فنِ تاریخ نگاری میں کشمیر کو یہ امتیاز رہا ہے کہ کشمیر کی صدیوں کی تاریخ کا اہم حصہ منظم انداز سے تحریری صورت میں محفوظ ہے جس کا ثبوت مشہور کتاب'' راج ترنگنی''(کلہن۔۔۔ 1100ء) ہے اگرچہ اس کتاب سے پہلے بھی چند تاریخی دستاویزات لکھی گئی تھیں تاہم راج ترنگنی کی مقبولیت اب بھی قائم ہے۔ اس کے بعد کئی اہم تاریخی تصانیف سامنے آئیں اور کشمیر کی تاریخی 'سیاسی 'سماجی'تہذیبی'معاشرتی روداد مورخین رقم کرتے رہے۔ خیر سردست زیر نظر تصنیف ''ویتھ'' کے ڈسکورس پر مختصر گفتگو کرنا مطلوب ہے تو ''ویتھ'' کشمیر کے معروف افسانہ نگارراجہ یوسف کی تحریر کردہ ایک ایسی تصنیف ہے جس میں کشمیر کے اہم تاریخی واقعات کو تخلیقی پیرائیہ میں تمثیلی روپ دیا گیا ہے جوکہ ایک تو قاری کو کشمیر کی تاریخ سے متعلق جستہ جستہ واقفیت بہم پہنچاتاہے اور دوسرا تمثیلی اسلوب کی دلکشی سے بھی نواز تا ہے۔ تاریخی واقعات کو تمثیلی یا ڈرامائی روپ دینا اور تخلیقی پیکر میں ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ فنکارانہ اسلوب کسی تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیت کا جواز فراہم کرنے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے اور راجہ یوسف صاحب اس کسوٹی پر کھرا اترتے نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے کتاب میں کشمیر کی تاریخ کے اہم حصوں کوبڑی فنی مہارت سے تمثیلی روپ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کتاب کے نام ''ویتھ '' پر غور کریں تو یہ کشمیر کا ایک تاریخی دریاہے جو آج ''دریائے جہلم '' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موضوع کے تعلق سے کتاب کا نام مناسب ہے کیونکہ دنیا کی تقریبا ہر بڑی تہذیب یا قوم کی تاریخ کا رشتہ کسی نہ کسی دریا سے جڑا ہوا ہے اور کشمیر کی تہذیب وثقافت اور تاریخ کا رشتہ بھی دریائے جہلم سے جڑا ہوا ہے۔ تو ان تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی کڑیوں کو جوڑ کر جو منظر نامہ نقش ہوتا ہے وہ ’’ویتھ ‘‘میں پیش ہوئے منظر نامے بصورت بادشاہی اور دوسرے عوامی و درباری کرداروں اور واقعات و روایات‘فن و ثقافت وغیرہ میںبڑی خوبصورتی کے ساتھ رقصاں نظر آتاہے۔کتاب میں کئی اہم موضوعات کے مطابق کشمیر کے راجہ مہاراجوں کی طرز زندگی‘حال واحوال اور سوچ سمجھ کے ساتھ ساتھ ان کے دور بادشاہت کی رعایا پروری‘ عدل وانصاف‘عشق و عاشقی ‘ہوس پرستی ‘ظلم وستم ‘جنگ وجدل وغیرہ کی ڈرامائی عکاسی کی گئی ہے۔ جن کو پڑھ کر قاری کے سامنے ان ادوار کے سارے سین ڈرامائی صورت میں سامنے آتے ہیں۔یہ کتاب کی ایک اہم خوبی قرار دی جاسکتی ہے کہ قاری پڑھنے کے دوران خود کو ان ادوار کے نشیب وفراز میں موجود پاتا محسوس کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب پڑھنے کے دوران قاری کوکسی قسم کی بوریت کا احساس تک نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے ایک تو اپنی تواریخ سے آشنا ہو جاتا ہے، دوسرا دلچسپ کہانیوں سے حظ بھی اٹھاتا ہے۔
اب اسلوب اور تکنیک کی بات کریں توکتاب کا اسلوب اتنا دلکش اور قابل فہم ہے کہ ہر ایک کہانی اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے اور ڈرامائیت سے بھرپور نظر آتی ہے۔
کتاب کا آغاز خوبصورت اور دلکش منظر نگاری کے ساتھ فسوں خیز اسلوب میں کیا گیاہے۔ بہار کی ٹھنڈی صبح میں جب سورج کی ملائم چمکیلی شعائیں برف سے ڈھکی سفید چوٹیوں پر پڑتی ہیں اور ڈل جھیل کے پانی کے قطروں کو موتیوںکی طرح چمکاتے ہیں تویہ سماں ایسے باندھا گیا ہے کہ قاری جمالیاتی لطف (Aesthetic enjoyment) سے محظوظ ہوتا ہے۔اب اجمالی نظر کہانیوں اورکرداروں پر ڈالتے ہیں:
’’ راجہ نیل ناگ ‘‘پہلی کہانی ہے‘ جس میں ’ستی سر‘ اور اس کے مکین دیوؤں کا ذکر ہے۔ یہ دیو جو یہاں کی پہاڑیوں میں رہنے والے انسانوں پر اتنے مظالم ڈھاتے تھے کہ ان کو کچا تک کھا جاتے تھے۔ پاتال کے راجہ ’’نیل ناگ‘‘اور اس کی کتاب ’’نیل مت پران ‘‘ کا خلاصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس میں انسانوں کے رہنے سہنے / آدرشوں اور ہدایات کی پوری جانکاری دی گئی ہے۔ یہ کتاب اگر دنیا کی پہلی کتاب کہی جائے تو یہ سہرا بھی کشمیر کے سر ہی جاتا ہے۔
’’رانی جشومتی‘‘پہلی خاتوں حکمران ہے جس نے کشمیر پر راج کیا۔ اور پہلی خاتون تھی جو شیومت چھوڑ کر شری کرشن کی پوجا کرتی تھی (یہ وہ وقت تھا جب کشمیر کے سارے رہنے والے شیومت کے بپجاری تھے اور شری کرشن کا نام لینا تک یہاں جرم تھا۔) رانی جشو متی کا شوہر راجہ دامودر جنگ میں شری کرشن کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ پھر بھی اس کی بیوی جشو متی شری کرشن کی پوجا کرتی تھی اور اسی کے آشرواد سے کشمیر کے تخت پر بیٹھ گئی۔
’ ’ہرن دیو ‘‘(راجہ رام دیو) کا باپ اور پانڈو راج کا راج کمار تھا۔ جو جان بچانے کے لئے کشمیر آتا ہے اور یہاں کا راجہ بن جاتا ہے۔ اس کا بیٹا ’’راجہ رام دیو‘‘کشمیر کا دوسرا بڑاشاہ کہلا تا ہے۔ اس راجہ نے کشمیر اور کشمیر کے لوگوں کی بہتری کے لئے بہت کام کئے تھے۔
’’جادوگر ترجن‘‘ کی کہانی مزے دار ہے۔ جبکہ راجہ ’’نل سین ‘‘ایک ظالم بادشاہ گزرا ہے۔ ہم کشمیری میں اس آدمی کو نل سین بولتے ہیں جو ایک تو برا ہو اور کسی کی سنتا بھی نا ہو۔
’’راجہ اشوک ‘‘کے بیٹے’’ راجہ جلوک ‘‘کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ایک اچھا راجہ ان چمار چنڈال لوگوں کے ساتھ بھی انصاف کرتا ہے جن کی وجہ سے اس کا باپ راجہ اشوک تخت چھوڑنے پر مجبور ہواتھا۔
’’راجہ للیتا دتیہ‘‘کشمیر اور کشمیر کے لوگوں کی نبض پہچانتا تھا۔ وہ نہ صرف حکمرانی کے سارے گر جانتا تھا بلکہ عوام کی خوشحالی کی طرف بھی دھیان دیتا تھا۔اس کی فتوحات کا لمبا سلسلہ کتاب کا اہم ڈرامہ ہے۔
’’چندر مکھی‘‘ ’’مستان مژ ‘‘اور ایسے کئی دوسرے رومانی کرداروں نے کتاب کو رومان انگیز بنا دیا ہے۔ خوبصورت اور دل کو چھو لینے والے رومان پرور مکالمے قاری کو مدہوش کردیتے ہیں۔
’’ویتھ ‘‘کو اگر کشمیری کہانی کا تمثیلی مکالمہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ اس میں کئی دل کو چھو لینے والے مکالمے ہیں ‘ غم وخوشی کے تاثرات چھوڑنے والے ڈرامے ہیںاور حقارت اور نفرت بڑھانے والی کہانیاں ہیں ‘ جن کا ذکر نادلچسپی سے خالی نہیں رہتا لیکن مضمون کی طوالت کا خیال آڑے آتا ہے۔
تکنیک کی بات کریں تو کتاب کی کہانیوں کودلچسپ بنانے میں تکنیک نے اہم رول ادا کیا ہے کیونکہ تخلیق کارنے سبھی کہانیاں ’’ویتھ‘‘یعنی دریائے جہلم کی زبانی سنائی ہیں اور مخصوص ہئیت (Form) میں کہانیوں کو فسوں خیز بنانے کے لئے کہیں کہیں پر اسطوری اسلوب( Mythical style) بھی اپنایا ہے جوکہ تاریخی حقائق اور دیومالائی کرداروں کے حیرت انگیز ملاپ سے کتاب کی فنی و موضوعاتی اہمیت میں چار چاند لگا رہا ہے۔ کتاب کی اہمیت کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ویتھ کی صورت میں راجہ یوسف کا یہ فنی کارنامہ نہ صرف قابل داد ہے بلکہ قابل اعزاز بھی ہے کیونکہ یہ کشمیری زبان میں غالباََ پہلی نثری ادبی و فنی کاوش ہے جو کشمیر کہانی/تاریخ کو تمثیلی انداز سے کتابی صورت سامنے آئی ہے ‘ اور ساتھ ہی میں اس خواہش کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا اردو اور دوسری زبانوں (خصوصاََ ہندی اور انگریزی)میں ترجمہ بھی ہونا چاہئے ۔ کتاب کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کشمیری زبان وادب کے معروف ادیب ودانشور غلام نبی آتش صاحب رقمطراز ہیں:
’’یہ کتاب چھِ پننہ قسمچ گوڈنچ کتاب۔ یہ چھ رلہ ملہ تاریخ‘تالیف تہ تصنیف۔کاشرس ادبس چھ یہ اکھ بار دیت۔۔۔‘‘ (ویتھ :ص ۱۰)
’’یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔یہ تاریخ ‘تالیف اور تصنیف کا مرکب ہے۔کشمیری ادب کے لئے یہ ایک اہم اضافہ ہے۔‘‘
وڈی پورہ ہندوارہ، کشمیر