مشتاق الاسلام
پلوامہ //زرعی و باغبانی شعبے میں خود کفیل ضلع پلوامہ میں 50 فیصد زرعی اراضی اس وقت بھی آبپاشی اسکیموں کے بجائے بارشوں پر منحصر ہے۔ضلع میں کسانوں کا کہنا ہے کہ خشک سالی اور ضلع میں زرعی شعبوں سے منسلک سرکاری محکموں کے آپسی تال میل کے فقدان کے سبب انہیں امسال بڑے خسارے سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔للہارہ،کاکاپورہ،ملنگپورہ،قوئل،رینزی پورہ کے علاوہ سامبورہ،پانپور،چندہارہ اور لیتہ پورہ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ رواں سال خشک موسمی صورتحال نے ان کے زرعی شعبے کو بڑی حد تک متاثر کردیا ہے۔سال 2012 میں سرکار نے ضلع میں ایکسلریٹڈ ایریگیشن بینیفٹ پروگرام کے تحت ریبتارلفٹ اریگیشن سکیم پر تعمیری کام شروع کیا،لیکن 12 سالوں سے یہ اسکیم نامکمل ہونے سے ضلع پلوامہ اور بڈگام کے کئی علاقوں کی سینکڑوں کنال زرعی اراضی اثر انداز ہورہی ہے۔اس اسکیم کو 2012 میں منظور کیا گیا تھا جس کی تخمینہ لاگت 4 کروڑ روپے سے زیادہ تھی اور یہ اسکیم تقریباً 500 ہیکٹر کی آبپاشی کی صلاحیت تھی۔اس اسکیم سے ریبتار کیریوا کو آبپاشی فراہم کی جاتی اور پاری گام نہر پر تقریباً 100 میٹر کی لفٹ کے ساتھ اس منصوبے کو تکمیل پانا تھا۔محکمہ آبپاشی اور فلڈ کنٹرول کے ایک عہدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ آبپاشی اور فلڈ کنٹرول کے مکینیکل ڈویژن نے اب تک تقریباً 20 فیصد مکینیکل مشینری خریدی ہے اور یہ کہ موجودہ اخراجات منصوبے کے سول اور مکینیکل دونوں حصوں پر نہ ہونے کے برابر ہیں۔مقامی لوگوں نے کہا کہ اس اسکیم سے علاقے کے آبپاشی کے مسائل حل ہوجاتے،خاص کرگرمیوں میں جب خشک سالی جیسی صورتحال پیدا ہوتی،لیکن اس کی تکمیل میں تاخیر نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت کسانوں کوآبپاشی کی سہولیات نئے راستے کھول دیتی،اور وہ باغبانی اور زرعی شعبوں میں زیادہ منافع بخش فصلوں کی طرف بڑھ سکتے تھے۔ضلع پلوامہ میں 54 چھوٹی بڑی آبپاشی سکیموں کے باوجود متعدد علاقے دھان کی فصل آبپاشی سہولیات سے محروم ہوئے ہیں۔جہلم میں پانی کی سطح کم ہونے سے بیشتر سکیموں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ روز للہارہ میں کسانوں نے تنگ آمد جنگ آمد کے مذاق آبپاشی اسکیم کے دفتر پر تالا لگادیا۔دریں اثنا پلوامہ کے لاسی پورہ بلاک میںتملہ ہال کے لوگوں نے محکمہ دیہی ترقی (بی ڈی او آفس لاسی پورہ ) پر الزام لگایا ہے کہ بستی میں ایم جی نریگا سکیم کے تحت ندی نالوں اور آبپاشی نالیوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے سیب کے باغات سوکھنے کا خطرہ ہے ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے وہ نہر سے گور کھاہ اور ڈونکل باغ میں آبپاشی نالوں کی صٖفائی اور تجدید و مرمت کا مطالبہ کررہے ہیںتاہم آج تک کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔لوگوں نے انتظامیہ کی مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ کھیتوں اور باغات کی پائیداری اور پیداواری صلاحیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ضلع کے درجنوں علاقوں میں کسانوں کو دھان کی کھیتوں میں اس وقت سینچائی کا مسئلہ درپیش ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ضلع کی 80 فیصد زرعی آراضی کو آبپاشی کی سہولیات بارشوں پر منحصر ہے اور اگر اگست کے مہینے میں خشک سالی کا موسم برقرار رہا تو انہیں بڑے پیمانے پر زرعی نقصان کا تشویش لاحق ہے۔ادھر آبپاشی محکمے نے کسانوں کے مطالبات کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دئے ہیں۔ایگزیکیٹو انجینئر محکمہ آبپاشی نذیر احمد بٹ کا کہنا ہے کہ خدائی قہر کے سامنے مخلوق بے بس ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ للہارہ اور کاکاپورہ کو چھوڑ کرضلع میں اس وقت آبپاشی کی چھوٹی بڑی اسکیمیں کام پر لگی ہے اور کسانوں کو آبپاشی کے حوالے سے کسی قسم کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