بلال فرقانی
سرینگر// وزیر اعلیٰ کے اس بیان کہ رواں مالی سال کے دوران6 ہزار کروڑ روپے کی رقم ٹھکیداروں کو واگزار کی گئی، پر تبصرہ کرتے ہوئے سینٹرل کنٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ یہ رقم ابھی تک ٹریجریوں سے واگزار ہونا باقی ہے، شمال و جنوب رابطہ پروگرام کے تحت ہفتہ کو جموں و کشمیر سینٹرل کنٹریکٹرز کارڈی نیشن کمیٹی نے سرینگر میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا۔ اس پروگرام میں کارڈی نیشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق احمدڈار،نے وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا جس میں وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ مالی سال 2024-25کے لیے حکومت نے کنٹریکٹروں کو 6,184 کروڑ روپے کی ادائیگی کر دی ہے اور 7 جنوری 2025 تک تمام بلوں کی تصفیہ کر دی گئی ہے۔فاروق احمدڈار نے وضاحت کی کہ اگرچہ محکموں کی جانب سے یہ رقم جاری کی گئی ہے، تاہم یہ رقم ابھی تک سرکاری خزانے سے واگزار نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا ’’ وزیر اعلیٰ کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ یہ رقم ابھی تک ریاستی خزانے سے نہیں نکالی گئی۔‘‘ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ موجودہ مالی سال کے بیشتر فنڈس ابھی تک جاری نہیں ہوئے کیونکہ خزانے خالی ہیں۔ڈاار نے کیپکس بجٹ کے 30فیصد سے زائد فنڈس کے غیر واگزار ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال کے چند دن باقی ہیں اور اس کے باوجود ابھی تک ایک بڑی رقم جاری نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید خبردار کیا کہ رواں مالی سال میں ترقیاتی فنڈس کا 30فیصد حصہ ضائع ہو سکتا ہے، جو جاری منصوبوں پر اثر انداز ہو گا۔انہوں نے خاص طور پر جَل جیون مشن کے تحت 700 کروڑ روپے، 2014 میں سیلاب کی بحالی کے لیے 785 کروڑ روپے، اور محکمہ آبپاشی کے 400 کروڑ روپے کے غیر واگزار ہونے کی مثالیں دیں۔ڈار نے ای ٹینڈرنگ کے حوالے سے جاری مسائل پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ 10 لاکھ روپے تک کی ای ٹینڈرنگ سے استثنیٰ، 5 کروڑ روپے تک کے بغیر شرط ٹینڈرز، اور میٹریل کی دستیابی میں غیر معمولی فرق پر تحقیقات کی جائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 50 سے 60 فیصد ٹینڈرز جمع نہیں کیے جا رہے ہیں اور اس پر بھی تحقیقات کرانے کی درخواست کی۔فاروق احمد دار نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ محکمہ ایسٹیٹس کے ٹینڈر میں 64فیصد کی کمی آ گئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کس طرح 15فیصد ٹیکس کی ادائیگی کے بعد 20فیصد منافع رکھا جا سکتا ہے اور پھر باقی کام کا خرچ کس طرح پورا کیا جائے گا۔