آخری بار دیکھا تھا اسے
پنگھٹ پہ
چھوٹی ندی کے
مٹی کا گھڑا لئے ہوئے
بار بار پانی میں گڑھا گھماتے
چھوٹی لہروں سے کھیلتے
ندیا کے گیت گاتے ہوئے
پھر دفعتا” اک گہرا سکوت سا اوڑھ لیا
ندی کی سطح پہ آنکھیں بچھائے
جیسے تیرنا چاہا
دور بہت دور تک
سانسوں کے آخری کنارے تک
یا سکوت کی آخری گہرائی تک
نومبر کے سورج کی شعائیں
سطح آب پہ تکان اتارنے آ بیٹھیں
چھوٹی چھوٹی لہروں کو
نہ جانے کب کونسا ریلا بہا کے لے گیا
کئی صدیاں بیت گئیں
مجھے یاد آگیا
اسی ندی کے اسی پنگھٹ پہ آکے بیٹھ گیا
بھیگی پلکوں سے کچھ لفظ اتارے
چھوٹی چھوٹی لہروں پہ رکھ دئے
نومبر کی ڈھلتی دھوپ میں
ایک نظم لکھی
بالکل تمہاری جیسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
علی شیداؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد
موبائل نمبر؛9419045087