ٹھنڈی چھائوں

  انسپکٹر راشد شام کو جب گھر پہنچا تو احسان کو گم سُم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا ۔اس نے بغیر کچھ پوچھے نہ صرف اس کو ڈانٹنا شروع کردیا بلکہ اس کے معصوم گالوں پر کئی زنا ٹے دار چانٹے ایسے رسید کئے جیسے کسی مجرم سے پوچھ تاچھ کرتا ہو۔مار کھاتے ہوئے احسان ،جس کے گال کشمیری سیب کی طرح سرخ ہوگئے ،کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے اور وہ ممی ممی پکارتا رہا لیکن ممی ، جو اس کے چھوٹے بھائی کو گود میں لئے پیار سے کھانا کھلا رہی تھی ،کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ احسان کی پٹائی کرنے کے بعد جب راشد اپنے کمرے میں داخل ہوگیا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آئی۔
’’ میں احسان بیٹے کے لئے سخت پریشان ہوں ۔یہ کسی کی ایک بھی نہیں سنتا ہے ۔اپنی ہی من مانی کرتا ہے اور دن بدن بگڑتا ہی جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
  اس نے فکر مند لہجے میں راشد کا کوٹ پکڑتے ہوئے کہا ۔
 ’’احسان ابھی بچہ ہے ۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے سدھر جائے گا‘‘ ۔
 راشد نے اس کی بات کاٹ کر کہا اور صوفے پر دراز ہو کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گہری سوچوں میں ڈوب گیا جب کہ ننھا احسان کچھ دیر آنسوں بہانے کے بعد بغیر کھانا کھائے نیند کی دیوی سے بغل گیر ہو گیا ۔راشد کا غصہ بے معنی نہیں تھا ۔آج دن میں جب پرنسپل نے فون کرکے اس کو سکول آنے کے لئے کہا تھاتو اسی وقت اس کا پارہ چڑھ گیا کیوں کہ پہلے بھی پرنسپل نے اس کو سکول بلا کر احسان کی شکایت کی تھی کہ وہ دن بہ دن پڑھائی میں کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اکثر گم سُم اور کھویا کھویا رہتا ہے جب کہ کھیل کود اور دوسری سرگر میوں میں بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
 پرنسپل نے راشد کی موجودگی میں ہی احسان کو اپنے دفتر میں بلا کر چند آسان سوالات پوچھے جن کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکا بلکہ خوف اور انتشار کی حالت میں اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کا ٹتے ہوئے شرمندگی کی حالت میں ادھر اُدھر دیکھتا رہا ۔احسان ،جو ایک ہونہار اور قابل بچہ تھا ،کے اس نکمے پن اور نا قابلیت پر راشد کو سخت صدمہ ہوا اُسکےحیرت اور غصے کی ملی جلی لکیریں نمودار ہو گئیں اور اس نے دانت پیستے ہوئے احسان کو ٹوکنا شروع کیا۔پرنسپل نے اس کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور نہایت ہی مشفقانہ انداز میں احسان کو سمجھاتے ہوئے پڑھائی کی طرف دھیان دینے کی نصیحت کی اور چاکلیٹ دے کر جانے کے لئے کہا ۔
 ’’ پرنسپل صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ اس کو چاکلیٹ کھلارہے ہیں ۔یہ ایسے کیسے سدھرے گا ۔آپ اس کو عقل نما دکھا کر راس کر کیجئے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
 ’’ انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ میں ایک استاد ہوں آپ کی طرح پولیس والا نہیں ،جو ہر وقت ڈنڈا ہاتھ میں لئے رعب جماتا رہوں‘‘ ۔
پرنسپل نے اس کی بات کاٹ کر پھبتی اڑاتے ہوئے کہا ۔
