مسعود محبوب خان
زندگی کے سفر میں ہر انسان ایک ایسے چراغ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے تاریکیوں میں روشنی عطا کرے، گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دے اور تھک جانے کے بعد آگے بڑھنے کی تحریک دے۔ یہ چراغ کچھ اور نہیں بلکہ انسان کا اندرونی جذبہ، عزم اور حوصلہ ہے، جسے ہم ’’چراغِ جاں‘‘کہہ سکتے ہیں۔ ’’چراغِ جاں‘‘ ہر انسان کے وجود کا وہ پہلو ہے جو اسے زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں میں حوصلہ دیتا ہے۔ یہ اندرونی روشنی جو ہمارے عزم و ارادے اور ایمان سے جُڑی ہوتی ہے، ہمیں گرنے کے بعد سنبھلنے، تھکنے کے بعد آگے بڑھنے اور اندھیروں میں امید کے چراغ روشن کرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔زندگی کے اس سفر میں اگر انسان اپنے اندر موجود ’’چراغِ جاں‘‘ کو محفوظ رکھے اور اسے ایندھن فراہم کرتا رہے تو وہ سب سے مشکل راستے بھی آسانی سے طے کر سکتا ہے۔ حوصلہ انسان کے اندر موجود وہ طاقت ہے جو اسے شکست کے اندھیروں سے نکال کر فتح کی روشنی میں لاتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو ہر مشکل گھڑی میں راستہ دکھاتی ہے۔ جب انسان کے ارد گرد مایوسی اور ناکامی کے سائے گہرے ہو جاتے ہیں تو یہ چراغِ جاں ہی ہے جو امید کی کرن پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے:’’رُکو نہیں، چلو، زندگی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘
حوصلہ ہی وہ قوت ہے جو انسان کو تھک جانے کے بعد آگے بڑھنے کی ہمت دیتی ہے، شکست کے اندھیروں میں روشنی کی امید جگاتی ہے اور مایوسی کے طوفان میں کشتی کو پار لگاتی ہے۔ حوصلہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک طرزِ فکر ہے۔ یہ انسان کے اندر یقین پیدا کرتا ہے کہ مشکلات اور ناکامیاں عارضی ہیں اور ہر رات کے بعد سویرا آتا ہے۔ حوصلہ انسان کو بتاتا ہے کہ رُکنا نہیں ہے، کیونکہ ہر قدم ہمیں ہماری منزل کے قریب لے جاتا ہے، جیسا کہ کسی نے خوب کہا ہے: ’’حوصلہ وہ چراغ ہے جو جلتا رہے تو انسان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔‘‘ زندگی کی ہر مشکل کے بعد ایک آسانی ہے اور حوصلہ ہی وہ طاقت ہے جو انسان کو اس آسانی تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔
ایمان اور یقین: اللہ پر یقین اور اپنے مقصد کی سچائی پر ایمان حوصلے کو تقویت دیتا ہے۔ ایمان اور یقین ایک انسان کی زندگی میں حوصلے اور استقامت کے بنیادی ستون ہیں۔ اللہ پر یقین رکھنے سے نہ صرف انسان کا دل سکون پاتا ہے بلکہ اسے ہر مشکل وقت میں طاقت اور حوصلہ بھی ملتا ہے۔ اس کے ساتھ اپنے مقصد کی سچائی پر ایمان انسان کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے درکار جوش اور جذبہ فراہم کرتا ہے۔جب انسان اللہ کی قدرت اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، تو وہ مشکلات کو آزمائش سمجھ کر ان کا سامنا صبر و ہمت سے کرتا ہے۔ یہی یقین اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ اللہ کی مدد ہر وقت اس کے ساتھ ہے، بشرطیکہ وہ اپنے ارادے میں خلوص اور اپنی کوشش میں لگن رکھے۔
مثبت سوچ: مثبت سوچ انسان کے اندر امید پیدا کرتی ہے اور حوصلے کو جلا بخشتی ہے۔ مثبت سوچ انسانی زندگی میں ایک طاقتور محرک کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ سوچ انسان کے دل و دماغ کو منفی خیالات اور مایوسی سے پاک کرتی ہے اور اسے ہر مشکل صورتحال میں امید کی کرن دکھاتی ہے۔ مثبت سوچ کا مطلب یہ نہیں کہ مسائل کا انکار کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ انسان مشکلات کے باوجود ان کا حل تلاش کرنے پر یقین رکھے۔جب انسان مثبت سوچ رکھتا ہے، تو وہ اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتا ہے اور انہیں کامیابی کی سیڑھی بناتا ہے۔ اس کی سوچ اسے بتاتی ہے کہ ہر اندھیری رات کے بعد سویرا ہوتا ہے اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ یہی سوچ اس کے حوصلے کو جلا بخشتی ہے اور اسے آگے بڑھنے کی ہمت عطا کرتی ہے۔ نبی کریمؐ نے ہمیشہ مایوسی کو گناہ اور امید کو ایمان کا حصّہ قرار دیا۔ آپؐ کی زندگی اس بات کا بہترین نمونہ ہے کہ مثبت سوچ اور امید کے ذریعے کس طرح مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مثبت سوچ انسان کے کردار کو نکھارتی ہے اور اس کی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بناتی ہے۔
