ٓنکھوں کا نور دل سرور

نور کی ایک کرن سیاہ اندھیروں کا سینہ چیر دیتی ہے ۔اللہ نے آنکھوں میں شمس وقمر کی دنیا بسا کر اپنے نور کو عام کر دیا ہے۔آنکھوں کا صحیح استعمال رونقِ زندگی کی ضمانت ہے اور ان کا غلط استعمال نور وسرور سے محرومی کی دلیل ہے ۔ صحیح سلامت آنکھیں وہ دلکشا اوردل فریب وادیاں ہیں جن سے علم و ادب کے قافلے گزر تے ہیں۔اگر انکھوں پر اندھیرا چھاجائے تو یہ ظلمتوں کا ٹھکانہ بھی اور جہل کا آشیانہ بھی یہی، یہ شیطان بننے کی راہ، اخلاقی بگاڑکی منزل بھی یہی ۔ دوسرے لفظوں میں نیک و بدکی کنجی یہی آنکھیں بنتی ہیں۔جو انسان آنکھوں کا غلط استعمال کرتا ہے اُس کااندرون ویران اور بیرون خستہ حال ہوجاتاہے۔قدرت کا قانون ہے کہ جس کسی نعمت کی بے قدری ہو وہ چھین ہی نہیں لی جاتی بلکہ بدلے میں ناقدری کر نے والے کوسزا بھی دی جاتی ہے۔ اگر آنکھیں نور کی اعلیٰ منزل سے اُتر کر جہالت و نخوست کی نابینائی میں اٹک جائیں تو یہ اگر دیکھ بھی لیںلیکن نور کی نظرسے نہیں دیکھتیںبلکہ اندھی ہوجاتی ہیں کیونکہ ان پر بے بصیرتی کی مہر لگ جاتی ہے کہ یہ حق بات تسلیم نہیں کرتیں،ان میںحیا باقی رہتی ہے نہ لاج شرم،ان کی داخلی دنیا ندامت کے آنسوؤں سے خالی ہو جاتی ہے، پھران میں آوارگی بستی ہے ہیںجودلوںکو تباہ کرنے کے لئے اٹم بم سے بھی زیادہ خوفناک ہوتی ہے ۔وہ آنکھ والا خدا کا شکرکر ے جو دائمی سچائی کے حسن کا دیدار کرنے کی اہلیت رکھتا ہو ۔ایسی آنکھیں کبھی زوال کی شکار نہیں ہوتیں۔ایسی خوش نصیب آنکھیں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے نام لکھ دی جاتی ہیں۔خداکے نور کی ایک کرن کوہ ِ طورپر پڑی تو سوختہ ہو گیا مگر موسیٰ کلیم اللہ ؑ کی آنکھیں بھی کھول گئی ۔ فرعون کی آنکھوں نے اللہ کے برگزیدہ پیغمبر کی بصیرت و بصارت کا انکار کر کے ابراہیم خلیل اللہ کو زندہ جلانے کی کوشش کی مگر اللہ کے نور سے ہر شئے دیکھنے والی براہیمی آنکھ کا بال بیکا نہ کرسکا ۔ آنکھوں کے نور کی خیانت سے قومیںمٹ گئیں،نسلیں ویراں ہو گئیں، تہذیبیں بر با دہوئیں ۔آیئے ہم ان آنکھوںسے خدا تک پہنچانے والی کائناتی نشانیوں یعنی آیاتِ الٰہیہ کا مطالعہ ومشاہدہ کریں ۔