    راشد کا غصہ کچھ کم ہوگیا تو پرنسپل نے اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
     ’’ راشد صاحب ۔۔۔۔۔۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔میں نے ایسے کئی کیسز دیکھے ہیں کہ بچہ ہر وقت کھویا کھویا سا رہتا ہے ، پڑھائی کی طرف دھیان نہیں دے پاتا اور نہ ہی کسی عمل کا مناسب رد عمل ظاہر کر سکتا ہے ۔اس کی کئی وجو ہات ہو سکتی ہیں ۔ بے جا لاڈ پیا ر یا بچے کو بالکل ہی نظر انداز کر دینے سے اس کی نٖفسیات پر کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچہ کئی پیچید گیوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔ہم اسکول میں احسان کا پورا خیال رکھتے ہیں ،آپ اس کی نفسیات جاننے کے لئے گھر میں بھی اس پر خاص توجہ دیں ، اس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔
     پرنسپل نے اس کو تاکید کرتے ہوئے کہا اور وہاں موجود ایک خاتون ٹیچر سے مخاطب ہوا ۔
  ’’مس فرحت ‘‘
  ’’ یس سر ‘‘
  ’’آج سے احسان کا خاص خیال رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے‘‘ ۔
  ’’ بہتر سر ‘‘۔
  دو پہر کے وقفے میں فرحت اپنا ٹفن اٹھائے آئی اور احسان ،جو لان میں بالکل تنہا بیٹھا تھا ، کے پاس بیٹھ گئی ۔
 ’’ احسان ۔۔۔۔۔۔ ذرا دکھائو تو آج لنچ میں کیا پکایا ہے تمہاری ممی نے‘‘ ۔
  اس نے ایک پیار بھری مسکراہٹ کے سا تھ پوچھا ۔
 احسان نے بغیر کوئی جواب دئے جھنجھلاہٹ میں ڈھکن اٹھا کر ٹفن اس کے سامنے رکھ دیا ۔
 ’’چلو احسان شروع ہوجائو ۔۔۔۔۔۔ آج سے ہم روز اکٹھے لنچ کیا کرینگے ‘‘۔
 احسان بے دلی سے مُنہ میں لقمے ڈال رہا تھا جب کہ فرحت غیر محسوس طریقے سے اس کے شب و روز کے بارے میں سوالات پوچھ رہی تھی ۔لیکن اس نے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا بلکہ سرد لہجے میں ہوں ہاں کر کے اس کو ٹالتا رہا ۔اس کے چہرے بشرے اور روئے سے فرحت ،جو سماجیات کی طالبہ رہ چکی تھی ،کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ یہ بچہ کسی پیچیدہ داخلی اُلجھن کا شکار ہے ۔اس دن کے بعد اس کے ساتھ ہی لنچ کرنا ،پیار اور شفقت بھری باتوں سے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرنا فرحت کا معمول بن گیا ۔دھیرے دھیرے احسان کا معصوم دل پگھلنے لگا ، اس کے روئے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی اور وہ فرحت کے ساتھ گھل مل کر خوب باتیں کرنے لگا ۔
 ایک دن فرحت نے احسان کو خوشگوار موڑ میں دیکھ کر اس سے چند سوالات پوچھے ۔احسان نے بھی اب کوئی پردہ نہیں رکھا اور اس کو اپنے بارے میں سب کچھ صاف صاف بتا دیا۔
 ’’ میم ۔۔۔۔۔۔ پا پا دیر سے گھر آتے ہیں ،ممی نہ مجھے پڑھاتی ہے اور نہ ہی کہانی سناتی ہے جب کہ میرے بھائی چھوٹو کو پڑھاتی بھی ہے اور کہانی بھی سناتی ہی ۔چھوٹو کو مجھ سے کھیلنے نہیں دیتی ہے اور مجھے روز باہر جاکر کھیلنے کے لئے کہتی ہے ،جب کہ پا پا مجھے روز ڈانٹتے رہتے ہیں ‘‘
 ’’ وہ کیوں ؟‘‘
 ’’اسی لئے کہ میں باہر جا کر کیوں کھیلتا ہوں ۔وہ کہتے ہیں کہ اپنے دوستوں کو بلا کر گھر میں ہی کھیلو‘‘ ۔
  ’’ پا پا کی بات ماننی چاہیے احسان ‘‘۔ 