خود اعتمادی: خود پر یقین اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک انسان کو مضبوط بناتا ہے۔ خود اعتمادی انسان کی شخصیت کا ایک لازمی جز ہے جو اسے زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ جب انسان کو خود پر یقین ہوتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہوتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال قائم کرتا ہے۔ خود اعتمادی انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتا ہے اور کسی بھی صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے بھی خود اعتمادی کی بہت اہمیت ہے۔ قرآن مجید ہمیں اپنی ذات پر بھروسہ کرنے اور اللہ کی مدد پر یقین رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ میں ہمیں خود اعتمادی کے بے شمار نمونے ملتے ہیں، جہاں آپؐ نے اپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اللہ کی مدد کے ساتھ مشکلات کو عبور کیا۔ خود اعتمادی ایک انسان کو مضبوط بناتی ہے اور اس کے اندر کامیابی کے لیے درکار حوصلہ اور لگن پیدا کرتی ہے۔ یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر ہم اپنی کوششوں پر یقین رکھیں اور درست سمت میں محنت کریں تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔
ناکامیاں دراصل زندگی کے سبق ہیں۔ ان سے سبق لینا اور آگے بڑھنا ہی اصل کامیابی ہے۔ زندگی کے واقعات خاص طور پر ناکامیاں ہمارے لیے اہم سبق چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ ناکامیاں نہ صرف ہماری کمزوریوں کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ ناکامی کو ایک ناکامی سمجھ کر مایوس ہونے کے بجائے اگر اسے ایک سبق سمجھا جائے تو یہ کامیابی کی طرف پہلا قدم بن سکتی ہے۔ زندگی میں ناکامیوں سے سبق لینا دراصل خود احتسابی اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا عمل ہے۔ یہ عمل انسان کو خود آگاہی کی طرف لے جاتا ہے اور اسے بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات بھی ہمیں مشکلات اور ناکامیوں سے گھبرانے کے بجائے ان سے سبق لینے کی تلقین کرتی ہیں۔ قرآن میں کہا گیا ہے: ’’بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (سورۃ الشرح 6)۔ نبی کریمؐ کی زندگی میں بھی کئی مواقع ایسے آئے جب بظاہر ناکامی نظر آتی تھی، لیکن ان سے سیکھ کر آپؐ نے مزید عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل کامیابی وہی ہے جو انسان ناکامیوں سے سیکھ کراپنی اصلاح کرتے ہوئے اور مضبوط ارادے کے ساتھ آگے بڑھ کر حاصل کرتا ہے۔ یہ رویہ زندگی کے ہر پہلو میں کامیابی کا زینہ بن سکتا ہے۔اسلامی تاریخ ایسے بے شمار عظیم افراد کے کردار اور قربانیوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت، حق کی سربلندی اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے وقف کر دیں۔نبی کریمؐ کا صبر و استقامت، مکّہ کے دشوار حالات، طائف کے ظلم اور مدینہ کی مشکلات میں آپؐ کا حوصلہ ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی استقامت اور قربانی ہمیں بتاتی ہے کہ ایمان اور دوستی کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ انہوں نے اپنے مال و جان سے دین اسلام کی خدمت کی اور نبی کریمؐ کے ہر قدم پر معاون و مددگار رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایک قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا محافظ ہو اور ہر شخص کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے، خواہ وہ کتنا ہی بڑا یا چھوٹا کیوں نہ ہو۔
حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسے کردار خواتین کے لیے روشن مثال ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف اسلام کی پہلی پیروکار بن کر نبی کریمؐ کا ساتھ دیا بلکہ اپنے مال و دولت سے دین کی مدد کی۔ حضرت فاطمہؓ کا صبر، تقویٰ اور خاندانِ نبوت کے لیے قربانی آج بھی خواتین کو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ حضرت حسینؓ کا واقعہ کربلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حق کے لیے ڈٹ جانا اور باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کرنا اسلام کی اصل روح ہے۔ ان کی قربانی رہتی دنیا تک انسانیت کو یہ پیغام دیتی رہے گی کہ عزت اور حق کے لیے جان دے دینا بہتر ہے بجائے اس کے کہ ظلم کو قبول کیا جائے۔یہ روشن کردار ہمیں بتاتے ہیں کہ ایمان، صبر، قربانی اور اصولوں پر قائم رہنے سے انسان تاریخ میں امر ہو سکتا ہے اور حق و صداقت کی راہ میں آنے والی مشکلات کو عبور کر سکتا ہے۔
