سبزار احمد بٹ
انسانی معاشرے اور سماج کو روزِ اول سے ہی مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا پڑ رہا ہے ۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل اور مُشکلات بدلتے رہتے ہیں ۔ ان مسائل اور مشکلات میں بیشتر مسائل ایسے ہیں جو انسان کے خود پیدا کردہ ہوتے ہیں ۔ چاہیے ماحولیاتی آلودگی کا معاملہ ہو یا منشیات کی وباہ، اخلاقیات کا روبہ زوال ہونا ہو یا رشتوں کی پامالی اور خاندانوں کا بکھرتا ۔ دراصل اللہ رب العزت نے ایک پورا نظام بنایا ہوا ہے جس کے تحت اگر انسان زندگی گزارے تو سب کچھ بہتر طریقے سے چلے گا ۔ بات تب بگڑتی ہے جب انسان اس نظام کے خلاف اپنی زندگی گزارنا شروع کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو وہ ہر لحاظ سے محتاج ہوتا ہے ۔ لیکن اللہ نے اس کی مدد اور رہنمائی کے لئے اس کے والدین، دادا دادای، نانا نانی، چاچا چاچی اور باقی رشتوں کی صورت میں انتظام کیا ہوتا ہے ۔ سب لوگ اُس سے پیار کرتے ہیں ۔اُسے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتے دیتے ہیں ۔ایک بچے کے ساتھ اگر یہ رشتے جڑے نہیں ہونگے تو بچے کی زندگی گزارنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی ہے یہ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اپنے ان رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے یہ اللہ کا حکم ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کیجئے ۔ جب یہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے والدین کو، دادا دادی اور نانا نانی کو اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اُس وقت یہ انسان ان رشتوں کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور دنیا کے تمام مذاہب میں رشتوں کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور قرآن کریم میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گی ہیں اور رشتے داروں سے صلہ رحمی پر زور دیا گیا ہے ۔ لیکن بدقسمتی کی وجہ سے موجودہ دور میں جہاں مختلف مسائل اور مشکلات نے انسانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہے، وہاں رشتوں کا بکھرنا اور خاندانی تصور کا مٹنا بھی ایک اہم مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے ۔ آجکل انسانی رشتے بکھر چکے ہیں ۔ رشتوں کی اہمیت اگر ختم نہیں تو کم سے کم کم ضرور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک زمانہ ایسا تھا جب گاؤں کا کوئی بھی بزرگ اس قدر با اختیار ہوتا تھا کہ کسی بھی گاؤں کے بچے کو ڈانٹ سکتا تھا اور کسی میں یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی بزرگ کو ایسا کرنے سے روکتا ۔ والدین اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے کہ ان کے بچوں کو کسی بزرگ نے ڈانٹا یا ہمارے بغیر بھی ہمارے بچوں پر کوئی نظر رکھنے والا ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گاؤں کے بزرگ سب بچوں کے لیے دادا دادی، نانا، نانی، جیسی اہمیت رکھتے تھے اور بزرگ بھی یہ فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے ۔ رفتہ رفتہ انسانی مزاج میں تبدیلی آتی گئی ۔ والدین نے بھی یہی سمجھا کہ ہمارے بچے کو کوئی کیوں ڈانٹے ،جو مرضی ہمارا بچہ کرے ،اس پر صرف اپنے خاندان کے لوگوں کا حق ہے ۔ ماں باپ کا، دادا دادی کا یا نانا نانی کا۔ اس طرح سے بزرگوں کی اہمیت کم ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ ہمارے بچے بزرگوں کے سامنے کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کرنے لگے وہ سمجھ گئے کہ یہ آزادی انہیں اپنے والدین نے دی ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی بزرگ کسی بچے کو نصیحت کرنے کی کوشش کرتا تو بچے پر ناگوار گزرتا اور بچے بزرگوں کے منہ بھی لگنے لگے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس سب سے اپنا پلو جھاڑنا شروع کر دیا۔ شاید اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ؎
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو
کہ بچے اب پلٹ کر بولتے ہیں
بات یہی پر ختم نہیں ہوئی والدین نے دھیرے دھیرے بچوں پر نظر رکھنے اور بچوں کو ڈانٹ ڈپت کا اختیار دادا دادی اور نانا نانی سے بھی چھین لیا۔ والدین نے یہی سمجھا کہ ہمارے بچے آزاد رہنے چاہیے، جس طرح سے بچوں کو باقی بزرگوں سے آزادی دلائی گئی، اُسی طرح سے دادا دادی، نانا نانی اور باقی قریبی رشتہ داروں سے بھی آزادی دی گئی اور والدین نے بچوں کو اپنے آپ تک محدود کر دیا۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے بچے جب اپنی دادا دادی اور نانا نانا کے پاس بیٹھتے تھے تو گھر کے یہ بزرگ انہیں ایسی کہانیاں سناتے تھے جس سے نہ صرف ہمارے بچوں کی یادداشت میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ ہمارے بچے غیر شعوری طور پر بہت سی اخلاقی قدریں سیکھتے تھے، جس سے بچے با اخلاق بنتے تھے ۔ اور بچوں پر عمر بھی ان کہانیوں کا اثر رہتا تھا ۔ جیسے آپ لوگوں کو بھی اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی سنائی گئی کہانیاں ابھی یاد ہونگی ۔ لیکن بچوں کو ان بزرگوں سے الگ کر کے دراصل پریوں کی کہانیوں سے الگ کر دیا گیا ۔ بقول شکیل اعظمی ؎
کہیں دادی کہیں نانی سے الگ کر دئیے گئے
بچے پریوں کی کہانی سے الگ کر دئیے گئے
جنگ لڑنے کے لیے سین میں لائے گئے ہم
امن ہوتے ہی کہانی سے الگ کر دئیے گئے
خیر ہم نے اپنے بچوں بلکہ نئی نسل کو ان دو حصاروں سے آزادی دلا کر انہیں اپنے آپ تک محدود کر دیا ۔ لیکن اب بچوں کو والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی دم گھٹنے لگا اور وہ اس آخری حصار سے بھی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے ۔( آج ہمارے گھروں میں ایک نئ مصیبت نے جنم لیا ہے ۔ گھر کا کوئی فرد اگر بچے کو ڈانٹے تو بچہ فوراً روٹ جاتا ہے اور گھر کے باقی افراد اس شخص سے سوری(sorry) کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں ،وہ سوری کرتا ہے اور بچہ ناراضگی چھوڑ دیتا ہے اور سب لوگ ہنسنے لگتے ہیں ۔ بظاہر سب کے لیے یہ ایک مشغلہ ہو سکتا ہے لیکن اس عمل سے بچے کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور اس میں قوت برداشت کم ہوجاتا ہے)۔ بہرحال اس سب سے نتیجہ یہ ہوا کہ رشتوں اور خاندانوں کا تانا بانا بکھرنے لگا۔ ماں باپ نے اپنے بیٹے پر اختیار کھو دیا ۔ یہ رشتوں اور خاندانوں کا تانا بانا مغربی ممالک میں بہت پہلے بکھر چکا تھا اور وہ اس وقت خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔ جہاں ہر نئے دن کے ساتھ اولڈ ایج ہومز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ نہ بیٹا باپ کا ہے نہ بیٹی ماں کی، نہ بھائی بھائی کا ہے اور نہ بیوی شوہر کی ۔ ہر روز طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ہم مغربی طرز کے نظام زندگی کو تو اپنانے نہیں جا رہے ہیں ۔اگر ایسا ہے تو ہمیں بربادی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ہم اگر اپنے آپ سے آج یہ سوال کریں گے کہ ہم میں سے کتنے لوگوں کے والدین زندہ ہیں، ہم میں سے کتنے لوگوں کے قریبی رشتہ دار زندہ ہیں؟ اور کیا ہم ان کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ کیا ہم اپنی بہنوں اور اپنے بھائیوں کے گھر جاتے ہیں ؟ کیا ہم نے رشتوں میں پیدا ہوئی ناراضگی کو مٹانے کی پہلی کی ہے،سال میں ہم کتنی بار اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں؟کہیں ہم رشتہ داروں کے پاس جانا معیوب تو نہیں سمجھتے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہمیں کسی دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے پوچھنے ہیں ۔ کیونکہ آج جو کچھ ہم کریں گے ہمارے بچے وہی کچھ سیکھیں گے، وہ وہ نہیں سیکھتے ہیں جو ہم انہیں کہتے ہیں بلکہ وہ سب سیکھتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ ہم اپنے ماں آپ کا خیال رکھیں گے تو کل ہمارے بچے ہمارا خیال رکھیں گے ۔ہم اپنے والدین کے ساتھ خدا نخواستہ بدسلوکی کریں گے تو کل ہمارے بچے ہمارے ساتھ کریں گے اور یہ انسانی فطرت ہے، اس میں کوئی رحم نہیں ہے۔ کہتے ہیں نا ’’ قدرت میں رحم ہے فطرت میں نہیں‘‘ آج کل رشتوں کی اہمیت اس قدر بگڑ گئی ہے کہ جوان بیٹا اپنی ماں اور اپنے باپ کو سرِراہ ذلیل کرتا ہے ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ہاے افسوس! جگر چھلنی کر دینے والے ویڈیوز منظر عام پر آجاتے ہیں ۔ کہیں پر ماں اپنا زخمی چہرہ لے کر نمودار ہو جاتی ہے کہ بیٹے نے مارا ہے، تو کہیں پر باپ اپنی روداد سناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔
افسوس صد افسوس !یہ معاملات دیکھ کر ہر ہر ذی حس انسان دم بہ خود ہوجاتا ہے ۔ آخر ہمیں ہو کیا گیا ہے، ہم کس جانب جا رہے ہیں ۔ کہیں ہم نے یہ بیج خود تو نہیں بوئے ہیں جن کا اب ہمیں پھل ملنے لگا ہے ۔ہم نے اپنے پیارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ جن تعلیمات میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ ماں کے کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے ۔آجکل جہاں ہر طرف تعلیم کا دور دورا ہے وہاں ہماری اخلاقیات کو کیا ہوا ہے ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، آپ سے پوچھتا ہوں ۔ ممکن ہے کہ آپ کے پاس ان سوالات کے بہتر جوابات ہوں یا ان مسائل کا حل ہو ۔ لیکن میں اپنی رائے دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں ۔ اخلاقیات یا تو مذہبی تعلیمات سے ممکن ہے یا بزرگوں کی صحبت سے یا کتابوں سے ۔ لیکن افسوس ہم نے اپنے بچوں کو درسگاہوں سے بھی دور رکھا ہے، بزرگوں کو پہلے ہی ہم نے اپنی زندگی سے تقریباً تقریباً نکال دیا ہے اور کتابوں کے پاس ہمارے لیے وقت ہی کہاں ہے۔ ہم فقط وہ ہی کتابیں پڑھتے ہیں جن کا ہمیں امتحان دینا ہوتا ہے۔ باقی ہمیں موبائل ہی نہیں چھوڑتا ہے اور پھر اخلاقیات یا اخلاقی قدریں اگر پیدا ہونگی تو کہاں سے؟ ہمیں پھر ایک بار اپنی روایات کو بحال کرنا ہوگا ۔ بزرگوں اور گھر کے بڑوں کو عزت و احترام دینا ہوگا ۔ اپنے بچوں کو درسگاہوں کی راہ دکھانی ہو گی تاکہ پھر سے ٹوٹتے رشتے اور بکھرے خاندان بحال ہوں ۔
رابطہ۔7006738436