 ’’میم ۔۔۔۔۔۔ اگر میں دوستوں کو بلا کر گھر پر کھیلتا ہوں تو ممی مجھے ٹوکتی ہے ۔ اب میں تھوڑی دیر کے لئے باہر جا کر کھیلتا تھا اور پا پا کے آنے سے پہلے ہی واپس آ تا تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر بھی پا پا کو نہ جانے کیسے پتہ چلتا تھا اور وہ مجھے گھر پہنچتے ہی ڈانٹنا شروع کر دیتے تھے ‘‘۔
  ’’ممی اس کو نہیں روکتی ؟ ‘‘
 ’’نہیں میم ۔۔۔۔۔۔ اس وقت وہ بالکل خاموش رہتی ہے‘‘ ۔
 ’’ اب تم کہاںکھیلتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔گھر میں یا باہر ‘‘۔
  ’’کئی پر بھی نہیں‘‘ ۔
  احسان نے حسرت بھرے لہجے میں کہا اور اس کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔
 احسان کی درد بھری داستان سن کر فرحت انگشت بدندان ہو کر رہ گئی ۔معصوم بچے کے ساتھ والدین کی اس بے حسی کو جان کر وہ حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی ۔بہر حال اب وہ اور زیادہ توجہ سے احسان کی دل بہلائی کا سامان کرنے لگی ۔ اب وہ اس کو ہر روز چاکلیٹ بھی دیتی تھی ،بے تکلف ہو کر ہنسی مذاق بھی کرتی تھی اور تھوڑی دیر کے لئے اس کے ساتھ کھیلتی بھی تھی ۔فرحت کے اس فرحت بخش روئیے سے احسان کے معصوم دل پر لگی چوٹوں کا مداوا ہونا شروع ہوگیا تو اس کی سوچ کی تتلیوں نے بھی اپنی نئی راہیں متعین کرلیں ۔وہ پڑھائی اور دوسری سر گرمیوں میں دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ سکول میں اگر چہ اب ہر وقت خوش و خرم رہنے لگا لیکن انجان سی محرومی کے نشان اس کے ماتھے پر ہر وقت رقصاں دکھائی دیتے تھے ۔احسان ، جو تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھا ،کا گولڈن ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد پرنسپل نے اس کا پراگریس رپورٹ دیکھ کر فرحت سے بھی جانکاری لی اور را شد کو فون کر کے بلایا ۔
 دوسرے دن احسان ،جس کے دل پر باپ کے طمانچوں کی چوٹ اب بھی موجود تھی ،باد صبح کے جھونکوں میں کتابوں کا بھاری بستہ لئے بوجھل قدموں سے سکول روانہ ہوا ۔ لنچ کے وقت حسب معمول فرحت آکر اس کے پاس بیٹھی تو اس کا چہرہ اتر ا ہوا تھا اور وہ کھویا کھویا سا لگ رہا تھا ۔
’’ احسان ۔۔۔۔۔۔  تمہارا موڑ خراب کیوں ہے ،چلو ٹفن نکالو ‘‘۔
’’ نہیں میم ۔۔۔۔۔۔ آپ کھا لیجئے میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس سے آگے وہ کچھ نہیں بول سکا ، اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔
’’ اچھا تو آج تم پھر ٹفن نہیں لائے ہو ۔۔۔۔۔۔ چلو میرے ہی ٹفن سے کھا ئینگے دونوں‘‘ ۔
فرحت نے پیار سے اس کا گال سہلاتے ہوئے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا اور وہ کھانا کھانے میں مشغول ہوگئے۔
’’وہ دیکھو تمہارے پا پا آگئے ‘‘۔
کھانے کے دوران فرحت نے احسان کو بتایا تو پاپا کا نام سنتے ہی کھانے کا لقمہ اس کے مُنہ میںاٹک کر رہ گیا ۔اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو پا پا کو اپنے سامنے دیکھ کر خوف سے سہم گیا ۔
’’ احسان ۔۔۔۔۔۔ تمہارا ٹفن کہاں ہے ؟بیگ میں رکھا ہے ؟‘‘             
رسمی الفاظ ادا کرنے کے بعد احسان کے بغیر تمام بچوں کے سامنے ٹفن دیکھ کر اس نے احسان سے پوچھ لیا۔
’’ نہیں پا پا ۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ـــ۔۔۔‘‘۔
’’ احسان ۔۔۔۔۔ کیا ہوا ،کہاں ہے تمہارا ٹفن‘‘ ؟
’’پاپا۔۔۔۔۔۔ ممی نے آج ٹفن نہیں دیا تھا نا‘‘۔
کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں درد کا بیکراںسمندر سا اتر آیا جبکہ راشد ،جو غور سے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ،کے چہرے پر غصے اور تاسف کی ملی جلی لکیریں نمو دار ہوگئیں ۔
’’جائو بیٹا ۔۔۔۔۔۔ کنٹین سے کچھ چپس وغیرہ خرید کر کھالو‘‘۔
’’ نہیں پا پا ۔۔۔۔۔۔ میں نے میم کے ساتھ پیٹ بھر کھانا کھا لیا‘‘ ۔
’’اس معاملے میں یہ بڑا کنجوس ہے سر ۔۔۔۔۔۔ کبھی ایک چاکلیٹ بھی نہیں خریدتا ہے‘‘ ۔
’’ فرحت نے موقعے کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے احسان کی چٹکی لیتے ہوئے کہا ‘‘۔
’’کیوں بیٹا ۔۔۔۔۔۔ تم کنجوس کب سے ہو گئے ،کبھی کچھ خریدتے کیوں نہیں ہو‘‘۔
’’پا پا ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس پیسے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس نے ادائے معصومانہ سے اپنی جیب کی طرف دیکھتے ہوئے بات ادھوری چھوڑدی۔راشد کے کانوں میں جیسے پگھلتا ہوا سیسہ اتر گیا اور سر پہ غصے کا بادل چھا گیا۔اس نے جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر احسان کو تھمادیا اور بے چینی کی حالت میں پرنسپل کے دفتر کی طرف بڑھ گیا ۔
’’ آئیے راشد صاحب۔۔۔۔۔۔ میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا ،مجھے آپ کو یہ خبر سناتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اس بار احسان نے نہ صرف کلاس میں ٹاپ کیا ہے بلکہ اس کا رویہ بھی کافی حد تک ٹھیک ہو گیا ہے‘‘ ۔
’’شکریہ پرنسپل صاحب ۔۔۔۔۔۔ یہ آپ ہی کی محنت اور شفقت کا نتیجہ ہے‘‘ ۔   
راشد نے خوش ہو کر کہا۔  
 ’’ یہ سارا کریڈت احسان کی ٹیچر فر حت کو جاتا ہے ۔جس نے اس کی پڑھائی کی طرف خاص توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی نا آسودگی کی وجہ جاننے کے لئے بھی کافی محنت کی۔فرحت نے ایک رپورٹ بھی مرتب کی ہے‘‘ ۔
پرنسپل نے اس کی طرف ایک فائیل بڑھاتے ہوئے کہا جس میں تٖفصیل سے احسان کی کیس ہسٹری درج تھی ۔راشد انہماک سے فائیل پڑھنے میں مصروف ہو گیا ،اس دوران دفعتاً اس کے چہرے کے جغرافیہ میں ہل چل مچ گئی ۔اسے لگا جیسے اس کے مُنہ میں زبر دستی زہریلی کڑوی گولیاں ٹھونسی جا رہی ہوں ۔
’’شکریہ پرنسپل صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ نے میری آنکھیں کھولدیں‘‘۔
’’ رپورٹ پڑھنے کے بعد اس نے گلو گیر لہجے میں کہااور اس کی آنکھیں بھر آئیں‘‘۔
’’ راشد صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ اتنے اپ سیٹ کیوں ہو گئے‘‘؟
پرنسپل نے اس کے چہر ے پر ابھرنے والی تنائو کی گہری لکیروں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ پرنسپل صاحب ۔۔۔۔۔۔ دراصل احسان کی اس حالت کا ذمہ دار میں ہی ہوں کیوں کہ اس کے جنم کے دو سال بعد ہی یہ ممتا کی ٹھنڈی چھائوں سے محروم ہوا تھا اور میں نے دوسری۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کہتے ہوئے آواز اس کے گلے میں اس طرح اٹک گئی جیسے مچھلی کا کانٹا پھنس گیا ہو اور وہ گہری سوچوں ڈوبا بوجھل قدموں سے وہاں سے نکل گیا ۔
رابطہ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔اجس بانڈی پورہ(193502 ) کشمیر
ای میل ۔۔۔۔۔۔۔tariqs7092gmail.com