چراغِ جاں کو روشن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں۔ منفی خیالات، مایوسی، اور خوف اس چراغ کی روشنی کو مدھم کر سکتے ہیں۔ حوصلے کا چراغ وہ روشنی ہے جو زندگی کے اندھیروں میں ہمیں راستہ دکھاتی ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ روشنی ہماری زندگی میں امید، طاقت اور مقصدیت کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن یہ منفی خیالات، مایوسی اور خوف کے زیر اثر مدھم ہو سکتی ہے۔ اس روشنی کو برقرار رکھنے کے لیے درج ذیل اقدامات نہایت مؤثر ہیں۔
مثبت سوچنے والوں کے ساتھ وقت گزارنا ہمارے اردگرد موجود لوگ ہمارے خیالات اور جذبات پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والے افراد ہمیں حوصلہ دیتے ہیں، ہماری طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیں بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ہمارے دل و دماغ میں نئی توانائی پیدا ہوتی ہے اور ہم منفی خیالات سے بچ سکتے ہیں۔ حوصلہ افزا مواد کا مطالعہ اور سماعت، حوصلہ افزا کتابیں، تقریریں اور تحریریں انسان کے اندر نئی روح پھونکتی ہیں۔ یہ مواد ہمیں اپنے اندر چھپے امکانات کا ادراک دلاتا ہے اور ہمیں زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ ایسی کتابیں اور کہانیاں، جو کامیابی، صبر اور استقامت کے اسباق دیتی ہیں۔
دعاء اور عبادت کے ذریعے سکون حاصل کرنا، اللہ سے تعلق قائم رکھنا اور دعا و عبادت کے ذریعے اپنے دل کو سکون دینا حوصلے کو زندہ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عبادت سے انسان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ ایک بڑی طاقت اس کے ساتھ ہے۔ یہ یقین خوف کو ختم کرتا ہے اور مایوسی کو امید میں بدل دیتا ہے۔ اپنے خیالات پر قابو پانا، خود احتسابی کے ذریعے اپنے خیالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جیسے ہی کوئی منفی سوچ پیدا ہو، اسے مثبت سوچ سے بدلنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کام میں ناکامی کا خوف ہوتو اس کے مثبت پہلوؤں پر غور کریں اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھیں۔ جب ہم چھوٹے چھوٹے اہداف حاصل کرتے ہیں تو یہ ہماری خود اعتمادی اور حوصلے کو بڑھاتا ہے۔ یہ روشنی ہمارے اندر امید کی کرن جگاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس روشنی کو مدھم ہونے سے بچانے کے لیے ان عملی اقدامات کو اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں اور ہر لمحے اپنی ذات کو بہتر بناتے رہیں۔
زندگی کی راہ میں طوفان، اندھیرے اور مشکلات ہمیشہ موجود رہیں گے، لیکن ان کے سامنے ہمارا چراغِ جاں ہی وہ روشنی ہے جو ہمیں گمراہی سے بچا سکتی ہے اور ہماری منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ یہ روشنی محض ایک داخلی قوت نہیں بلکہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ہمیں مایوسی کے گرداب سے نکالتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ ہر رات کے بعد سویرا ہے، ہر اندھیرا روشنی کا پیش خیمہ ہے۔ ’’حوصلے کی روشنی دوسروں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن سکتی ہے‘‘، حقیقت میں زندگی کے اصل فلسفے کو بیان کرتا ہے۔ ایک مضبوط اور پُرعزم انسان نہ صرف اپنی کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی امید اور رہنمائی کا سبب بنتا ہے۔ جیسے ایک چراغ اپنے اردگرد کی تاریکی کو ختم کرتا ہے، ویسے ہی حوصلہ مند لوگ اپنی روشنی سے دوسروں کی زندگیوں کو منور کرتے ہیں۔
زندگی کی مشکلات کو اپنے حوصلے پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اپنے اندر یقین، دعا، اور عزم کو زندہ رکھیں۔ اپنی روشنی کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ کسی کی مدد، کسی کو امید دلانا اور کسی کو حوصلہ دینا بھی چراغِ جاں کو مزید روشن کرتا ہے۔ مشکلات کے باوجود اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہیں۔ راستے کے طوفان آپ کے چراغ کو بجھانے کے لیے آتے ہیں، لیکن آپ کے حوصلے کا تحفّظ انہیں ناکام بناتا ہے۔ لہٰذا اپنے چراغِ جاں کی روشنی کو ہمیشہ زندہ رکھیں کیونکہ یہی روشنی آپ کو مشکلات سے نکال کر کامیابی کے مقام تک پہنچائے گی اور دوسروں کے لیے بھی امید کا ذریعہ بنے گی۔زندگی کی راہ میں آنے والے طوفانوں، اندھیروں اور مشکلات میں چراغِ جاں کی روشنی وہ واحد سہارا ہے جو ہمیں اپنے مقصد تک پہنچا سکتی ہے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]