معیشتوں کی ترقی، جدت اور پائیداری کی نوعیت کو بھی کامیابی کے ساتھ تشکیل دیں گی۔
مستقبل کی تیاری اور کارپوریٹ حکمت عملی :
مستقبل کی تیاری کی صلاحیت پیدا کرنے کو ایڈہاک اقدامات کے طور پر تیار نہیں لیا جانا چاہیے، بلکہ اس کے بجائے کلیدی کارپوریٹ حکمت عملیوں اور فیصلہ سازی کے عمل میں ترجیحاً شروع سے ہی شامل ہونا چاہیے تاکہ یہ فلاسفی کمپنی کی بنیاد میں شامل ہوجائے۔ موجودہ سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے، یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ نئی چیزوں کو اپنانے کی استعداد، لچک و طاقت اور چستی، چھوٹی کمپنیوں کی مستقبل کی تیاری میں، خاص طور پر غیر مستحکم اور غیر یقینی ماحول میں اہمیت کی حامل صلاحیتیں ہوسکتی ہیں۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ SMEs اور درمیانے درجے کی کمپنیاں، بڑے حجم کی حامل کمپنیوں کے مقابلے میں کم لچکدار ہوتی ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں وہ بہت زیادہ چستی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